عقیدہ ختم نبوت اہل پاکستان بلکہ دنیا میں بسنے والے
ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے لیے ایک بہت ہی اہم اورنازک مسئلہ ہے ۔اسے کسی
بھی سطح پرچھیڑنا اورپھراس پر کسی بھی قسم کی بحث کرنا ایک فضول عمل ہے۔
ایک فارغ القل شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اورامام غزالی ؒ کے پاس آکرکہنے
لگا کہ میں اپنی نبوت پر سو دلائل دے سکتاہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنا
نبی منتخب کیاہے۔ لیکن اما م غزالیؒ نے ایک ہی جواب دیا کہ میں نہ تیری
نبوت کو مانتاہوں اورنہ ہی تیرے دلائل کو کیونکہ توکاذب ہے اورتیرے دلائل
بھی کاذب ختم نبوت پر نہ کوئی بحث جائزہے اورنہ ہی کسی دلیل کو
ماناجاسکتاہے۔
اہل اسلام کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد عربی ﷺ
کے بعدکسی نبی کا آنایا کسی کا نبوت کا دعویٰ کرنا بالکل باطل ہے اورجوبھی
اس بات کا دعویدارہوگا اس کو قتل کرنایا اس کو اس بات کے دعوے سے روکنا امت
مسلمہ کے ہرفردکے فرائض میں شامل ہے۔جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے فتہ
گرلوگ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے
کمرباندھ چکے تھے۔ ان بدبخت لوگوں کا سلسلہ اسودعنسی سے شروع ہوا اورپتا
نہیں کتنے اوربدبخت لوگ اس قافلہ بے غیرتی میں شامل ہونگے (العیاذباﷲ)
تاہم اس قبیل کے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ آپ ﷺ کی زبردست
دعوت توحید اوربعدمیں حضرت صدیق اکبرؓ ،عمرفاروقؓ ،عثمان غنیؓ اورحضرت علی
کرم اﷲ وجہہؓ کی مضبوط حکومتوں اورصحابہ کرام ؓ کی آپﷺ سے محبت کی وجہ سے
یہ لوگ اوراس بات کا دعویٰ کرنے والے اپنی نبوت کو عامتہ الناس میں پھیلانے
میں کامیاب نہ ہوسکے اورچندقبیلوں یا افرادتک یہ فتنے پھیلنے کے بعدیا
تومسلمان حکمرانوں اور جانبازسپاہیوں نے ان کا قلع قمع کردیا یاپھریہ لوگ
اپنے فتنوں سے خودہی تائب ہوگئے ۔بہرحال یہ تاریخی حقائق ہیں اوراس میں بہت
سے لوگوں نے خودکو نبی یا رسول بننے کا دعویٰ کیا اس میں مردبھی شامل تھے
اورعورتیں بھی لیکن مضبوط ایمان ،سیاسی وعسکری طورپر ناقابل شکست مسلمان
حکمرانوں نے ان کو عبرت ناک سزائیں دیں ،اس کے ساتھ ساتھ ان فتنوں کو ختم
کرنے کے لیے ہزاروں افرادنے جام شہادت بھی نوش فرمایالیکن اپنے نبی
آخرالزماں ﷺ کی نبوت پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے نہیں دیا ۔ان مجاہدین اورشہداء
ختم نبوت کی تعداداورفہرست اتنی طویل ہے کہ اس پردرجنوں کتابیں لکھ دی
جائیں تو بھی ان کے کارنامے اور قربانیوں کو شمار کرنا مشکل ہے۔
ختم نبوت تو الگ بات ہے آپﷺ کے حیات مبارکہ میں جن لوگوں نے آپ پر طعن
وتشنیع یا آپ کی شان کے خلاف کسی بھی قسم کی بات کی ان کو بھی صحابہ کرام ؓ
اورمحبان رسالت نے معاف نہیں کیا اوران سب منکرین اورگستاخان کو جہنم واصل
