خاموشی بھی عجیب کیفیت ہے۔ کہیں یہ مشکل سے مشکل مراحل
کو آساں کر دیتی ہے اور کہیں بظاہر آسان معاملات کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
خیر اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی لیکن فوائد زیادہ ہی بتائے گئے
ہیں۔ سو زیادہ تر محاورے اور ضرب المثال بھی اس کے حق میں نظر آتی ہیں۔ ملکِ
خداداد کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ یہاں خاموش رہنے والوں کو بولنے والوں سے
زیادہ کامیابیاں ملی ہیں۔ یہ بحث الگ کہ کون حق پہ تھا اور کون باطل۔ بعض
معاملات تو ایسے ہیں کہ جن پہ خاموش رہنا ہی سب سے سود مند عمل سمجھا جاتا
ہے۔ جیسا کہ اگر آپ کا کوئی عزیز لاپتہ ہو جائے تو خاموش ہو جائیے۔ بالکل
نہ بولیے کیونکہ اگر بولیں گئے تو ہو سکتا ہے کہ اغواہ کار ناراض ہو جائیں
اور پھر اس کے نتائج کیا نکلیں یہ تو اب بیشتر پاکستانی تصور کر ہی سکتے
ہیں۔ اور اگر خوش بختی سے کبھی وہ لاپتہ فرد واپس آ جائے تو پھر تو بالکل
ہی نہ بولیے اور اسے بھی کہیے کہ اب خاموشی کو ہی عبادت جانو اور اسی عبادت
میں مشغول رہتے ہوئے تارک الدنیا ہو جاؤ۔ ویسے زیادہ تو اتنا کہنے کی بھی
ضرورت نہیں پڑتی۔ آنے والا اتنی تربیت تو لے کر ہی آتا ہے۔ اور جو تربیتی
عمل میں بھی سیدھا نہ ہوپائے تو اس کے لیے اور بہت سے راستے ہوتے ہیں جن کے
تحت اسے عبادت گزار بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تربیتی مراکز میں اشیائے خورد
و نوش کی تو کوئی کمی نہیں ہوتی۔ دو وقت کا لنگر باقاعدگی سے ملتا ہے اس
لیے تربیتی عمل تب تک جاری رہ سکتا ہے جب تک مطلوبہ نتائج نہ حاصل ہو جائیں۔
کھانا پینا ملتا رہے تو سانس کی ڈور چلتی رہتی ہے۔ ہاں دیگر ضروری حاجات
پوری نہ بھی ہوں تو کیا ہے۔ تصوف میں داخلے کے لیے ملنگ تو ہونا پڑتا ہے۔
گھنگرو بھی باندھنے پڑتے ہیں اور رقص بھی کرنا پڑتا ہے اور پھر ’’رقص زنجیر
پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ سو کون اس سے انکاری ہو۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں
کہ وہ انسان کے سامنے ہو رہی ہوتی ہیں اور ان پہ خاموش بھی نہیں رہا جا
سکتا۔ انسان کچھ نہ کچھ تو بول ہی اٹھتا ہے۔ کوئی داد و تحسین کے کلمات یا
پھر افسوس کا اظہار…… یا پھر حیرانی کا بھرپور اظہار جس کے لیے بعض اوقات
ایک لفظ ہی کافی ہوتا ہے یعنی…… ہیں……!!
تو ایسی ہی ’’ہیں……!!‘‘ کئی بار انسان کے منہ سے نکل جاتی ہے اور بھری محفل
میں رسوائی کا سبب بن جاتی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ ایسی محفل میں لب کشائی کی
کیا تُک بنتی ہے کہ جہاں اس کام کے لیے کچھ مچھندر مخصوص ہوں۔ اور باقی سب
گونگے بہرے ہوں۔ لیکن انسان ہے نا۔ کہیں نہ کہیں زبان پھسل جاتی ہے۔ اب
دیکھیے کہ آپ کے گھر سے کوئی شے گم ہو جاتی ہے۔ آپ سالوں وہ شے ڈھونڈتے ہیں
لیکن نہیں ملتی۔ گھر کے شرارتی بچوں سے بھی پوچھتے ہیں۔ دروازے پہ کھڑے
چوکیدار سے بھی سوال کرتے ہیں لیکن جواب ندارد۔ آپ دل پہ صبر کا بھاری پتھر
رکھتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ ڈراؤنے خواب کبھی کبھی آپ کو بہت ستاتے ہیں
لیکن آپ کو ان کی عادت ہو جاتی ہے۔ اور عادت سے انسان کہاں ڈرتا ہے۔ یہی
وقت کا چکر ہے جو انسان کو صبر کے کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ آپ خوش بخت ہوں
توکہیں کہیں سے اشارے کنایے ملنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن اچانک وہی گم شدہ
شے اپنے ہی آنگن سے مل جاتی ہے۔ کون رکھ کے گیا۔ کیسے آئی…… کسی کو نہیں
معلوم ہوتا اور اگر معلوم ہوتا بھی ہے تو اس سے کیا۔ اپنی شے مل گئی بس یہی
کافی ہے۔ آپ کو بھی اس سے غرض نہیں رہتی کہ وہ شے کس کے پاس تھی اور کہاں
تھی۔ کبھی کبھی تو لوٹانے والا دروازے سے واپس جا رہا ہوتا ہے اور آپ
دیکھتے ہوئے بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو رات کے پچھلے پہر
گھر کے ہی کسی فرد کی چاپ سنائی دیتی ہے اور پھر کسی پرانے صندوق کے کھولنے
یا کباڑ خانے میں چوہے کے بھاگنے کی آواز آپ سنی ان سنی کر دیتے ہیں کہ
