کیریکٹر

روز خبر آتی ہے کہ کسی ایک سیاسی لیڈر نے اپنی جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ جس جماعت کو چھوڑا جاتا ہے وہ وقتی طور پر چپ سادھ لیتی ہے مگر مخالف کیمپ میں نقب لگانے کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے کہ کسی طرح مقابلہ برابر کیا جا سکے ۔ جس جماعت میں شمولیت اختیار کی جاتی ہے اس کے سارے لیڈر بغلیں بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ نئے آنے والے کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ا سے اپنے بہت سے کارکنوں کی حق تلفی کرکے بھی اس سے بہتر مقام دیا جاتا ہے جو اسے پہلی جماعت میں حاصل ہوتا ہے۔عجیب بات یہ کہ ایک لمحے میں پارٹی بدلنے والا شخص، جس لیڈر کے اک عرصے تک گن گاتا رہا ہوتا ہے اس کی بد تعریفی ہی نہیں ، اسے گالیاں نکالنے میں بھی کوئی تکلف نہیں کرتااور جسے کل تک وہ برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے اب اسے وہ خوبیوں کا مرقع نظر آتا ہے۔ اپنی ایک سوچ کو اچانک بدلنے، اپنی جماعت کے بارے جس میں اس نے سالہا سال گزارے ہوتے ہیں، بدزبانی کر نے میں نہ تو وہ لیڈر شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اس نئی سیا سی جماعت کو اسے خوش آمدید کہتے ہوئے کچھ حیا محسوس ہوتی ہے۔ کیریکٹر جس چیزکا نام ہے وہ نہ تو سیاسی لیڈروں میں موجود ہے اور نہ ہی ہماری سیاسی جماعتوں میں۔

امریکہ میں دو بڑی پارٹیاں ہیں۔ 1792 میں جنم لینے والی گدھے کے نشان والی ڈیموکریٹک پارٹی اور1854 میں وجود میں آنے والی ، ہاتھی کے نشان والی ریپبلیکن،جس کا 1860 میں منتخب ہونے والا پہلا ممبر ابراہم لنکن تھا۔پوری قوم کے زیادہ تر سیاسی کارکن دو حصے میں بٹے ہوئے ہیں، یا تو وہ گدھے ہیں یا ہاتھی۔سب سے بڑی خوبی ان کارکنوں میں یہ ہے کہ جو گدھا ہے وہ ساری عمر گدھا رہتا ہے۔ ہاتھی بھی ہمیشہ ہاتھی ہی رہتا ہے۔پارٹی ہارے یا جیتے ، قیادت ان کی پسندیدہ شخصیت کے ہاتھ ہو یا کسی ناپسندیدہ کے ہاتھ۔کسی بھی حال میں کارکنوں کی سیاسی وابستگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔کسی اختلاف کی صورت میں وہ اپنی پارٹی کے خلاف بھی بولتے ہیں مگر پارٹی اس تنقید کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرتی ہے۔اپنے کارکن پر شک نہیں کرتی۔کارکنوں کا بھی جینا مرنا پارٹی کے ساتھ ہوتا ہے۔ان کارکنوں کے خیال میں جس پارٹی میں ان کی سیاسی پرورش ہوتی ہے وہ پارٹی ماں باپ کی طرح عزیز ہوتی ہے ۔جس طرح ما ں اور باپ نہیں بدلے جا سکتے اس طرح پارٹی بدلنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔کوئی شخص اگر کسی وجہ سے اپنی پارٹی کو خیر باد کہہ دے اور دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہے تو نئی پارٹی میں اسے کوئی پذیرائی نہیں ملتی ،وہ اپنا مرتبہ، اپنا وقار اور اپنا عہدہ سب کچھ کھو دیتا ہے ، عملی طور پر اس کی سیاسی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مگر ہمارے سیاسی لوگ ہر اصول اور ہر ضابطے سے عاری ہوتے ہیں۔ہمارا سیاسی کلچر بالکل شتر بے مہار ہے۔جس میں سیاسی لیڈر کا کوئی کیریکٹر نہیں، اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت کرنا اس کی پروموشن کا باعث ہوتا ہے۔ باکردار آدمی ہمارے سیاسی کلچر میں پنپ ہی نہیں سکتا۔