کردیا یہ سلسلہ حضرت صدیق اکبرؓ سے شروع ہوکرصلاح الدین ایوبی ؒ تک آتا ہے
جنہوں نے اپنی حکمرانی اورجنگی حکمت عملی سے منکرین نبوت کا قلع قمع کیا تو
عام افراد کی فہرست بھی ہزاروں افراد تک جاپہنچتی ہے ۔بہت سے جیداوراہم
صحابہ کرام ؒ نے بھی عقیدہ ختم نبوت پر اپنی جانیں نچھاورکردیں ۔پھرمسلمان
سیاسی اورعسکری اعتبارسے کمزورہوتے گئے تو ختم نبوت کے منسب کو بھی لوٹنے
والے بہت سے پیداہوگئے لیکن پھر بھی عامتہ المسلمین نے ڈٹ کا ان کا مقابلہ
کیا اورہردورمیں جھوٹے نبی ذلیل وخوارہوکرمرے یا ان کو کسی عاشق صادق نے
کتے کی موت ماردیا ۔
یہ فتنہ چلتے چلتے ہندوستان پہنچ گیا اس وقت پاک وہندپر ایک بہت ہی مکار
اورشاطرقوم کی حکومت تھی انہوں نے برصغیرپاک وہند کے مسلمانوں کو ہرسطح پر
لوٹاان کو سیاسی ،معاشی اورعسکری سطح پر غرض کہ شعبہ زندگی کے ہر مقام پر
تنہااورکمزورکرنے کی اپنی سعی کرلی لیکن پھربھی مسلمان اپنی ہزاروں
کمزوریوں کے باعث اس مکاراورشاطردشمن کے ساتھ نبردآزمارہے ۔انہوں نے جب
دیکھا کہ مسلمان کسی بھی سطح پر ہمارے قابومیں نہیں آرہے ہم نے ہرطرح کے
ظلم وستم ان پرآزمالیے آخروجہ کیاہے تو انہوں نے اس سب کا ماحصل ان کے دلوں
میں عشق رسالت کو ہی قراردیا کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتاہے تو یہ اپنے
نبی ﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے اوران کی پیروی کرتے ہوئے ہرمشکل
کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمارے آگے صف آراء ہوجاتے ہیں۔ لہذا کوشش یہ کی جائے
کہ ان کے دل سے اس محبت کی شمع کو بجایا جائے لہذا اس پر انگریزنے کئی سال
کام کیا اورآخرکا ایک فارغ العقل شخص ان کے ہاتھ آیا جس کو پہلے بہت
بڑاعالم بنایاگیاکہ اس کے علم کے چرچے کروائے گئے ،پھراسے بہت بڑا
مناظرظاہرکیا گیا اوراپنے ملک سے لائے ہوئے پادریوں سے ان کے مناظرے کروائے
گئے تاکہ اہلیان ہندپر اس شخص کی علمی دھاک بٹھائی جائے ،اس کے بعد اس فارغ
العقل شخص نے خودکوبہت بڑا مصلح ظاہرکیا اورآخرکار یہ فتویٰ جاری کردیا کہ
میں مہدی ہوں ،بات یہاں تک نہ رکی اوراس نے خود کو انگریزی حکومت کی ایماپر
حضرت عیسیٰ کا درجہ دے دیا اگر یہ انگریزوں کا ایجنٹ نہ ہوتا تو ظاہرسی بات
تھی انگریزی حکومت اسے گرفتارکرلیتی لیکن چونکہ یہ سب چوراہے تھے اورمنزل
کچھ اورتھی اس لیے اس فارغ العقل اوراحمق شخص سے کسی نے بھی بازپرس نہ کی
کیونکہ ابھی ایک سیڑھی باقی تھی جوکہ اصل میں مقصودتھی اوروہ تھی ختم نبوت
پر کمند۔آخرکار اس ذلیل ورسوائے زمانہ شخص نے اس پر بھی ہاتھ ماردیا اب تو
مسلمانان ہندکی غیرت کو جوش آناہی تھا کیونکہ اب بات بہت ہی آگے نکل چکی
تھی اوراب عشق رسالت کی بجھی چنگاری ٹمٹانے لگی تھی اورآخرکارچندسرفروش
علماء کرام نے اس کو شعلہ جوالابنادیا اب ہرمسلمان رنگ ونسل اورفرقے کو پس
پشت ڈالتے ہوئے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے سینہ سپرہوگیا ۔لیکن حصاربہت
