سیدمسعودالرب بھی اپنی پوری زندگی اردو صحافت کی
خدمات انجام دیتے ہوئے اور اردو صحافت ان کے لئے اچھے دن لائے گی، اس کی
امید لئے آخر کار کئی ماہ بیمار رہ کر 28اکتوبر17ء کی شام پٹنہ میں اپنے
مالک حقیقی سے جا ملے۔ 29 ؍ اکتوبر کو بعد نماز ظہر درگاہ شاہ ارزاں کی
مسجد کے باہر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شاہ گنج، پٹنہ میں انھیں
سپرد خاک کر دیا گیا ۔
سیدمسعودالرب کی پیدائش یکم دسمبر۱۹۴۸ء کو پٹنہ کے داناپور میں ہوئی تھی ۔
ان کے والد کا نام الحاج سیدعبدالرب ہے۔ سیدمسعودالرب نے ایک متوسط زمیندار
گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔یہ گھرانہ 1947ء کے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کے
دوران تباہ وبرباد ہوکرداناپور شہر میں رہائش پذیرہوگیاتھا سیدمسعودالرب کے
داداحکیم حافظ مولاناسیدفضیلت حسین خادمؔ پھلواری شریف سے متصل دھنوت بستی
کے رئیسوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔وہ نہ صرف دینی علوم پردسترس رکھتے تھے
بلکہ انہوں نے کلکتہ یونیورسیٹی سے وکالت کاامتحان بھی پاس کیاتھا۔حالانکہ
انہوں نے اپنی شرعی زندگی کی مناسبت سے وکالت کاپیشہ اختیار نہیں کیا، لیکن
اپنی علمی صلاحیتوں کی بناپر اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔
انگریزوں نے انھیں بنگال قحط کے زمانہ میں سپرٹنڈنٹ Famineمقررکیاتھا بعد
میں وہ انسپکٹرآف اسکولس بہاراینڈ اڑیسہ بھی بنائے گئے لیکن تحریک موالات
کے شروع ہوتے ہی انہوں نے انگریزوں کی ملازمت سے قطعی طورپراپناتعلق منقطع
کرلیاتھا۔
مسعودالرب کو اس بات پرفخر تھاکہ وہ آزادہندوستان میں یعنی یکم دسمبر
1948کو پیداہوئے تھے ۔کچھ ہوش سنبھالاتوپتہ چلاکہ ان کے والدین جس مکان میں
رہتے ہیں اس مکان میں ان کی نانی اور ماموں شہباز حسین بھی رہتے ہیں۔ان کا
نانیہال داناپور سے جنوب مغرب میں واقع ایک گاؤں جمسوت میں تھا ۔ناناریلوے
میں چیف انجینئرکے عہدے پرفائز تھے اوردوران ملازمت ہی دنیاسے رخصت ہوگئے
تھے۔ان کے زیادہ تر دادیہالی اور نانیہالی رشتہ دار ترک وطن کرکے پاکستان
جاچکے تھے ۔کتب بینی کاشوق انہیں اپنے والدسیدعبدالرب سے وراثت میں ملاتھا
جواس وقت پٹنہ یونیورسیٹی میں اکاؤنٹنٹ کے عہدے پرفائزتھے اور ہردن داناپور
سے پٹنہ آیا جایاکرتے تھے ۔اگریہ کہاجائے کہ صحافت کاشوق انہیں نانیہالی
ترکہ میں ملا تومبالغہ نہ ہوگا کیونکہ چھوٹے ماموں شہبازحسین کایہ محبوب
مشغلہ تھا۔ معروف صحافی غلام سرورمرحوم سے بے حد نزدیکی دوستی کی وجہ سے وہ
ان کے ساتھ پٹنہ کے کئی اخبارات سے منسلک رہے۔ غلام سرورنے شہبازحسین کے
ساتھ مل کر ہفتہ وار’’سنگم ‘‘کاداناپور سے اجرا کیاتھا ۔ یہ اخبار دونوں کی
مشترکہ ملکیت میں کافی دنوں تک جاری رہا ۔بعدمیں شہبازحسین بی ایس کالج
داناپور میں بحیثیت اردولکچررمقرر ہو گئے تھے جس کے بعد اخبارسے ان کاتعلق
ختم ہوگیا۔چندبرسوں کے اندر ہی شہباز حسین حکومت ہندکے ماہنامہ’’آج کل‘‘میں
اسسٹنٹ ایڈیٹرکے طورپر سرکاری ملازمت میں شامل ہوگئے ۔جس کے بعدوہ اس رسالہ
