سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے عہدہ چھوڑتے وقت بڑی
تاریخی بات کہی تھی کہ اس ملک میں قبضہ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہے۔اس
کے بعد وہ پارٹی چھوڑ کر ’’تبدیلی ‘‘کے سفر پر گامزن ہو گئے ۔گو کہ چوہدری
سرور کے پارٹی چھوڑنے کے سیاسی محرکات یا ذاتی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن
قبضہ مافیا کے حوالے سے ا ن کی بات سو فیصد درست تھی ۔بیرون ملک رہنے والے
پاکستانیوں کی زمینیں اور جائیدادیں مال مفت سمجھ کر ا ن کے رشتے دار تک
ہتھیا لیتے ہیں ۔بیرون ملک ایک ایسی پروان چڑھ چکی ہے جس میں پاکستان کے
حوالے سے خاصی بددلی پائی جاتی ہے۔ان کابچپن یا جوانی چونکہ پاکستان میں
نہیں گزری اور نہ ہی ان کی کوئی یادیں پاکستان سے وابستہ ہیں اس وجہ سے ان
میں پاکستان کے حوالے سے وہ خصوصی ’’کھینچ ‘‘نہیں ہے جو ان کے والدین یا
بزرگوں میں ہے۔اس نسل کے پاکستان کے حوالے سے تاثرات ’’گوروں ‘‘سے ملتے
جلتے ہیں یعنی ایک ایسا ملک جہاں زمین ،جائیداد ،عزت اور جان کچھ بھی محفوظ
نہیں ہے۔اس میں ان کے والدین کی تربیت سے زیادہ اس سسٹم کا قصور ہے جو ان
کا ائیر پورٹ پر اترنے سے لے کر واپس ’’اپنے ‘‘ملک لوٹ جانے تک پیچھا کرتا
ہے۔یہ اپنے والدین کا ان کے ’’پیاروں ‘‘ یا سسٹم کے ہاتھوں استحصال ہوتا
دیکھتے ہیں تو اس صورتحال میں ان کو کوئی الزام دینابھی زیادتی ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد نے
جائز اور ناجائز طریقوں سے بڑے اثاثے بنا لیے ہیں ۔ان کے’’ ٹیلنٹ ‘‘کو ان
ملکوں میں وہ مواقع ملے ہیں جو پاکستان میں شاید نہ ملتے ۔کچھ عرصہ قبل
یورپ میں کئی سال سے مقیم ایک پاکستانی سے اتفاقاًملاقات ہوئی ،صاحب نے
چہرے پر یتیمی کے تاثرات سجا کراپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹا موٹا
کام کر کے اپنی دال روٹی چلا رہے ہیں ۔باتوں میں یہ بھی بتایا کہ کچھ عرصہ
قبل انہیں چوبیس لاکھ یورو کا نقصان بھی ہوا ہے۔یوں ہی میرے ذہن میں خیال
آیا کہ جس کا صرف نقصان ہی چوبیس لاکھ یورو کا ہو اس کے اثاثوں کا اندازہ
لگانا بھی مشکل ہے ۔اس کے یتیمانہ تاثرات بھی جائز ہیں کہ اس سے زیادہ ذ
ہنی پسماندگی اور غربت اور بدقسمتی کی انتہاہو ہی نہیں سکتی ۔بیرون ملک
مقیم پاکستانی، پاکستان میں جائیدادیں بنانے کے بہت شوقین ہیں۔جو سرمایہ
پاکستان بھیجتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے یا تو کوئی پلاٹ لے لیا
جائے یا پھر کوئی محل نما مقبرہ تعمیر کرا کے خاندان میں واہ واہ کرا لی
جائے۔یہ پاکستانی بڑی تعداد میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سرمایہ لگانے کو
ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں پلاننگ اور صاف ستھرا ماحول نظر آتا
ہے،دوسرے اس پلاٹ یا مکان کی قیمت میں چند سال میں ہی کئی گنا اضافہ ہو
جاتاہے لیکن وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ان کے اس پلاٹ یا عالیشان
مکان کے لیے کتنے غریبوں اور مجبوروں کا استحصال ہوا ہے۔
پاکستان میں کتنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں جو متعدد بار غیر قانونی قرار دی جا
چکی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سوسائٹیاں کام کر رہی ہیں ۔ان کے بڑے بڑے
اشتہارات چلتے ہیں ۔بہت بار ایسا بھی ہوا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں سب کچھ