مضبوط تھا اورہربندے کا اس جہنمی اوربدبخت شخص تک پہنچنا ممکن نہیں تھا
لہذا یہ ایک تحریک بن گئی اوراس کے قائدحضرت عطاء اﷲ شاہ بخاری ،حضرت
مولانا احمدعلی لاہوری،حضرت پیرمہرعلی شاہ گولڑوی،حضرت پیرسیدجماعت علی شاہ
جیسے لوگ تھے جن کے ہزاروں عقیدت مندوں نے اس نمک حرام کو ہرطرح سے
قابوکرنے اوراس تک پہنچنے کی کوشش کی تاہم یہ ممکن نہ ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان اورآزادئ ہندکا غلغلہ بھی بلندہوگیا
دیگرقائدین جوکہ آزادئ ہندکے لیے کوشاں تھے انہوں نے بھی اس فتنہ میں اپنا
حصہ ڈالاپاسبان ختم نبوت کی اس تحریک میں دیگر ہزاروں علماء اورلاکھوں
فرزندان توحید بھی شامل تھے لیکن اول الذکریہی درج بالا شخصیات ہی اس تحریک
میں سب سے آگے تھیں جواس قافلہ حق کو لے کر بڑھ رہی تھی ۔اب اس مکروہ گروہ
میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں اوراس کے بھی حصے بکھرے ہونے شروع ہوگئے
جو کہ مزیدخطرناک ہوتے جارہے تھے پہلے ایک گروہ تھا جس کے خلاف جنگ جاری
تھی اب یہ اورحصوں میں بٹنے جارہا تھا اوران میں لاہوری گروپ نے سراٹھانا
شروع کردیا جوکہ میڈیا کو بھی کنٹرول کیے ہوئے تھا اوراخبارات وجرائد بھی
جاری کررہا تھا۔
اسی اثناء میں ایک آزاداوراسلامی حکومت قائم ہوگئی اورمسلمان ہندکو ایک
علیحدہ ملک نصیب ہوا تاہم یہ فتنہ اپنی جگہ پر قائم تھا ہرچندکہ مسلمان
علماء کرام نے قادیانیوں کو مسلم معاشرے میں پنپنے نہ دیا تھا مگر پھربھی
یہ مکروہ گروہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا جس کی وجہ سے بہت سی
مسلمان بچیاں اورعورتیں اپنے بڑوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ان کے ساتھ شادیوں
کی وجہ سے ان کے ساتھ رشتوں میں بندھ گئیں۔ تاہم مسلمان علماء کرام نے اس
فتنے کوختم کرنے کے لیے ہرممکن کوششیں جاری رکھیں اور1973ء تک ایک مسلمان
ملک میں بھی جوکہ دین اوراسلام کے نام پر قائم ہواتھا ہزاروں مسلمان
شہیدکردیے گئے اورلاہور،لائلپور،ملتان،کراچی ، راولپنڈی اوردیگر بڑے بڑے
شہروں میں سینکڑوں مسلمان عقیدہ ختم نبوت اپنی ہی پولیس اورفوج کے ہاتھوں
شہیدہوگئے کیونکہ آزادۂندکے بعد بہت سے قادیانیوں نے ملک پاکستان کے کلیدی
عہدے ہتھیالیے تھے ،فوج،خارجی اور داخلی امورمیں قادیانیوں کو بہت ہی اہم
عہدے حاصل تھے اس اس مکروہ گروہ نے ان عہدوں کا ناجائزفائدہ اٹھاکر سینکڑوں
مسلمانوں کو شہید کروادیا ،ان شہداء میں کم سن بچوں سے لیکر بوڑھے اورسفید
ریش ہر طرح کے لوگ شامل تھے اورہزاروں لوگ اس تحریک میں شامل ہونے کی وجہ
سے جیلوں میں بندہوگئے تھے ۔
اس سے پہلے مسلمانان ہندنے اس پودے کو درخت بنانے سے روکے رکھا تھا تو
اہلیان پاکستان نے بھی اپنی بے مثال قربانیوں سے اس کی جڑوں کو
کھوکھلاکردیا تھا اب ہرطرف ختم نبوت کے پروانے پھیل چکے تھے ،ان میں جذبات
