جناب نواز شریف٬ چکوال میں نئے لوگوں کو موقع دیں

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضلع چکوال مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی لوگ صرف قیادت کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔ چکوال کی اس وقت تمام 6 سیٹیں مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں جن میں 2 ارکانِ قومی اسمبلی اور 4 ارکانِ صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔ یہ ارکانِ اسمبلی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے جبکہ ان کے علاوہ ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست پر بھی خواتین ارکانِ اسمبلی موجود ہیں جبکہ ایک صوبائی مشیر اور ایک سینیٹر بھی چکوال سے ہی لیا گیا ہے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جو انفرادی لحاظ سے اپنی سیٹ نکال سکے۔ چکوال میں ’’ملک، چوہدری اور سردار‘‘ ہی سیاست کے خاص مہرے تصور کئے جاتے ہیں۔ یہی لوگ مختلف پارٹیوں کے ساتھ وابستہ ہو کر نت نئے انتخابی نشان لے کر عوام کے ’’خادم‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے ضلع چکوال کی عوام کی کتنی خدمت کی اس کا اندازہ چکوال کے ایک سفر سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ چکوال کی سیاست میں صرف سردار غلام عباس ایک ایسا سیاستدان ہے جس کے پاس ذاتی ووٹ بینک موجود ہے اور وہ انفرادی لحاظ سے بھی اپنی سیٹ نکال سکتا ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں بھی انہوں نے 1 لاکھ 9 ہزار ووٹ لے کر مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار کو ٹف ٹائم دیا تھا مگر اب تو مسلم لیگ (ن) کی موجیں ہو گئی ہیں چونکہ وہ بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں۔ چکوال کی سیاست ملک، چوہدری اور سرداروں کے اردگرد گھومتی ہے اس میں کسی عام سیاسی ورکر کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگرچہ یہ لوگ بار بار منتخب ہونے کے باوجود ’’ایک آنے‘‘ کا بھی عوامی کام نہیں کرتے مگر ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ عوام نے تو ووٹ شیر کو ہی دینا ہے سو ان کی ساری کوشش شیر کا ٹکٹ لینے پر مرکوز ہوتی ہے۔ جب ٹکٹ مل جاتا ہے تو آدھی کامیابی تصور کر لی جاتی ہے۔ چکوال کے لوگ روایتی ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں کا ووٹر تھانہ، کچہری، تبادلے، گلیاں پکی کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور اسی بنیاد پر ووٹ بھی دیتا ہے۔ چکوال میں مخلص سیاسی کارکنان کی کمی نہیں ہے مگر ان کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ سیاسی کارکنان بس نعرے لگانے تک محدود ہوتے ہیں۔ جن جن لوگوں نے مشرف کی آمریت کے سخت ترین دور میں پارٹی کے لئے عظیم قربانیاں دیں اُن کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس وقت پارٹی کے ایسے کارکنان کو اہمیت حاصل ہے جو کاغذی طور پر ٹھیکیدار کا کردار ادا کر رہے ہیں یا پھر چاپلوسی میں خاص مہارت رکھتے ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالا چکوال سے جنرل (ر) مجید ملک مرحوم اور چوہدری لیاقت ہی جیتتے رہے ہیں، ان کی جیت سکوائش کے سابق کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی طرح تھی یعنی میچ دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی جیتنا تو انہوں نے ہی تھا۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود ابھی بھی حلقہ این اے 60 جنرل (ر) مجید ملک مرحوم کے پاس ہی ہے چونکہ اب اُسی نشست پر اُن کے بھتیجے میجر (ر) طاہر اقبال دو بار منتخب ہو چکے ہیں اور میں قربان جاؤں ایم این اے حلقہ این اے 60 میجر طاہر اقبال پر جو اپنے وطن میں کم اور بیرون ملک میں زیادہ ہوتے ہیں۔ بچے امریکہ میں رہتے ہیں، خود پاکستان میں سیاست کرتے ہیں۔ ایک قدم امریکہ اور ایک قدم پاکستان ہوتا ہے۔ حلقے کی عوام اُن کے دیدار کو عید کا تہوار سمجھتے ہیں۔ اُن سے جب بھی کسی کام کا پوچھیں تو وہ اپنا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ حلقے میں کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کرایا۔ میرا آبائی گاؤں تھنیل فتوحی چکوال سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ گزشتہ 35 سال سے اُن کو مسلسل ووٹ دے رہے ہیں مگر ابھی تک 3 کلومیٹر تک گیس کی فراہمی نہ ہو سکی۔ میں ذاتی طور پر نجانے کتنی بار ان کو یاد دہانی کرا چکا ہوں۔ ان کے ساتھ حلقہ پی پی 20 سے منتخب ہونے والے سدا بہار ایم پی اے چوہدری لیاقت ہیں جو اب تو کافی عرصے سے بیمار ہیں مگر جب صحت مند تھے تب بھی اسمبلی میں نہ بولنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کو حلقے کی عوام شاید صرف جنازے میں شرکت کرنے پر ہی ووٹ دیتے رہے۔ اس بار بھی منتخب ہوئے اور چار سالوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا وہ کبھی اسمبلی میں گئے ہوں مگر اس کے باوجود کسی اور کے لئے اس سیٹ پر اُن کی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حلقہ پی پی 20 میں یقینا عوام کے تمام کام ہو چکے ہوں گے، جو جو وعدے کئے گئے وہ پورے ہو چکے ہوں گے۔ یونیورسٹی بھی بن گئی ہو گئی۔ بڑا ہسپتال بھی بن گیا ہو گا۔ عوام کو صاف پانی کی فراہمی بھی ہو گئی ہو گی۔ اسی طرح حلقہ این اے 61 کے ایم این اے سردار ممتاز ٹمن کا شمار بھی اسمبلی میں نہ بولنے والے ارکانِ اسمبلی میں ہوتا ہے۔ اُن کو اسمبلی میں اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کے لئے بولنے کی فرصت نہیں ہے۔ یقینا تلہ گنگ کے عوام کے شاید تمام مسائل انہوں نے حل کر دئیے ہوں گے۔ یقینا تلہ گنگ ضلع بھی بن چکا ہو گا۔ وہاں صحت کے مسائل بھی حل ہو چکے ہوں گے۔ کسان بھی خوشحال ہو چکے ہوں گے۔ تلہ گنگ کو گیس بھی فراہم ہو گئی ہو گی۔ گزشتہ 3 دہائیوں سے وہی ملک، چوہدری اور سردار سیاست کے ساتھ گھناؤنا مذاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہ عوام کے لئے خود کام کرتے ہیں اور نہ کسی اور کو آنے دیتے ہیں۔ سیاسی عمل اتنا مشکل کر دیا گیا ہے کہ کسی عام کارکن کے لئے قومی سیاست تو دور کی بات یو سی چیئرمین بننا بھی آسان نہیں رہا۔ اب تو پیسے کی گیم ہے۔ جو زیادہ پیسہ لگائے گا وہی پارٹی ٹکٹ پائے گا۔ ایسے جمہوری نظام میں عام کارکن کدھر جائیں۔ جناب محترم نواز شریف صاحب! ضلع چکوال ایک کھنڈر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ یہاں کی عوام کا کیا قصور ہے۔ خدارا چکوال کی عوام پر رحم کریں۔ ہمیں ان چوہدریوں، ملکوں اور سرداروں سے نجات دلائیں۔ کم از کم کسی ایک سیٹ پر کسی عام کارکن کو ٹکٹ دے دیں جو واقعتا عوام کے مسائل کو سمجھ سکے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.