دنیا میں ہر طبقے اور ہرمعاشرے کا اپنا ایک مخصوص کیریکٹر ہوتا ہے اور وہ اس پر کوئی سودے بازی نہیں کرتے۔ کسی بھی حال میں اور کسی بھی مفاد میں اپنے آپ کو گراتے نہیں۔ ہماری اشرافیہ کی طرح چھوٹے موٹے فاعدے کے لئے ہر اصول کو بالائے طاق نہیں رکھ دیتے۔ حتی کہ طوائفیں جنہیں معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ، بھی بڑی باصول ہوتی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ لکھنو اور گرد و نواح کے لوگ اپنے بچوں کو اخلاقیات کی تعلیم کے لئے ان کے پاس بھیجتے تھے۔ ملک شاہ عادل ایک شجاع ، حوصلہ مند، نڈر، عادل اور باتدبیر بادشاہ تھا جس کی سلطنت چین سے بیت المقدس تک پھیلی ہوئی تھی۔اس کا وزیر نظام الملک طوسی بھی اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی مشہور آدمی ہے۔سلطان کے حکم سے اس نے اپنے زمانے میں جس شہر میں بھی کوئی عالم تھا وہاں ایک مدرسہ اور ایک کتب خانہ بنوایا۔ ان میں سب سے بڑا بغداد کا مدرسہ نظامیہ تھا۔طوسی نے سیاسیات اور مملکت کے قانون کے بارے ایک کتاب’’سیاست نامہ‘‘ کے نام سے لکھی جو آج بھی اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے۔

سلطان عادل کی عدل پروری کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں۔سلطان عادل نغمہ و سرود کا بھی شوقین تھا۔ایک دن وہ ایک انتہائی خوب صورت اور خوش گلو مغینہ کا گانا سن رہا تھا۔ مغینہ کی آواز اور صورت اسے بھا گئی۔سلطان کی نیت میں فتور پیدا ہو گیا۔مگر مغینہ ڈٹ گئی کہ یہ ممکن نہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میرا خوبصورت چہرہ دوزخ کا ایندھن بنے۔اگر میں تمہیں پسند ہوں تو حلال اور حرام کے درمیان فقط ایک بول کا فاصلہ ہے۔مجھے پانے کے لئے تم کو وہ فاصلہ طے کرنا ہو گا۔سلطان کو اس کی بات سمجھ آ گئی ، اپنی غلطی کا بھی احساس ہوا۔اسی وقت قاضی کو بلا کر اس سے نکاح کر لیا۔یہ ساری بات کیریکٹر کی تھی جس نے لمحوں میں ایک مغینہ کو ملکہ بنا دیا۔

ہمارے ملک میں درحقیقت قیادت کے حوالے سے قحط الرجال ہے۔ حقیقی لیڈر کہیں نظر نہیں آتا۔حقیقی لیڈر تو آئندہ نسلوں کے لئے لیڈروں کی پرورش کرتا ہے جو اس کے بعد اس کی جگہ لے سکیں۔ نواز شریف اور زرداری اب ماضی کی داستانیں ہیں۔انہوں نے قوم کو کچھ نہیں دیا۔عمران بھی شاید چند سالوں کی بات ہے۔ یہ اشخاص ہیں اور ان کی پارٹیاں شخصی یا خاندانی پارٹیاں۔ لوگوں میں جہالت کی پیداوار۔ بے شعوری کی دین۔ ان لیڈروں کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹیاں بھی فوت ہو جائیں گی۔اب لوگوں میں کچھ شعور آ رہا ہے ،اس لئے ایک بہتر عمل کی ابتدا ہو رہی ہے۔بہتر سے بہترین لیڈر کی جستجو اور آرزو جنم لے رہی ہے۔ پسند کا معیار بدل رہا ہے۔لوگ سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہیں احساس ہو رہا ہے کہ موجودہ سب لوگ نعروں کے سوا کچھ نہیں دیتے۔جوں جوں یہ احساس جواں ہو گا۔مایوسیاں اور اندھیرے خود بخود چھٹنے لگیں گے اور جلد اک نئی صبح طلوع ہو گی جب لیڈری کا سب سے بڑا پیمانہ کیریکٹر ہوگا۔کہتے ہیں دولت چلی جائے تو سمجھو کچھ نہیں کھویا، صحت چلی جائے تو سمجھو کچھ کھو گیا اور اگر کردار چلا جائے تو سمجھو سب کچھ چلا گیا۔ یہ صرف ہمارے سیاسی کلچر کا کمال ہے کہ ہمارے لیڈر سب کچھ کھو کر زندہ بھی ہے اور شرمسار بھی نہیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500686 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More