خوشی کی ایک گھڑی ہزار غموں کو دبا دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے
کہ گھر کے چوکیدار پہ برہمی کا اظہار کرتے کرتے خاموش ہو جاتے ہیں کہ اس کے
ہاتھ میں پکڑے بندوق کی نلی کا رخ اپنی جانب ہوتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور
وہ کتا جو ہر وقت دروازے پہ پڑا اونگھتا رہتا ہے۔ اسے تو کچھ کہا بھی نہیں
جا سکتا۔ روز تازہ گوشت کھا کھا کے پھیلتا جاتا ہے لیکن آنے جانے والے کو
سونگھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا۔ ہاں کبھی کبھی آپ کے کپڑے ضرور منہ میں
پکڑ لے گا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر میں مہمان جمع ہو جاتے ہیں اور مہمانوں
میں سے کسی کی کوئی شے کھو جاتی ہے۔ یہ دہرا عذاب ہے۔ اپنی پاک دامنی کا
بھی بھرم رکھنا ہے اور مہمان کی تکلیف کو بھی دور کرنا ہے۔ ایسے میں گھر کے
افراد سے بھی خاصی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ اپنی عزت کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ تھوڑا
بہت لالچ بھی دیا جاتا ہے کہ شاید کہیں سے کوئی نوید مل جائے لیکن ندارد۔
چوکیدار اور کتے کی بھی منت سماجت کی جاتی ہے لیکن انھیں بھی اس بارے میں
کوئی معلومات نہیں ہوتیں۔ سو عزیز و اقارب میں آپ کی بدنامی کے دن شروع ہو
جاتے ہیں۔ آپ کہیں منہ دکھانے کے نہیں رہتے۔ آپ کے گھر میں موجود سب افراد
کو مشکوک تصور کیا جانے لگتا ہے۔ آپ کے بچوں کی معصومیت کو چالاکی سے تعبیر
کیا جانے لگتا ہے۔ آپ کے چوکیدار کو اس کی سب مستعدی اور دلیری کے باوجود
شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگتا ہے اور آپ کا کتا تو کسی کو ایک آنکھ نہیں
بھاتا۔ بلکہ اب تو راہ گیر بھی نت نئے تقاضے اور شکایات لے کر آنے لگتے
ہیں۔ اب آپ کے ہاں مہمانوں کی آمد و رفت بھی وہ نہیں رہتی جو کبھی ہوا کرتی
تھی۔ اور ان بگڑتے حالات میں آپ کے پاس کوئی صورت بھی نہیں رہتی کہ کیسے
اپنا کھویا وقار واپس حاصل کیا جائے یا کیسے عزیز و اقارب کو رام کیا جائے۔
ایسے میں آپ کسی بھی سمجھوتے پہ بھی آمادہ ہو سکتے ہیں۔ عزیز و اقارب میں
شرمندہ شرمندہ سے بھی رہ سکتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس گم شدہ مال کی تلاش
میں چوروں کے ٹھکانوں پہ بھی جانے سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن ہر جگہ خاموشی
آپ کا استقبال کرتی ہے۔ اس معاملے میں آپ کا چوکیدار اور کتا بھی آپ کا
بھرپور ساتھ دیتا ہے اور آپ اس کی فرض شناسی پہ پھولے نہیں سماتے لیکن
خاموشی کا توڑ آپ کو نہیں ملتا۔ اب آپ سننا چاہتے ہیں لیکن ہر طرف خاموشی
ہی خاموشی دکھتی ہے۔ بعض اوقات تو آپ کے چوکیدار اور کتے کی فرض شناسی اور
تابعداری اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ آپ کو گھر سے نکلنے کی تکلیف بھی نہیں
اٹھانا پڑتی اور آپ کا کام بھی ہو جاتا ہے۔ گو کہ اہلِ محلہ اور آپ کے
مہمان برملا یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ سب آپ کا بنایا ہوا کھیل تھا لیکن
صرف آپ ہی ہیں جو جانتے ہیں کہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو دروازے سے آتی جاتی
ہیں لیکن آپ کے علم میں نہیں ہوتیں اور وہ چیزیں جو گھر کے ہی کباڑ خانے
میں یا کسی پرانے خستہ حال صندوق میں رکھ دی جاتی ہیں انھیں تو بھلا ہی دیا
جاتا ہے اور یہ بھول سالوں کا سفر کرتی رہتی ہے۔ لیکن اس شے کی واپسی آپ کو
خاموشی کا جو تحفہ دیتی ہے وہ آپ بہت سنبھال کے رکھتے ہیں کیونکہ اب آپ نے
اس خاموشی کے راز جان لیے ہوتے ہیں اور آپ اس سے اعلیٰ کوئی عبادت تصور
نہیں کرتے۔ اور اس موقع پہ اگر کوئی لب کشائی کرے تو یقینا وہ ناشکروں میں
ہے اور گنہگاہ ٹھہرتا ہے۔ اب گنہگاروں کے ساتھ فرشتے جو کریں گے وہ تو سب
ہی جانتے ہیں۔ چلتے چلتے یاد آیا کہ اس وقت وطن عزیز اور اس سے باہر دو قسم
کی خوشیا منائی جا رہی ہیں ایک تو ہندو برادری دیوالی کا تہوار منا رہی ہے
اور دوسرا کچھ لوگ کافی وقت بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔ ان سب کو
اپنی اپنی خوشیاں مبارک ہوں۔ |