بھی تھے ، نظریات بھی تھے اوراپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیے بھی ایک
عقیدہ تھا کہ ہرحالت میں ان ڈاکوؤں کو ہم نے اس مقدس ہستی کے منصب کو لوٹنے
سے بچانا ہے ، بہت سے جید علماء کرام 1973ء کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی
میں بھی منتخب ہوگئے جوسیاسی طورپر اس مکروہ درخت کو کاٹنے کے لیے اپنی
سیاسی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے ۔
اخبارات ،رسائل اوردیگرمیڈیا پر قادیانی گروہ کے خلاف بھرپورمہم جاری تھی
اورلوگوں کا عقیدہ اورایمان بچانے کے لیے ہرسطح پر قادیانی اورلاہوری گروپ
کے مکروہ پن کو ظاہرکیا جارہا تھا لیکن مرکزی حکومت میں قادیانی بیوورکریسی
کی وجہ سے ابھی تک بالکل خاموشی تھی ۔
آخرکارایک ہوا کا جھونکا اہل پاکستان اورمسلمانوں کے قلب اورروح کو
مسرورکرگیا اورآزادکشمیرکی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم اوردائرہ اسلام
سے خارج قراردیا اوران سے بھی دیگر کافروں کی طرح برتاؤ کا بل پاس کرلیا
گیا۔ لیکن حکومت پاکستان ابھی تک گومگوکی کیفیت میں تھی کیونکہ اس فتنہ
پردازکے پیروکاروں نے حکومت کے کلیدی عہدوں پر قبضہ کیا ہواتھا اورہرفائل
ان کی نظروں کے سامنے تھی ۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاست دان تھا
اوراسے پتہ تھا کہ پاکستانی سیاست کا ہرراستہ مذہب کے راستے سے نکلتاہے
اگرمیں نے اپنی سیاست اورمستقبل بچانا ہے تو مجھے اس اہم پہلوپر ہرممکن
توجہ دینی ہوگی ۔اس کے ساتھ ساتھ علماء کرام ،شعراکرام اورعامتہ الناس نے
اپنی قربانیوں سے تحریک اوربھی تیزکردی ۔اس دورمیں آغاشورش کاشمیری ؒ نے
اپنی شاعری سے مسلمانان پاکستان کے خون کومزیدگرم کیے رکھا۔آخرکاروہ روشن
دن طلوع ہوا جب ان سب شہداء کرام،علماکرام اورشعرا کی قربانیاں رنگ لائی
اور7ستمبر1973ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس فتنہ کو اوراس کے ماننے
والوں کو غیرمسلم اور دائرہ اسلام سے خارج قراردیااس قانون میں بہت سی شقیں
شامل تھیں کہ یہ لوگ ایک پاکستانی شہری کی طرح تو زندگی گزاریں گے تاہم ان
کے معاملات امت مسلمہ سے مختلف ہونگے ۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی کا دن تھا جس
کی وجہ سے آج بھی جناب ذوالفقارعلی بھٹو عوام کے دلوں میں راج کررہے ہیں
اوران کا خاندان اس مثالی شخص کے ایک فیصلے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست پر
براجمان ہے ،لیکن بھٹو جیسا بھی تھا میری نظرمیں اس نے یہ قانون پاس کرکے
بہت ہی عظیم کارنامہ سرانجام دیا جوکہ اس کی اخروی زندگی کے لیے ایک سرمایہ
ہوگا(انشاء اﷲ)
اتنی زیادہ تہمیدباندھنے کا مقصدیہ تھا کہ جب اس قانون کوپاکستان کے ایک
مقتدرادارے نے پاس کرلیا ہے اوراس پر کسی بھی شخص کو اعتراض نہیں ہے اوریہ
قانون شریعت کی روسے ہرطرح مکمل ہے توپھر اس پر چھیڑچھاڑکیوں ہوتی ہے اورکو
