ضیا شاہدکانام پاکستانی صحافت میں ایک مرد حر کی طرح جانا
اور پہچانا جاتا ہے ۔ انہیں بات کہنے اور کرنے کا خوب ڈھنگ آتا ہے۔ وہ مجدد
صحافت مجیدنظامی مرحوم کی طرح جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے نہیں
گبھراتے ۔اگر انہیں مزاحمتی صحافت کا نقیب کہاجائے توغلط نہ ہوگا ۔ وہ جس
اخبار میں بھی رہے اور جس عہدے پر بھی فائز رہے انہوں نے اپنے وجود کوحقیقی
معنوں میں منوایا ۔اپنی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ضیا شاہدلکھتے
ہیں کہ میں روزنامہ تسنیم میں کاتب کی ملازمت کے لیے پہنچا تو اردو اچھی
ہونے کی بنا پر سب ایڈیٹر کے طور پر مجھے نیوز ڈیسک پر بٹھالیاگیا ۔ پھر
مختلف اخبارات سے ہوتا ہوا میں اردو ڈائجسٹ پہنچا ۔(جسے ڈائجسٹوں کی ماں
قرار دیا جاتاہے ) جہاں مجھے ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا
پھر یہی پر سب ایڈیٹر اور آخر میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گیا ۔4 جنوری 1945ء
گڑھی یاسین ضلع شکار پور سندھ میں پیدا ہونے والے ضیا محمد روزنامہ تسنیم
لاہور سے ہوتے ہوئے ہفت روزہ اقدام ٗ روزنامہ کوہستان ٗ روزنامہ حالات ٗ
ہفت روزہ کہانی لاہور ٗ مغربی پاکستان ٗ ہفت روزہ صحافت ٗ نوائے وقت ٗ
روزنامہ جنگ ٗ ہفت روزہ آواز پنجاب ٗ روزنامہ پاکستان اور زندگی کے ساتھ
وابستہ رہے۔ اب آپ روزنامہ خبریں ٗ خبرون (سندھی) ٗ خبراں (پنجابی ) دی
پوسٹ (انگریزی)ٗ دوپہر کے اخبار"نیا اخبار"کے چیف ایڈیٹر / پبلشر ہیں ۔آپ
سینئر نائب صدر اے پی این ایس کراچی ٗ سابق سینئر نائب صدر سی پی این ای
کراچی اور صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر بھی ہیں ۔ بے باک صحافتی
خدمات اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں آپ ذوالفقار علی
بھٹو کے دور میں شاہی قلعے کے مہمان بھی رہے اور سات ماہ تک جیل بھی کاٹی ۔
اعلی صحافتی خدمات کے عوض صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آپ کو
اعلی سول اعزاز ستارہ امتیاز بھی ملا جبکہ سی پی این ای کی طرف سے آپکو
وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی میسر آیا ۔
آپکی چند مشہور کتابوں میں خون کا سمندر ٗ چپکے سے ٗ خوفناک کہانیاں ٗ
عقابوں کانشیمن ٗ جمعہ بخیر ٗ طوفان کی سرزمین ٗ جنگ عظیم کی کہانیاں ٗ
خوفناک کہانیاں ٗ عقابوں کا نشیمن ٗ ولی خان جواب دیں ٗ جمعہ بخیر ٗ
پاکستان کے خلاف سازش ٗ قائد اعظم زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات ٗ
امی جان ٗ باتیں سیاست دانوں کی ٗ قلم چہرے ٗ یہ فلم والے ٗ نور جہاں اور
دلیپ کمار اور زیرنظر کتاب "گاندھی کے چیلے"شامل ہیں ۔
آپ 4 جنوری 1945ء کو صوبہ سندھ کے ایک قصباتی شہر گڑھی یاسین میں پیدا ہوئے
جہاں آپ کے والد ان دنوں تحصیل دار کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی انجام دے
رہے تھے ۔ ابھی آپ نے ہوش بھی نہیں سنبھالی تھی کہ والد گرامی چوہدری جان
محمد کا سایہ پدری سر سے اٹھ گیا اور آپ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ آپ کی
عظیم والدہ حشمت بیگم نے انجام دیا ۔
کتاب "گاندھی کے چیلے "کی ورق گردانی شروع کی تو سب سے پہلے مجھے کتاب کا
انتساب اجمل خٹک کے نام پر دیکھ کرحیرت ہوئی ۔ کیوں اجمل خٹک وہ شخص ہے جس
نے زندگی بھر پاکستان کی مخالفت کی اور وہ ہمیشہ سرحدی گاندھی کے پسندیدہ
چیلوں میں شامل رہے۔ اسی جستجو میں جب انتساب پڑھا تو دل خوش ہوگیا کہ مصنف
نے اجمل خٹک کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا وہ بہت خوب لکھا بلکہ اجمل خٹک کے
اچھے اور برے کردار پر نہایت بے باکی سے روشنی ڈالی ۔مصنف لکھتے ہیں کہ جب
ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں نیپ ( سیاسی جماعت ) کے خلاف ریفرنس
بھیجا تو دلائل اور ثبوتوں میں سب سے زیادہ اجمل خٹک کے بیانات اور تحریریں
اس ریفرنس میں شامل تھیں ۔ تاریخ کا پہیہ چلتا رہا۔ بعد میں وہی اجمل خٹک
نواز شریف کے حامی اور اتحادی بن گئے ۔ شدید علیل ہوئے تو علالت کی خبر جان
کر میں انکے گھر مزاج پرسی کے لیے گیا ۔اجمل خٹک بستر پر دراز تھے اور میں
اس کرسی پر بیٹھا ان سے محو گفتگو تھا جو بستر کے بالکل قریب تھی ۔ اجمل
خٹک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ضیا شاہد میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ
پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کیا اس پر میں بہت شرمسار ہوں اور گزشتہ کئی
برسوں سے اپنی غلطیوں کی تلافی میں مضبوط اور مستحکم پاکستان کی خاطر سیاسی
جدوجہد کررہا ہوں ۔ کبھی موقع ملے تو اپنے اس بوڑھے دوست کے بارے میں یہ
ضرور لکھیئے گا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اس نے اپنی سابقہ زندگی اور
غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا شاہد نے اس کتاب کا انتساب اپنے مرحوم دوست اجمل خٹک کے
نام کرکے حقیقی معنوں میں وہ قرض ادا کردیا ہے جو زندگی کے آخری ایام میں
ان پر واجب کردیاگیا تھا ۔مصنف "چند سطریں " کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ
سرحدی گاندھی کے بیٹے عبدالولی خان نے اپنی ایک کتاب Fact are Fact میں
برٹش لائبریری لندن میں موجود دستاویزات کا سہارا لے کر بانی پاکستان حضرت
قائداعظم محمد علی جناح ؒ پر یہ الزام لگا یا کہ وہ ( خدانخواستہ ) انگریز
کے ایجنٹ تھے ۔
پاکستان ٗ مسلمانوں کے سیاسی ٗمعاشرتی اور معاشی حقوق کی جدوجہد کی بجائے
انگریز کی سازش کا نتیجہ تھا ۔ ظاہر ہے کہ کوئی سچا اورمحب وطن پاکستانی اس
شرمناک الزام کو پڑھ کر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ ضیا شاہد نے الزامات اور
حقائق کو کھنگارتے ہوئے زیر نظر کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ وطن
دشمن لوگ کون ہیں جو چاند پر تھوکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔ انکے دلوں
میں بانی پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف اس قدر نفرت کیوں ہے اس خاندان
کی ابتداء (جو خود کوانگریز دشمنی کاعلمبردار سمجھتا تھا) انگریزی فوج میں
معصوم پٹھان نوجوانوں کو بھرتی کروانے کے نتیجے میں انعام کے طور پر زمینوں
اور جاگیروں سے ہوئی پھر پتہ چلا کہ نام نہاد تصوف اور جھوٹی عوامی خدمت کا
پرچارک کس طرح اپنی روح کو گاندھی کے ہاتھ فروخت کرچکا تھا ۔
اپنی خودنوشت میں غفار خان (سرحدی گاندھی ) لکھتا ہے کہ جتنے دن وہ گاندھی
کی خدمت میں رہا اپنے ہاتھ سے (نام نہاد) مہاتما کے پاؤں دھوتا رہا ۔ کیسے
صبح کو پوجا پاٹ سے اس کی روح تر و تازہ ہوتی تھی کس طرح اس کے بھائی اور
صوبہ سرحدکے وزیر اعلی ڈاکٹر خان کی انگریز بیوی کو برٹش سرکار دہلی سے
ماہوار بھاری وظیفہ ملتاتھا ۔ تاکہ وہ پٹھان قوم کو حکومت برطانیہ کا مطیع
و فرماں بردار بنائے رکھے۔ بھارتی حکومت نے کیسے سرحدی گاندھی غفار خان کو
دہلی بلا کر سب سے بڑے سرکاری اعزاز سے نوازا اور کیسے نقد کروڑوں روپے کی
تھیلی تحفے میں پیش کیے اور یہ پیسے غفار خان پاکستان لے کر نہیں آیا بلکہ
افغانستان کے بینکوں میں جمع کروائے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی "را "کے سربراہ
اشوک رینانے اپنی کتاب میں خوفناک انکشافات کیے کہ بھارتی وزیر اعظم مرارجی
ڈیسائی کے سامنے ایک خفیہ فائل لائی گئی جس کے مطابق ہر ماہ بھاری رقوم دلی
سے افغان بنکوں میں منتقل ہوتی پھروہاں سے پشاور میں ولی خان تک پہنچتی
تاکہ وہ پختونستان اور آزاد بلوچستان کے لیے پٹھانوں میں رشوت کے طور پر
تقسیم کرسکے ۔ بعدازاں غفار خان نے وصیت کی کہ انہیں پاکستان کی بجائے
افغانستان میں دفن کیا جائے ۔ اجمل خٹک سرحدی گاندھی کے ایما پر ہی کابل
میں بیٹھ کر مطالبہ کرتے رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو
طورخم سے اٹھا کر دریائے اٹک کے پل تک لایا جائے ۔ یہی وہ سازشیں اور
بیہودہ مطالبات تھے جن کی بنا ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان ٗ مینگل ٗ
بزنجو ٗ مری اینڈ کمپنی کوگرفتار کرکے حیدر آباد جیل میں بندکیا ۔ تاریخ اس
بات کی گواہ ہے کہ پنڈت نہرو کے جلوس پر پشاور ائیر پورٹ سے چار سدہ تک
پاکستان کے حامی پٹھانوں نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کس قدر گوبر پھینکا
تھا۔
ایک اور جگہ ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ ولی خان نے ایک مرتبہ پنجاب دشمنی میں
یہاں تک کہہ دیا کہ افغانستان سے آنے والے لوگ ہمارے بھائی ہیں اور پنجاب
سے آنے والے مہاجر ہیں ۔ لیکن جب جنرل ضیا ء الحق کے دور میں افغانستان پر
سوویت یونین کے قبضے کے بعد جو افغان مجاہدین کی اہل و عیال طور خم عبور
کرکے صوبہ سرحد پہنچے تو سرحدی گاندھی کے بیٹے ولی خان نے انہیں امریکی
پٹھو قرار دیتے ہوئے کلاشنکوف کلچر کی آمد کاالزام انہیں افغان مہاجرین کے
سر تھوپ دیا ۔کیونکہ اس وقت ولی خان کے دماغ میں کے دماغ میں روس کا سرخ
انقلاب چھایا ہوا تھا ۔ولی خان اور اس کے ہمنوا ء روسی ٹینکوں کے استقبال
کے لیے طورخم پر روزانہ استقبال کے لیے کھڑے نظر آتے ۔ کیاجی ایم سید کے
بیٹے کا باچا خان کی برسی کو حج اور عمرے کی سعادت قرار دینا ٗ فوج کو بجٹ
کا بڑا حصہ نہ دینے ٗ سرخ ٹوپیوں کے سیلاب میں اپنے آپ پر جذبات پر کنٹرول
نہ رکھ سکنا اور اس طرح کے اعلانات کرنااگر ہم اپنی بجلی ہی لے لیں تو
ہمارا صوبہ امیر ترین بن سکتا ہے ۔ یہ سب کیا تھا ۔مصنف ٗ ولی خان اور
سرحدی گاندھی کے دیگر چیلوں سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں کیا بجلی بنانے پر
صرف ایک ہی صوبے کے وسائل خرچ ہوئے تھے ۔
ضیا شاہدنے سرحدی گاندھی کے ان چیلوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے ہوئے کتاب
میں 1970ء سے 1997ء تک ہونے والے الیکشن کے عوامی نتائج کی ایک جھلک بھی
پیش کی ہے جس کے مطابق 1970ء میں قومی اسمبلی کی چھ ٗ 1977 ء میں چار ٗ
1988ء میں دو ٗ 1990ء میں چھٗ 1993ء میں تین نشستیں جیتی تھیں ۔جب بھی صوبہ
سرحد میں حکومت بنائی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اشتراک حاصل ہونے
والے ووٹوں کی وجہ سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے ۔
انگریزوں سے جاگیریں حاصل کرنے والی خان فیملی کے عنوان کے تحت مصنف لکھتے
ہیں کہ گاندھی کے پرائیویٹ سیکرٹری مہادیو ڈیسائی نے خان برادران یعنی ولی
خان کے والد عبدالغفار خان عرف باچا خان کی زندگی پر ایک کتاب لکھی جس کا
عنوان TWO SERVANTS OF GODتھا ۔ یعنی خدا کے دو خدمت گار ۔ یہ کتاب 1935ء
میں شائع ہوئی ۔مہادیو ڈیسائی لکھتے ہیں کہ خان عبدالغفار خان نے مجھ سے
خود فرمایا کہ یہ خان کادرجہ( جو زمینداری کے مترادف ہے) برطانیہ کی ایجاد
ہے ۔ زمینداریاں اس لیے قائم کی گئیں تاکہ انگریز وں کو اپنا کاروبار حکومت
چلانے کے لیے عملی مدد فراہم ہو سکے ۔1848ء میں برطانوی حکومت نے کوئی پچیس
سال بعد خود میرے دادا کو سینکڑوں ایکڑ اراضی دے کر خان بنایا ۔
ضیا شاہد مزید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ عبدالغفار خان نے ایک مرتبہ مندر کے
افتتاح کے موقع پرموجود ہونے کے بارے میں خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ
پرانے زمانے میں مساجد اس مقصد کے لیے تعمیر کی جاتی تھیں کہ سارے مذاہب کے
لوگ ان میں جائیں اور اپنی اپنی عبادت کریں۔ غفار خان نے یہ امید بھی ظاہر
کی کہ مندر جس کاابھی مہاتماگاندہی نے افتتاح کیا ہے وہ پوجا پاٹ اور (
مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے ) عبادت گاہ کا کام دے گا ۔ عبدالغفار خان کے
ان تاثرات اور جذبات پر ایک ممتاز عالم دین مفتی مدراراﷲ مدرار نقشبندی نے
ایمان افروز تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا دعوی وہی شخص کرسکتاہے جو
اسلام کی مبادیات سے بھی واقف نہ ہو اور نہ مساجد کی حرمت اور قدر و قیمت
کو جانتا ہو ۔ مساجد کبھی مختلف قوموں کی مشترکہ عبادت کے لیے نہیں بنائی
گئیں ۔ اسلام سے قبل خانہ کعبہ میں اور اس کے اردگرد جو تین ساٹھ بت موجود
تھے فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے ان سب کو توڑ پھوڑ کر مسجد حرام سے باہر پھینکو
ا دیا تھا ۔خدا نے مسجداور خانہ کعبہ کو واحد لاشریک کی عبادت کے لیے مختص
کیا اور مشرکوں کا مسجدوں میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا ۔
گاندھی کے پرائیویٹ سیکرٹری پیارے لال کی بھی کتاب جس کا عنوان Mahatma
Gandhi The Last Phase تھا وہ لکھتے ہیں بادشاہ خان کی طبیعت ناساز تھی
انہیں شدید بخار تھا لیکن اس رات بھی ان کا اصرار تھا کہ وہ پہلے کی طرح
حسب معمول گاندھی جی کے پاؤں ضرور دبائیں گے ۔ گاندھی جی نے انہیں روکنے کی
کوشش کی ۔ غفار خان نے جواب دیا یہ اس جگہ میرا آخری روز ہے مجھے اپنی یہ
خواہش پوری کرلینے دیں- اس سے میر ی طبیعت بحال ہوجائے گی ۔ چنانچہ گاندھی
جی غفار خان کو منع نہ کرسکے اور وہ پاؤں دبواتے رہے ۔ ایک اور مصنف پیارے
لال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک رات پہلے 6 مئی 1947ء کو عبدالغفار کی
طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن وہ ساڑھے دس بجے تک جاگتے رہے ۔ ان سے کہاگیا کہ
وہ اپنے اعصاب پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں تو وہ اداسی سے بولے عنقریب ہمیں
ڈومینیئن آف پاکستان کی غلامی میں جانا پڑے گا ۔
ضیا شاہد سے ہر شخص کواختلاف ہوسکتا ہے لیکن ضیاشاہد نے سرحدی گاندھی
خاندان کے خلاف پاکستانیت کا مقدمہ جس دلیری اور جرات مندی سے لڑا ہے اور
یہ کتاب تحریر کی ہے اس پر واقعی وہ خراج عقیدت کے مستحق ہیں ۔قائداعظم
محمد علی جناح اور ڈاکٹر مجید نظامی کو چھوڑ کر ضیا شاہد ہی وہ بہادر انسان
ہیں جو پاکستانیت کا مقدمہ دنیاکے ہر گوشے میں نہایت بے باکی سے لڑ سکتے
ہیں ۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ سانپ کا اگر بروقت سر نہ کچلا جائے تو اپنے
بچے بھی دے دیتا ہے ۔ سرحدی گاندھی کا پورا خاندان ایک سانپ کی مانند ہے جو
پاکستان کو ڈسنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتا۔ پاکستانی حکمرانوں کا یہ ہمیشہ
سے وطیرہ رہاہے کہ جو سانپ جیسی خصلت کے ان لوگوں کو نہ صرف عزت و احترام
دیتے ہیں بلکہ حکومتی اورانتظامی عہدوں پر بھی فائز بھی کرتے ہیں اور اپنی
زہر یلے بیانات سے ہم جیسے محب وطن پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہتے
ہیں ۔ کالا باغ ڈیم جو پاکستانی معیشت کا اہم ترین منصوبہ تھا جس سے 36 سو
میگاواٹ بجلی بھی حاصل ہوتی اور اس ڈیم میں جمع پانی سے چاروں صوبوں کو
زراعت کے لیے وافر پانی بھی میسر آتا ۔ صرف اور صرف سرحدگاندھی کے اس کے
چیلوں نے کالا باغ کی تعمیر کو یہ کہہ کر روک رکھا ہے کہ اگر ان کی مخالفت
کے باوجود ڈیم کی تعمیر شروع کی گئی تو وہ بم مار کر اسے توڑ دیں گے اور
پورے پاکستان کو پانی میں ڈبو دیں گے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے پاکستانی (
فوجی ہوں یا سویلین) اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے کے لیے سب کچھ کرسکتے
ہیں لیکن اس کثیر الامقاصد ڈیم کو اتفاق رائے کی کسوٹی پر رکھ لیتے ہیں ۔ان
سے نہایت ادب کے ساتھ میں یہی کہوں گا کہ کیاپاکستان اتفاق رائے سے قائم
ہوا تھا اگر پاکستان اتفاق رائے سے نہیں بنا تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو
اتفاق رائے کی بھینٹ کیوں چڑھایا جارہا ہے ۔
بہرکیف اس کتاب کا ہر ہر صفحہ اور ہر ہر لکھ ایک مقدس اور پاکستانیت میں
ڈوبا ہوا ہے ۔ میری نظر میں یہ ایسی کتاب ہے جو پاکستان کے قومی نصاب میں
شامل ہونا چاہیئے تاکہ ہماری موجود اور آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ 70
سال کا کٹھن اور تکلیف د ہ سفر طے کر پاکستان جس شکل میں ہمارے سامنے موجود
ہے اس کو نقصان پہنچانے والے آج بھی چار سدہ کی سرزمین پر اپنا منحوس سایہ
رکھے ہوئے ہیں ۔
باطل سے ڈرنے والے ٗ اے آسماں نہیں ہم .... سو بار کر چکا ہے تو امتحان
ہمارا
200صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت اورنہایت اہم کتاب علامہ عبدالستار عاصم نے
قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی بینک سٹاف والٹن روڈ لاہور کینٹ سے
شائع کی ہے ۔ جس کی قیمت 800 روپے ہے جو کتاب کے طباعتی معیار اور تحریری
مواد کو دیکھتے ہوئے زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔
رابطہ 0300-0515101/0300-8422518 اور ای میل
ایڈریس:[email protected] |