ہڑپ کر کے منظر سے غائب بھی ہوئیں اور دوبارہ نمودار ہو گئیں ۔ان سوسائٹیوں
کا طریقہ واردات بہت انوکھا اور مؤثر ہے۔یہ ملک کے سٹیک ہولڈرز کو خرید
لیتی ہیں ۔حکومت فوج کی ہویا سویلین ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔جب کوئی
کرنل،جرنل یا بریگیڈئیر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اسے پرکشش مراعات پر یہ
سوسائٹیاں بڑے عہدوں پر لگا دیتی ہیں اب ظاہرہے کہ کوئی کرنل ،جرنل یا
بریگیڈئیر ریٹائرڈ ہو بھی جائے تو ’’سوا لاکھ ‘‘سے تو کم کا نہیں ہوتا ۔یوں
یہ سوسائٹیاں خود پرہاتھ ڈالنے کا نظام بہت مشکل اور پیچیدہ بنا دیتی
ہیں۔نچلے رینک کے فوجی بھی سیکیورٹی گارڈ بھرتی کر لیے جاتے ہیں کیونکہ ایک
تو انہیں اسلحہ استعمال کرنے کا شعور ہوتا ہے دوسرے وہ بیچارے ’’آرڈر
‘‘لینے کے عادی ہوتے ہیں ،یہ لوگ بھی ان سوسائیٹیوں کے لیے آئیڈیل ہوتے
ہیں۔
پھر یہ سوسائٹیاں جگہ کا انتخاب کرتی ہیں اور اسے اونے پونے داموں خریدنے
کی کوشش کرتی ہیں اگر کامیاب ہو جائیں تو ٹھیک دوسری صورت میں زمینوں پر
زبردستی قبضے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقی مالکان نہ صرف متاثرین بن
جاتے ہیں بلکہ اکثر جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ایک واقعہ جو ماڈل ٹاؤن
ہمک کے گاؤں کنیال میں25اکتوبر کو دن دیہاڑے پیش آیا ہے،اسے میڈیا میں
غالباً کچھ’’ ناگزیر‘‘ وجوہات کی بنا پر نمایاں جگہ نہیں ملی۔اس واقعے کے
نتیجے میں معروف بی بی نامی خاتون اپنی زمین کے لیے لڑتے ہوئے زندگی سے
ہاتھ دھو بیٹھی ۔اس کے شوہر نے پولیس کوبتایا کہ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے
نے مسلح غنڈوں کے ساتھ ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس پر مالکان نے
مزاحمت کی ۔اس موقع پر بشیر عالم نامی شخص نے عنصر محمود ولد غضنفر حسین کو
ڈنڈا مار کر زخمی کر دیا اور کرنل ریٹائرڈ وسیم نے معروف بی بی پر سیدھا
فائر کیا جو اس کے پیٹ میں لگا ۔دوسرا فائر بحریہ ٹاؤن کے کرنل (ر)خلیل نے
کیا جو اس کے سینے میں لگا اور یہ خاتون ہسپتال کے راستے میں ہی دم توڑ گئی
۔اگر اس واقعے میں بھی ’’قتل ‘‘نہ ہوتا تواس کی ایف آئی آر درج نہ ہوتی یا
پھر متاثرین کے خلاف درج ہوتی ۔نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی جانب سے اس طرح کی
وارداتیں معمول کی بات ہے اور کسی کو پرواہ نہیں کہ راولپنڈ ی اور اسلام
آباد کے کتنے بڑے رقبے پر جنگلات تلف کر کے اور لوگوں کا استحصال کر کے یہ
رہائشی سکیمیں بنتی ہیں۔یہ تو صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ معروف بی بی کو
اس کے مرنے کے بعدہی سہی انصاف ملے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس اس طرح کے
واقعات میں سے ناقص تحقیق اور تفتیش کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ’’مرا ہوا
چوہا ‘‘برآمد کرتی ہے اور عدالتوں میں یہ کیس ختم ہو جاتے ہیں۔اگر دیکھا
جائے تو ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔اگر صرف تارکین وطن ہی اس بات کا
عہد کر لیں کہ وہ اپنے ’’مقبرے ‘‘اور محلات تعمیر کرنے کے لیے کسی ہاؤسنگ
سوسائٹی یا قبضہ مافیا سے لین دین نہیں کریں گے تو ان سوسائٹیوں کی ہوا نکل
جائے ۔جس زمین کی حفاظت میں کسی نے اپنا خون بہایا ہو یا جس زمین پر کسی
مظلوم کے آنسو ٹپکے ہوں اس مقام پر کوٹھی اور بنگلے میں رہنے والا کیسے خوش
رہ سکتا ہے ۔ |