جمہوریت جس طرح ان دنوں ہمارے ملک میں مجروح اور پامال
ہو رہی ہے اس کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا:
’’اگر جمہوریت کا صحیح مفہوم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قوت برداشت اور
رواداری پیدا کرنی پڑے گی‘‘۔جمہوری نظام حکومت کے سلسلہ میں ان کا یہ بھی
نظریہ تھا کہ ’’جمہوری نظام حکومت کو کسی ایک شخص کے رحم و کرم پر نہیں
چھوڑا جا سکتا ہے‘‘۔
جمہوریت کے لیے گاندھی جی کا نظریہ اوربھارت کے موجودہ حالات ایک دوسرے کے
مخالف ہیں کیونکہ رواداری اور قوت برداشت بھارت سے ایسے عنقا ہو گئے ہیں
جیسے یہ کوئی دوسری دنیا کی زبان کے الفاظ ہوں۔ان کی جگہ پر جھوٹ کی شمولیت
کچھ اس طرح ہوئی جیسے دھرم میں کوئی نیاباب جوڑا گیا ہو۔ ٹھیک ہے سیاست میں
تو جھوٹ کا کچھ مقام ہے لیکن ایسا بھی کیا کہ جھوٹ کی گنگا بہائی جائے۔ کچھ
تجربہ کار لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ کسی جھوٹ کو بہت باربولا جائے تو وہ سچ
ہو جاتا ہے۔اور شاید اسی فارمولہ کے تحت انگریزوں کی پیٹ پوچھوا اولاد اپنے
کو وطن پرست اورجنگ آزادی میں برادرانِ وطن کے ساتھ قدم سے قدم ملا چلنے
والے اور پھانسیوں پر جھولنے والوں کو وطن دشمن کہتے نہیں تھکتے۔اتنا ہی
نہیں انکو ستایا جاتا ہے،بے رحمی سے مارا جاتا ہے،گھروں کو آگ لگائی جاتی
ہے۔لیکن ہم جوابی کاروائی میں برداشت کرتے ہیں اور قانون کا سہارا لینے میں
یقین رکھتے ہیں۔
تنگ نظر فرقہ پرست لوگ مسلمانوں کے خلاف ہندو کارڈ پہلے بھی کھیلتے تھے
لیکن اب بھکت لوگوں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی ہے لہذا واقعات بھی زیادہ ہو
رہے ہیں۔اب چونکہ حکومت ہی ان کی ہے اس لیے چوکی تھانے بھی انہیں کے ہیں
لہذا جب بھی مسلمان یا دلت پریشان کیے جانے پر تھانے مقدمہ لکھانے جاتا ہے
تو اُسی کے خلاف مقدمہ لکھ دیا جاتا ہے۔واہ رے اندھیر نگری۔اس کے علاوہ بھی
بہت کچھ ہو رہا ہے ، نئے نئے شگوفے اُگائے جا رہے ہیں۔ گاندھی جی نے کہا
’’جہاں پیار ہے وہاں زندگی ہے‘‘۔لیکن ہمارے ملک میں گاندھی جی کا قتل کیا
گیااور اب انکے نظریوں کابھی قتل کیا جا رہا ہے۔یہیں حد ختم نہیں ہوئی،
گاندھی جی کے قاتل پر مقدمہ چلا تھا اور اُسے پھانسی کی سزا ہوئی تھی اس کے
باوجود اس کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور یہ مانگ بھی کی جا رہی ہے کہ گاندھی
جی کے قتل کی تفتیش پھر سے کی جائے۔۔ حکومت کی باگڈور ایسی پارٹی کے ہاتھ
میں ہے جو حکومت بنانے کی جلدی میں ہر جائز ناجائز وعدے کر ڈالے تھے وہی
وعدے اب گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔بگل میں یہ بھی بجایا جا رہا تھا کہ بد
عنوان لوگوں کی جگہ جیل ہوگی لیکن سب کے سب پارلیمنٹ اور اسمبلی میں موجود
ہیں۔یہاں تک جو جیل میں تھے وہ بھی پارلیمنٹ اور اسمبلی میں آکر بیٹھ
گئے۔اب عوام لاکھ اپنا سر پھوڑے اب تو جھیلنا ہی ہے۔
ایک جھوٹ اور بھی بڑے بے ڈھنگے پن سے بولا جا رہا ہے وہ یہ کہ دنیا کا
ساتواں عجوبہ ’تاج محل‘ بھارتیہ تہذیب کا حصہ نہیں ہے۔ یہ خیالات ہیں ہمارے
وزیر اعلیٰ محترم ’اجے موہن بشٹ‘ عرف ’یوگی آدتیہ ناتھ‘ ولد’ آنند سنگھ بشٹ‘
کے اور اسی لیے تاج محل کوسیاحتی فہرست سے ہٹا دیا گیا۔ایک دوسرے سنگھ صاحب
ہے جن کا نام ہے ’سنگیت سنگھ سوم‘ جنہوں نے تاج کو غلامی کے دور کی نشانی
بتایا لہذا اس نشانی کو مٹا دینا چاہئے۔یہ سب ملک کے بھاگیہ ودھاتا بنا دیے
گئے ہیں لیکن ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ’بھارتیہ سبھیتہ ‘ میں رواداری
بھی کوئی چیزہوتی ہے جو آپ لوگ بالکل نہیں جانتے۔اسی رواداری کو ذہن میں
رکھ کرمجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ گڑے مردے اکھاڑے جائیں۔ لیکن آپ لوگ
یہ کام بہت خوبی سے کر رہے ہیں۔آپ کو پتہ نہیں ہے کہ اپنے نام کے ساتھ
فخریہ ’سر نیم ‘ لگاتے ہیں وہ بھی غلامی کی نشانی ہے۔یہ ٹائٹل جلال الدین
محمد اکبر نے اپنے نو رتن راجہ مان سنگھ کو دیا تھا۔اس سے پہلے کوئی بھی
راجپوت اپنے نام کے سا تھ’سنگھ ‘ نہیں لگاتا تھا۔ لفظ ’ہندو‘ بھی عرب
مسلمانوں کا دیا ہوا ہے۔اپنے سے کیا کیا چیز نوچ کر پھینکو گے؟سوئی دھاگا
بھی عرب اپنے ساتھ لائے تھے، سلے ہوئے کپڑے بھی بھارتیہ تہذیب کے خلاف ہیں۔
سنگیت سوم جی جو بے سُرا الاپ الاپتے رہتے ہیں انہوں نے اپنے گوشت کی دوکان
کا نام’الدعا‘ رکھا ہے۔ اس کا نام ’پنڈت دین دیال مانس وکرے استھل‘ کیوں
نہیں رکھا۔جاہلوں جیسی باتیں کر کے اپنی اوقات کھو رہے ہو۔پتہ لگائیے اور
بتایے کہ مغلوں کے ونشج کون ہیں اور ’جہانگیر‘ کے ماموں کے ونشج کون
ہیں؟سنگیت سوم کو یہ معلوم ہے کہ شاہ جہاں نے دو خراب کام کیے ایک تو تاج
محل بنوایا اور دوسرے اپنے باپ کو قید کیا۔اب ’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے
اے خدا!‘ ۔معلومات عامہ کا حال یہ ہے اور بنے ہیں بھارت کے بھاگیہ ودھاتا۔
بھارت کی رواداری کے بارے میں ہی ۳۰؍جولائی ۲۰۱۷ء سبکدوش ہونے والے آخری
صدر جمہوریہ محترم پرنو مکھر جی نے اپنی الوداعیہ تقریر میں کہا:
’’رواداری ہمارے ملک کی آتما ہے۔ آجکل ملک میں رواداری اور تشددکے واقعات
میں اضافہ ہوا ہے، یہ صورت حال ملک کے لیے خطرناک ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمارا
آئین ہی ہمارا سب سے بڑا’دھرم گرنتھ ‘ ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی
تعلیم دیتا ہے، یہی ہماری اصل طاقت ہے۔آئین کی بنیادی روح کو تبدیل نہیں
کیا جا سکتا۔ ہمیں ہر حال میں ہزاروں سال کی تہذیب اور ثقافت کو قائم رکھنا
ہے۔‘‘
رواداری اور لنگڑی آستھا کی ایک مثال اس سال دشہرے کے موقعہ پر ایودھیا میں
دیکھنے کو ملی۔ سرجو کے کنارے’پُشپک ومان‘ کی طرح ہیلی کاپٹر اترا ہے اور
اس میں سے ’رام جی،سیتا جی اور لکشمن جی باہر آئے ہیں۔یوگی جی نے ان کے گلے
میں مالائیں ڈال کر خیر مقدم کر رہے ہیں۔رام جی نے یوگی جی کے آگے
اپناسرجھکاتے ہیں اور مالا اپنے گلے میں ڈلواتے ہیں۔یوگی جی کو سوچنا چاہئے
کہ جو شخص اس وقت بھگوان ’رام‘ بنا ہوا ہے،اسکی مریادا کا خیال رکھتے ہوئے
ان کا سر نہ جھکنے دینا چاہیے۔
ہمارے اڈوانی جی بھی کبھی اس پارٹی کے بھگوان ہوا کرتے تھے وہ بھی اب لاچار
اور بے بس نظر آتے ہیں۔بھارت رتن اٹل بہاری باجپائی کے بعد بھارت کے’بھاگیہ
ودھاتا‘ اڈوانی جی ہی سمجھے جاتے تھے۔ان کی ہمت اور حوصلہ کی داد دینی پڑے
گی جب ان کے آگے پروسی گئی بھری ہوئی تھالی اچانک اُڑ کر مودی جی کے آگے
چلی گئی اور اڈوانی جی اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں
پیوست کیے اُڑتی ہوئی تھالی کو بیچارگی سے دیکھتے رہے لیکن کسی کو اپنے
دیرینہ بھگوان پر ترس نہیں آیا اور وہ ’پتھ پردرشک ‘ بنا دیے گئے تبھی سے
وہ اپنی دھندلی آنکھوں سے وہ غبار دیکھ رہے ہیں جو رتھ کے دوڑنے سے اُڑا
تھااور خون کے آنسو پی رہے ہیں۔ |