چھیڑنے والے اورپاکستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کیوں کی
جاتی ہے۔پھراس پربس نہیں ہوتاکہ اس قانون کو چھیڑنے والے اوراس میں ردوبدل
کرنے والے کبھی بھی گرفتارنہیں ہوئے اورنہ ہی ان کو کبھی میڈیا کے سامنے
پیش کیا گیا ہے اورنہ کوئی عدالتی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے کہ کروڑوں
مسلمانوں کے عقیدہ اورایمان سے کھیلنے والے یہ لوگ کون ہیں اوران کے مقاصد
کیا ہیں اورجب بھی ان کو موقع ملتاہے وہ اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کیوں
کرتے ہیں۔پھرجب بھی ایساکوئی موقع آتاہے تو ہمارے دین فروش وزراء
اورمیڈیائی حرکارے ایسے عوامل کی پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کی ہاں
میں ہاں بھی ملاتے ہیں اوربعض تو ان کی اتنی طرف داری کرتے ہیں کہ انہیں
مسلمان بھی کہہ دیتے ہیں۔لیکن جب آگے سے زبردست احتجاج ہوتاہے تو پھراپنی
باتوں سے مکرجاتے ہیں آخریہ سازشیں کیوں ہورہی ہیں ،ایک بات تو طے ہے کہ جب
بھی شریف برادران کی حکومت آتی ہے تو مذہبی حلقوں کی زندگی پر ویسے ہی قدغن
لگادیا جاتاہے اوران پر اقلیتوں سے بڑھ کر پابندیاں لگادی جاتی ہیں جیساکہ
پنجاب میں آج کل ہورہاہے کہ علماء کرام کا لاؤڈاسپیکراستعمال کرنا منع ہے
یا پھر ان کی مسجدسے آوازسے باہرنہیں جانی چاہیے اوربہت سے علماء کرام کو
اس قانون کی خلاف ورزی پر گرفتاریاں بھی دینی پڑی ہیں لیکن اس قانون کا
اطلاق دیگر لوگوں پرکیوں نہیں ہوتا؟۔عیسائی مشنریاں اپنی کاروائیاں اتنی
تیزکرچکی ہیں اوران کے ساؤنڈسسٹم کی آوازاتنی دورجارہی ہوتی ہے کہ ایک
درددل رکھنے والا مسلمان اپنا دل تھام کررہ جاتا ہے کہ یہ لاؤڈ سپیکرصرف
علماء کرام کی آوازدبانے کے لیے ہی کیوں ہے؟ ۔
اس کے ساتھ ساتھ جب بھی اقلیتو ں کے خلاف کوئی معمولی سا واقعہ پیش آجاتاہے
تو سب سے پہلے اس علاقے کے علماء کرام کو گرفتارکرکے جیلوں میں بھراجاتاہے
اورپھران کی اتنی تضحیک کی جاتی ہے کہ الآماں الحفیظ ۔حالانکہ شریف برادران
کو ووٹ دینے والا سب سے بڑا مذہبی حلقہ ہی تھا لیکن اب ایسانہیں ہوگا اب
مذہبی حلقے کا ووٹ ملنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہوگا۔شریف
برادران تین دفعہ ملک پاکستان کی حکمرانی کا ذائقہ چکھ چکے ہیں لیکن تینوں
بارانہوں نے مذہبی حلقے کی دل آزاری کی اورتینوں دفعہ راتوں کو اٹھ اٹھ
کررونے والے اوبدعائیں دینے والوں کی وجہ سے ان کی حکمرانی گئی لیکن ان کو
پھربھی کبھی اپنی حرکتوں پر غورکرنے کا موقع نہیں ملاآخرکیوں؟۔سیدھی سی بات
تھی کہ نوازشریف کوعدالت عظمیٰ نے نااہل قراردیاتو اسے دوبارہ پارٹی کی
صدارت تفویض کروانی تھی اس میں ختم نبوت کے فارم کو چھیڑنے کی کیا تک بنتی
تھی؟۔
یاپھراس میں وہ لوگ شامل تھے جوشریف برادران کو یا ان کی کابینہ کو بدنام
کرنا چاہتے تھے ،یا ایسی کوئی اشرافیہ ہے جوکہ ان کو مذہبی حلقے سے دور
کررہی ہے؟جہاں پر تین سوالات ہرپاکستانی اورمذہبی دردرکھنے والے عاشق رسولﷺ
پوچھنا چاہ رہاہے کہ؟
(۱) نوازشریف حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کیا حکمت عملی وضع کی ؟
(۲) ایسے آستین کے سانپوں سے بچنے کے لیے نوازلیگ کیوں کوئی حکمت عملی وضع
نہیں کرتی جوکہ ان کو مذہبی حلقوں سے دورکررہے ہیں؟
(۳) یاپھروہ نوازلیگ خودایسا چاہتی ہے کہ مذہبی جماعتوں اورعشاق رسالت کو
دباکراس ملک کو لبرل بنادیا جائے؟
اورنوازشریف کا اتنی بات کہہ دینا کہ ختم نبوت کے قانون پر عوام کی جو دل
آزاری ہوئی ہے اس کا ازالہ کردیا۔یہ ازالہ کیا ہے ؟ اورکتنے لوگوں کو اس
مذموم حرکت پر گرفتارکیا گیا ؟اوروہ کون لوگ تھے جو اس کے ذمہ دارتھے؟ابھی
تک کسی کچھ معلوم نہیں ہے۔
بہرحال بات ہورہی تھی ختم نبوت کے قانون سے کھیلنے کی تو اول الذکرتو بات
یہ ہے کہ قادیانیوں نے کبھی اس قانون کی پرواہ نہیں کی اورکبھی بھی اس
قانون کو تسلیم نہیں کیا ،دوسرایہ کہ حکومتی حلقوں پر قابض قادیانی
بیوروکریسی نے اسے عملاً لانے کی اوراس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کبھی
گرفتاری نہیں کی ،تیسرایہ کہ جوبھی عالم دین اس پر زیادہ بات کرتاہے اسے
فرقہ پرست یاانتشاری قراردیکراس کی تضحیک کی جاتی ہے پھربھی اس قانون کو
چھیڑنا ’’چہ معنے دارد ’’بس بات سادہ سی ہی کہ اس کوچھیڑکراوراس میں ردوبدل
کرکے آقائے نامدارحضرت محمد عربیﷺ کے عاشقوں کا امتحان لیا جاتاہے کہ ان
میں عشق رسالت کی کتنی رمک باقی ہے اورآیاکیاوہ اس ترمیم یا تبدیلی پر کوئی
احتجاج کرتے ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ قادیانی لابی کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ہم
اس قانون کی پاسداری تو نہیں کرتے لیکن پھرکوشش کریں کہ اس میں نرمی لاکر
یا تبدیل کرکے اپنی من مانیاں کریں۔
لیکن قادیانی یااسودعنسی کے پیروکاریہ بھو ل جاتے ہیں کہ مسلمان کتنابھی کم
ظرف ہوجائے ،اورکتنا بھی ایمان سے غافل ہوجائے وہ اپنے نبی آخرالزماں ﷺ کے
عشق سے غافل نہیں ہوتا ، پھرطلیحہ اسدی جیسے گمراہ لوگوں کے لیے حضرت وحشیؓ
جیسے عاشقان رسول پیداہوتے رہیں گے جو اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ اپنے
نبی ﷺکے گستاخ کی سرکوبی کرکے کریں گے تاکہ ماضی کے گناہوں کے ساتھ ساتھ
آئندہ آنے والی نسلوں کوبھی اس فتنے سے بارکھا جاسکے۔
ملک پاکستان میں آنے والا ہرحکمران یہ بات یادرکھے کہ جوبھی ہمارے پیارے
نبی کی ختم رسالت پر ڈاکہ ڈالے گا یا ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنے یا
تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا اس کاحال سلمان تاثیرجیساہی ہوگا کیونکہ
ہرمسلمان پہلے اپنے نبی ﷺ کی رسالت کا محافظ ہے بعدمیں اسلام اورمسلمانوں
کی آزادی کے لیے حاصل کیے گئے اس ملک اوراس کی رعایاکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |