انسانیت کو دردناک موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے ایٹمی اسلحہ
بنانے اورامن کو چھلنی کرنیوالے بھی انسان ہیں۔انسان نے اپنا جوقیمتی وقت
اور سرمایہ جدید ہتھیاروں کی تیاری پرصرف کیا کاش اس نے اپنی دولت، دانائی
اور توانائی دنیا سے بیماریاں اورمحرومیاں ختم کرنے کیلئے استعمال کی ہوتی
توآج یہ دنیا جہنم کی بجائے جنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی ۔آج کاانسان حیوان
سے بدتر ہے،حیوان ا پنے پیٹ جبکہ حضرت انسان اپنے انتقام کی آگ بجھانے
کیلئے دوسروں کوجان سے مارتا ہے۔جانوراپناپیٹ بھرجانے پرشکار کاباقی گوشت
وہیں چھوڑدیتے ہیں جوکمزوروں کی بھوک مٹانے کے کام آتا ہے لیکن سرمایہ
دارانسان جس وقت تک مرتا نہیں اس کی ہوس کاگھڑا بھرتانہیں ،ہمارے دیکھتے
دیکھتے بڑے بڑے زورآوراور زرپرست اپنے خالی ہاتھوں کے ساتھ قبورمیں اتر گئے
جبکہ فرعون کوتودفن ہونابھی نصیب نہیں ہوا مگر اس کے باوجودکسی قارون
یافرعون کی روش نہیں بدلی۔جنگل میں بھی ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے ،جانور بھی
شکارکرنے میں حدسے تجاوزنہیں کرتے،وہ شوق کی خاطر نہیں بلکہ صرف بھوک کی
حالت میں شکار کرتے ہیں۔جنگل میں کوئی طاقتور حیوان کمزور حیوانوں کونشان
عبرت نہیں بناتا مگرطاقتورانسان کمزور انسانوں کودیدہ عبرت بنادیتے
ہیں،افسوس انسان سے بڑاکوئی درندہ نہیں۔جنگل میں کوئی جانور دوسرے
کاآقانہیں ہوتا مگر انسان دوسرے انسانوں کواپناغلام بنا تے ہیں ۔حضرت انسان
جوخودکوباشعور اورباضمیر کہتاپھرتا ہے وہ دوسروں کے وسائل ہڑپ کرنے کیلئے
اپنے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیر تا اور ہر جائز و ناجائز
ہتھکنڈا آزماتاہے۔بت تراش اوربت پرست ہندوبھی اپنے پیاروں کی موت کے بعد
انہیں نذرآتش کرتے ہیں،ہندوؤں نے بھی زندہ بیو اؤں کو''ستی ''کرناچھوڑدیا
ہے۔بھوکاشیر اپنے شکار کوسانس روک کرمارنے کے بعد اس کاجسم نوچتا ہے مگر ہم
انسان زندہ انسانوں کوتڑپاتڑپاکرمار تے ہیں۔برمامیں زندہ روہنگیامسلمانوں
کو بربریت کانشانہ بنانے کے دلخراش مناظر دیکھنے والے کوزندگی بھر یادر ہیں
گے اوروہ خون کے آنسوروتارہے گا۔اس قسم کے مناظر توکسی نے ہاررمووی میں بھی
نہیں دیکھے ہوں گے۔روہنگیا مسلمانوں کومحض مارا نہیں بلکہ نشان عبرت
بنایاجارہا ہے۔ اسلام کودہشت سے جوڑنے والے نام نہاد مہذب مغرب کی برمی
ریاست کی دہشت اوروحشت پر کیوں زبانیں بندہیں ۔اپنی آنکھوں سے ظلم ہوتے
دیکھنامگرپھربھی خاموش رہنادرحقیقت ظالم کوسراہنا ہے ۔کہاں ہے اقوام متحدہ
اورکدھر گیا اس کاضابطہ اخلاق جس کااطلاق کفار پر نہیں ہوتا۔
کیاقیامت آناابھی باقی ہے ،کون کہتاہے انسان مہذب اورزندہ ہیں ۔انسان زندہ
ہیں مگرانسانیت مرگئی ہے۔دنیامیں شب وروزقیامت کئی بار آتی ہے مگرصرف اس
کیلئے جس کاکوئی اپنااس قیامت کی خوراک بنتاہے۔اس گھر میں ہرپل قیامت آتی
ہے جہاں بیاہ کی عمر ہوجانے کے باوجود جوان بیٹیاں بابل کی دہلیز پربیٹھی
ہیں ،ریاست بیہودہ رسومات پرپابندی یقینی اور نکاح کوخاطرخواہ آسان بنائے
۔قیامت کاقہراس گھرپربھی ٹوٹ پڑتا ہے جس کی بیٹی کے سرکی چادر تارتارہوجائے
اورحکمران میڈیا کے ہمراہ اس بدنصیب بنت حوا کی فوٹو بھی نشر کردیں۔جوباپ
اپنے پھول سے بچوں کوبھوک اوربیماری سے بلکتا اورتڑپتا دیکھتا ہے اس کیلئے
وہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔روہنگیامسلمانوں پر جوقیامت گزری اس کے