کے ایڈیٹراور پھرترقی اردوبورڈ کے پرنسپل پبلی کیشن افسر وغیرہ بنائے
گئے۔شہبازحسین انھیں باربار نئی دہلی بلاتے رہے اوریہ یقین دہانی بھی کراتے
رہے کہ نئی دہلی میں جس اردو یاانگریزی اخبار میں کام کرناپسند کریں گے وہ
یہ ملازمت دلاسکتے ہیں لیکن اپنی خرابی صحت کی وجہ سے وہ کبھی نئی دہلی کی
تیزرفتار زندگی میں شامل ہونے کی ہمت نہ کرسکے۔
پٹنہ مسلم ہائی اسکول میں سیدمسعودالرب کی تعلیم جاری رہی جہاں سے انھوں نے
1961 ء میں فرسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کیاتھا۔ اس درمیان انکے والدکاتبادلہ
بہاریونیورسیٹی مظفرپور کردیاگیاتھااسلئے انھوں نے لنگٹ سنگھ کالج میں
ایڈمیشن لیااوروہاں سے پری یونیورسیٹی کاامتحان بھی امتیازی نمبر سے پاس
کیا۔ایک سال کے اندر ہی والدصاحب کو دوبارہ پٹنہ یونیورسیٹی بلالیا گیا ۔جس
کے باعث انھوں نے سائنس کالج پٹنہ میں بی ایس سی پارٹ ون میں داخلہ لیا
وہاں سے پارٹ ون پاس کرکے کیمسٹری آنرس کے کورس میں شامل ہوئے ،لیکن ایک
سال کے بعد ہی طرح طرح کی بیماریوں نے آدبوچاجس کے نتیجہ میں سائنس کی
تعلیم چھوڑ کر پٹنہ کالج میں انگلش آنرس کاکورس جوائن کرلیا۔ خرابی صحت کی
بناپر ان کی زندگی میں اتنی پریشانیاں آئیں اوراتنی مشکلات انھوں نے جھیلیں
کہ ان کے اندر احساس محرومی نے گھر کر لیا ، اور وہ کم گو اورتنہائی پسند
ہوگئے۔ 1981ء میں روزنامہ ’’قومی آواز‘‘ پٹنہ سے صحافتی زندگی
کاآغازکیااورصحافت کوہی ذریعہ معاش بنائے رہے۔ 1992ء میں’’قومی آواز‘‘ کی
اشاعت بندہونے کے بعد پٹنہ سے شائع ہونے والے دیگر کئی اخبارات پندار،ایک
قوم اورصدائے عام کے شعبہ ادارت سے منسلک رہے۔اس کے علاوہ دوردرشن پٹنہ کے
اردونیوزسروس سے کیزوّل ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کرنے کا
انھیں موقع ملا،جو2012تک جاری رہا۔ 1994ء میں پٹنہ سے ہی شائع ہونے والے
روزنامہ’’ انقلاب جدید‘‘ اور پھر 1998 میں روزنامہ’’ سنگم ‘‘کے شعبہ ادارت
میں شامل ہوئے۔حال کے دنوں وہ پٹنہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’پندار‘‘کی
ادارت میں شامل رہے اوراپنی صحافتی صلاحیتوں کابھرپورمظاہرہ کرتے ہوئے
،اپنے اداریوں دیگر کالموں سے کوعوام کے درمیان مقبول رہے۔ افسوس کہ زندگی
میں انھیں ، ان کی صحافتی خدمات کے لئے جو اعزاز ملنا چاہئے تھا ، وہ نہیں
ملا ۔ اب دیکھنا ہے کہ مرنے کے بعد ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کس طرح
کیا جا تا ہے۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم ان کے صحافتی کالموں اور دیگر
مضامین کو ہی مرتب کر شائع کر دیا جائے اور ان کے پسماندگان کے بہتے آنسو
پوچھ دیا جائے ،تو سیدمسعودالرب مرحوم کی روح ضرورخوش ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ
دنیا اب اچھے اور با کردار لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اﷲ پاک
سیدمسعودالرب مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا
ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭ |