ڈو مور مطالبات اور پاکستان

اوبامہ نے اپنی قوم سے ایک تاریخی خطاب کیا تھا کہ’’ میں چاہتا ہوں کب میری مدت ختم ہو اورمیں پورے امریکہ کی سیر کروں اور اپنی ذمہ داری احسن انداز میں کسی دوسرے کو سونپوں۔ اور مجھے بہت ہی عجیب لگتا ہے جو صدر یا وزیر اعظم اپنی مدت میں توسیع کی بات کرتا ہے۔ امریکہ میں جیسے ایک عام آدمی کا احتساب ہو سکتا ہے ویسے ہی قانون جب چاہے میرا بھی احتساب کر سکتا ہے‘‘۔ـ امریکی وزیر خارجہ ، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی دعوت خاص پر چار گھنٹے کے مختصر ترین دورے پرآئے اورایک بارپھر پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کر دیا ۔امریکی مہمان ریکس ٹیلرسن نے کہا کہ امریکہ بھارت، افغانستان اور پاکستان کے ساتھ بہترین اور پائیدار تعلقات کا خواہاں ہے ۔پاکستان ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان سے گہرے تعلقات ناگزیر ہیں ۔اور پاکستان اور افغانستان کے مثالی تعلقات امریکہ کے بہترین مفاد میں ہیں ۔ تاہم امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیہ کے مطابق پرانے مطالبات کا ایک بار پھر اعادہ کیا گیا۔ڈو مور مطالبہ نمبر (1)۔ پاکستان کو دہشت گردی کے بھوت کو قبول کر کے دہشت گردوں کے خلاف مزید کاروائیاں کرنا ہوں گی۔ڈو مور مطالبہ نمبر (2) ۔داعش جس کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں اسکے تانے بانے ہمیں پاکستان میں نظر آرہے ہیں اس لیے پاکستان کو داعش کے نیٹ ورک کوبھی ختم کرنا ہوگا۔ ڈو مور مطالبہ نمبر(3)۔ پاکستان کو ملک میں بڑھتی انتہاپسندی ، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کے جن کو بھی قابو کرنا ہوگا۔ ڈو مور مطالبہ نمبر(4)۔ پاکستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ امریکی اعلامیہ کے بعد پاکستان نے بھی اپنا طوطامینا والی کہانی پڑھ کرسنا دی اور سادہ لوح عوام کو لولی پاپ دے کر امریکہ کو ڈو مور کے معاملے پر خاموش رہ کر اثبات کا اشارہ دے دیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلامیہ کے مطابق کہاگیا ہے کہ ہم امریکہ سے دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ خطے میں امن واستحکام کے قیام کے لیے دہشت گردی کے خلاف ہمارا غیر متزلزل اعلان جنگ ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنی عرضی بھی امریکہ کو سنا دی اور معصومانہ مطالبات لکھ بھیجے۔ــ’’مودبانہ التجا نمبر (1)۔پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں اور ہم اس الزام کوبصداحترام مسترد کرتے ہیں۔ مودبانہ التجا نمبر(2)۔ بھارت کو پاکستان میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیا جائے کیوں کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں کاروائیاں کراتا ہے۔ مودبانہ التجا نمبر(3)۔ بھارت کو بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرانے کی بدولت امن کا دشمن قرار دیا جائے۔ مودبانہ التجا نمبر(4)۔ بھارت کو ایل او سی کی بار بار خلاف ورزی سے روکا جائے۔ (5)۔ بھارت کو کشمیر میں ظلم و بربریت سے باز رکھا جائے‘‘۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت امن اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہے تو پھر کچھ عرصہ پہلے اسی حکومت نے مودی کو مہنگے اور پرخلوص تحائف سے کیوں نواز ا تھا۔پاکستانی سول وعسکری قیادتیں الگ الگ پریس و نیو ز کانفرنسز میں امریکہ کو کھلے عام دعوت دے چکے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہیلی کاپٹر پر بیٹھیں اور بتائیں کہ محفوظ پناہ گاہیں کہاں ہیں ؟ ہم خود انہیں تباہ کریں گے ۔اگر ایسا عاجزانہ اور بزدلانہ رویہ ہمار ا رہا تو پھر خدانخواستہ امریکہ ہم سے کسی بڑی قربانی کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے جس کے ہم قطعی متحمل نہیں ہو سکتے۔سول و ملٹری لیڈر شپ میں ملکی سلامتی کے معاملے پر باہمی اتفاق و اتحاد اور داخلی مذاکرات بہت ضروری ہیں جن کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایل او سی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس پر آئی ایس پی آر کی ریلیز جاری ہوتی ہے اور ہماری وزارت خارجہ صرف احتجاج کی حد تک محدود دیکھائی دیتی ہے۔دونوں میں مشترکہ حکمت عملی کا فقدان نظر آتاہے۔

سینٹرل ایشیائی ممالک، ساؤتھ ایشیائی ممالک اوربالخصوص مشرقی وسطی میں بڑھتی امریکی دلچسپی اور مداخلت نے پوری دنیا کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ڈومور نہیں بلکہ کچھ لو اور کچھ دوکی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا جیسا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ دوٹوک انداز میں بات کرتا ہے ۔ امریکہ بہادر اوروطن عزیز دونوں کے لیے صلاح ہے کہ اس طرح سے عالمی دنیا کے سامنے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں ، ڈومور کے مطالبو ں، مودبانہ التجاؤں اوراپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے کچھ حاصل حصول نہ ہوگا بلکہ یہ دورے اور بیانیے صرف گفتن نشستن برخاستن کی عملی تصویر ثابت ہوں گے۔ مستقل ، دیر پا اور مضبوط پالیسیوں کے بغیرنہ تو پاکستان، امریکی مسلط شدہ جاری جنگ میں دہشت گردی کے خلاف کچھ خاطر نتائج حاصل کرسکے گا اور امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اپنے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کاثبوت دے سکے گا اور نہ ہی امریکہ اپنے عوام کو مطمن کر سکے گا۔اب پاکستان کو امریکہ ، بھارت ، افغانستان ، دہشت گردی ، بلوچستان، کراچی ، جائیدادیں بنانے اور ذاتی و سیاسی مقاصد وغیرہ سے آزاد ہو کر ملک و قوم کے لیے سوچنا ہوگا ۔پھر وہ دن دور نہیں ہو گا کہ بڑی بڑی نیو کلیئر طاقتیں، اقتصادی قوتیں اور انٹرنیشل فورمز ہمیں ہر سطح پر ویلکم کریں گے۔ پاکستانی اور امریکی عوام تجارت محبت اور امن چاہتے ہیں جبکہ حکمران چوہے بلی کا کھیل رچا کر پتہ نہیں کیا گل کھلانا چاہتے ہیں۔

ہمارے سول و ملٹری حکمرانوں کو سمجھنا ہو گا کہ ہمارے ساتھ ایک اﷲ ،اسلام ، قرآن اور نڈر عوام کی طاقت ہے ہمیں کوئی ہرا سکتا ، نہ ہی کوئی مصنوعی جنگ ہمیں زیر کرسکتی ہے ۔ امریکہ جن بیکار اور خود کار ترکیبوں سے ہمیں اقتصادی و سماجی ترقی سے روکنا چاہتا ہے یہ اس کی بھول ہے کہ پاکستانی سول و ملٹری ادارے اور عوام پاک سرزمین اور اسلام کی خاطر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں جو کسی بھی جارحیت اور دشمن کو کچلنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.