تصور سے بھی روح کپکپااٹھتی ہے،برما کی ریاستی بربریت کیلئے راقم کے پاس
موزوں الفاظ نہیں کیونکہ دنیا کے معرض وجود میں آنے سے اب تک آسمان نے اس
قسم کے شیطانی ستم دیکھے اورنہ زمین نے اس طرح کے درندوں کابوجھ
اٹھایا۔آسمان کے بس میں ہوتا توبرما کے بے رحم حکمرانوں پرگرجاتا ،زمین
بااختیارہوتی تو پھٹ جاتی اور وہ وحشی درندے زندہ درگورہوجاتے
مگرشایدمسلمان امتحان کیلئے پیداہوتے ہیں ۔برمامیں مسلمانوں کیلئے جوجو
نیامگربدترین ظلم ایجادکیااوران بیچاروں ،بے سہاروں پرآزمایاگیا اس کی
انسانی تاریخ میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔اگرہم روہنگیا مسلمانوں
اوربالخصوص بچوں کے چہروں میں اپنے پیاروں کے چہروں کوتلاش کریں تویقینا
ہماری روح کواس قیامت کی شدت کااندازہ ہوجائے گی۔ایک طرح سے ہم بھی روہنگیا
مسلمانوں کے قاتل ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کی حدتک کف افسوس ملنے اور صف ماتم
بچھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔مسلم حکمرانوں کی بے حسی روہنگیا مسلمانوں کی بے
بسی سے بڑا سانحہ ہے۔ترکی صدر کی آنیاں جانیاں بھی شعبدہ بازی کے سواکچھ نہ
تھیں۔اﷲ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں الخیرفاؤنڈیشن کے بانی وچیئرمین امام
قاسم رشیداحمدسمیت ان شخصیات کی خیرو عافیت کیلئے ڈھیروں دعائیں ہیں
جوبرماسے ہجرت کرنیوالے روہنگیامسلمانوں کی آبادکاری اورانہیں
خوراک،ادویات،لباس اورچھت کی فراہمی کیلئے انتہائی سرگرم رہے ۔پاکستان سمیت
دنیا کے بیسیوں ملکوں میں کارخیر کیلئے الخیر فاؤنڈیشن کے چیئرمین امام
قاسم رشیداحمد اوران کے ٹیم ممبرزاپنے ہم عصرفلاحی اداروں سے بہت متحرک
اورنمایاں ہوتے ہیں ۔غمزدہ انسانیت کیلئے الخیرفاؤنڈیشن اور امام قاسم
رشیداحمدکادم غنیمت ہے۔فلسطین میں کئی دہائیوں سے ہرروزاورہرپل قیامت
کاآناجانا لگارہتا ہے۔جموں وکشمیر میں شایدکوئی ایساگھرنہیں جہاں قیامت نے
اپنی بھرپوروحشت کے ساتھ دستک نہ دی ہو ۔جس ملک میں چورشوبازی اورشعبدہ با
زی سے قومی وسائل کے چوکیداربن بیٹھے ہوں وہاں قیامت کاقیام طویل ہوجاتا ہے
اورزیادہ تر لوگ گھٹن اورموروثی سیاست کے تعفن سے مرجاتے ہیں۔پاکستان میں
بدامنی درحقیقت بدعنوانی ،بدانتظامی کاشاخسانہ ہے اوراس بدامنی نے پاکستان
کوقبرستان بنادیا ہے ۔جہاں انسانیت مرجائے وہاں کوئی انسان کس طرح زندہ رہ
سکتا ہے۔میں نے جانوروں کوایک دوسرے کادردمحسوس اورحملے کی صورت میں اپنے
قبیلے کے جانور کو خونخوارشکاری سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
مگرعہدحاضرکاانسان توحیوان سے بھی بدتر ہے ،جس وقت روہنگیا کے مسلمان تڑپ
تڑپ کرمررہے تھے اوران کی آہوں کی آہٹ کوعالمی ضمیر نے سناان سناکردیا۔مسلم
حکمرانو ں کاسفارتی ری ایکشن بھی اطمینان بخش نہیں تھا ۔
ڈاکٹر کے پاس کچھ مخصوص امراض والے لوگ آتے ہیں توانہیں ایک خاص انجکشن
تھوڑی مقدارمیں لگانے کے بعد چند منٹ تک ری ایکشن کاانتظارکیاجاتا ہے
اوراگر ری ایکشن نہ ہوتو سرنج میں موجود باقی موادبھی اس بیمار کی رگ میں
انڈیل دیاجاتا ہے ۔پچھلی چنددہائیوں کے دوران برما میں جوکچھ ہوااوراب وہاں
انتہائی شدت،ڈھٹائی اوردھڑلے سے جو کشت وخون ہورہا ہے وہ اچانک نہیں ہوا
بلکہ یہ عا لمی ضمیر کی مسلسل اورمجرمانہ بے حسی کاشاخسانہ ہے۔انسانوں کے
حقوق کی پامالی پرزبان بندی جبکہ جانوروں کے حقوق کیلئے شعور کی بیداری
کیلئے سرگرم عناصر انسان نہیں ہوسکتے ۔اسلام نے انسانوں کے ساتھ ساتھ
جانوروں کے حقوق بھی متعین کئے ہیں لیکن آج نام نہاد مہذب دنیا میں مسلمان
کوانسان تسلیم نہیں کیاجارہا ۔مغرب نے کئی باردنیا ختم ہونے کی تاریخ
کااعلان کیا لیکن دنیا ختم نہیں ہوئی مگرمغربی معاشرے میں انسانیت ضرورختم
ہوگئی ہے۔حیوانوں کے حقوق کی دوہائی دینے والے مغرب کے لوگ انسانوں کے
بنیادی حقوق سے چشم پوشی کے مرتکب ہورہے ہیں کیونکہ ان ستم زدہ انسانوں
کادل اسلام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان اپنے دین اسلام
پراستقامت کی بھاری قیمت چکارہے ہیں۔مسلمانوں کوانتہاپسندی کاطعنہ دینے
والے یادرکھیں اسلام انتہاپسندی کی ضد ہے ۔جوانسان اسلامی طرزحیات
اورتعلیمات پرکاربند ہے وہ شدت پسند نہیں ہوسکتا اورجوگمراہ لوگ انتہاپسند
ہیں وہ اسلام سے اپنے تعلق کادعویٰ نہیں کرسکتے ۔افسوس عالمی ضمیر کے
انسانیت ،مساوات ، انسان اورامن بارے معیار تبدیل ہوگئے ہیں۔مغرب خودکومہذب
کہتا ہے لیکن مسلمان کوانسان نہیں سمجھتا۔
نناوے فیصد واقعات میں طاقتور لوگ کمزور پرحملے کرتے ہیں ،طاقتوراپنے
مدمقابل طاقتور سے نہیں بھڑتا ۔روس اورامریکہ کے درمیان کبھی جنگ ہوئی نہ
ہوگی ،چین سے بدترین دشمنی کے باوجود امریکہ کبھی حملے کی جسارت اورحماقت
نہیں کرے گاکیونکہ اسے اپنے انجام کاعلم ہے۔ بھارت نے اگر امریکہ کے بہکاوے
میں آکرپاکستان کیخلاف جارحیت کاارتکاب کیا تویہ غلطی اس کااپناشیرازہ
بکھیر دے گی کیونکہ وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے سبب زیادہ دیر تک پاکستان کے
مدمقابل کھڑا نہیں رہ سکتا ۔پاکستان کی بہادر افواج بھارتی فوج کی نسبت حجم
میں کم ہیں مگران کے عزم میں دم ہے ۔برما میں اب تک جوکچھ اورجس جنونی
انداز سے کیاگیا اسے ریاستی جبرواستبداد، ظلم وبربریت اورفسطائیت کہنا کافی
نہیں،مجھے اردواورانگلش سمیت دنیا میں رائج کسی زبان کی ڈکشنری میں برمامیں
ہونیوالے دلخراش واقعات کیلئے موزوں الفاظ نہیں ملے ۔انسانیت کی شروعات سے
اب تک کسی مورخ کی کتاب میں انسانوں پر اس قسم کے بدترین ظلم وستم کی کوئی
اندوہناک اورالمناک داستان نہیں ملی۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اورنقل
مکانی کے بعدبرماریاست کوآئندہ بربریت کے نام سے لکھااورپکاراجائے۔عالمی
ضمیر کی بے حسی اورمجرمانہ خاموشی برماحکومت کی ریاستی بربریت سے بڑی دہشت
انگیزی ہے ۔انسانیت کے حامی برما کی ریاستی بربریت کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔کسی
مذہب کے انسانوں کوناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔برماحکومت کی
سرپرستی میں مسلمانوں کاقتل عام ناقابل برداشت ہے ۔برماکے مسلمانوں کی نسل
کشی کے سلسلہ میں یونائٹیڈ نیشن اوردنیا کی مہذب ومقتدرقوتوں کامجرمانہ
کردارایک سوالیہ نشان ہے۔برما حکومت کا اسلام اورمسلمانوں کیخلاف تشدد
اورتعصب قابل نفرت اورقابل مذمت ہے۔دنیا کوتعصبات سے پاک کرنے کی ضرورت
ہے،انسانیت کی بقاء کیلئے ایک دوسرے کاوجود برداشت کرناہوگا۔ پاکستانیوں کی
خاموشی سے لگتا ہے سلگتا روہنگیا بحران حل ہوگیا مگرایسا نہیں۔ دنیا کا
ہرباضمیراورباشعور فرد روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام روکنے اورانہیں دوبارہ
اپنے ملک میں بسانے کیلئے اپناکرداراداکرے۔ اگربرمامیں مسلم اقلیت کوشہریت
نہ ملی اوران کے بنیادی حقوق کی حفاظت یقینی نہ بنائی گئی توپھر بھار ت میں
بھی مسلم اورمسیحی اقلیت کامستقبل مزید خطرات سے دوچارہوجائے گا۔ |