پنچائت

گہری دھاری والے شیر نے گردن کو اونچا کیا۔ تا حد نگاہ جانوروں کا سیلاب نظر آ رہا تھا۔ گرچہ کہ وہ تمام پنچائت میں سب سے جہاندیدہ تھا مگر وہ پچھلے زمانوں کا علم ہرگز نہ رکھتا تھا۔ بوڑھی ہتھنی جو کہ گزشتہ سات دھائیوں کا علم رکھتی تھی وہ بھی اس پنچائت کو بے نظیر سمجھتی تھی ۔

رانی شیرنی کھلے استھان کے داھنے ہاتھ دراز تھی ۔ بڑھتے حمل کے باعث اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا اور سانس میں تیزی آ چکی تھی ۔ اس کا شریر اپنے آنے والی خوشی کے احساس سے بے خود تھا مگر اس معاملے نے تو اس کی بھی تمامتر توجہ کھینچ لی تھی ۔ سارے جنگل کی شیرنیاں وہاں امڈ آئیں تھیں اور ان کی سانسوں کی دھمک اک اضطراب کو جنم دے رہی تھی ۔

پنچائت میں شامل پانچوں شیر جنگل کے تمام جانوروں میں عاقل ترین مانے جاتے تھے مگر اس معاملے میں ان کی ظاہری کیفیت ان کی بوکھلاہٹ کا پتہ نہیں دیتی تھی ۔ معاملہ ہی کچھ یوں تھا کہ ان کا علم کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر تھا ۔

آخر گہری دھاری والے شیر نے گلے کو کنگھارا اور جنگل میں خاموشی چھا گئی ۔ جانور تو کجا کیڑے مکوڑوں کی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی ۔ اس کے محض سر کی جنبش نے لنگور کو معاملہ پیش کرنے کی اجازت دے دی تھی ۔ لنگور نے کاندھوں کو اچکایا اور ہاتھوں کو پیچھے باندھ کر چند قدم پنچائت کی جانب بڑھاتے ہوے گویا ہوا ۔

ھمارے جنگل کی سلامتی کی بنیاد قانون فطرت ہے اور اس کی روح سے شیروں کو ہم اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں ۔ تمام معاملات میں ہم شیروں کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ شیر ہی تمام علم کا سرچشمہ ہیں ۔

پانچوں شیروں کی گردنوں کا تناؤ اپنی جانب متوجہ رعایا کی نظروں کہ احساس سے بڑھ چکا تھا۔ لنگور مزید گویا ہوا۔

معززین اس پنچائت کا مقصد ایک نہایت اہم معاملہ پہ آپکی رہنمائ کا حصول ہے ۔ کچھ جانور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ چونکہ شیر اس جنگل میں مکمل قدرت رکھتے ہیں تو کیا وہ چاہیں تو بچہ دیں اور چاہیں تو انڈہ بھی دے سکتے ہیں۔

پانچوں شیروں کی گردنوں کا تناؤ کچھ اور بڑھ گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہر جاندار یہ جاننا چاہتا ہے کہ شیروں کی طاقت کی حد کہاں ہے ۔ بظاہر تو یہ معاملہ بالکل چغد معلوم ہوتا تھا مگر پانچوں خاموش تھےکیونکہ وہ اپنی باطنی آنکھ سےتمام جانوروں کہ اترے ہوے چہروں کو دیکھ رہے تھے جو انکے اس اقرار سے متصل تھی کہ شیر انڈہ نہیں دے سکتا۔

اضطراب کچھ اور بڑھا تو گہری دھاری والا شیر گرجا کہ معاملہ سادہ ہے مگر چونکہ اب شام ہوا چاہتی ہےتو کل علی الصبح اس معاملہ کا فیصلہ سنا دیا جایگا۔

پانچوں شیر ایک جانب روانہ ہوے اور آخر گہرے رنگ کی چٹان کےاطراف میں اپنی جگہوں پر براجمان ہو گئے۔ تینوں جوان شیر بولنے کیلئے بیقرار تھے مگر دو بڑے شیروں کے مرتبے سے آگاہ تھے ۔ کچھ توقف کے بعد گھری دھاری والے شیر نےگفتگو کا آغاز کیا۔ بولا قانون فطرت کے تقاضوں کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ شیر چاہے تو انڈہ دے سکتا ہے۔ تینوں جوان شیر کچھ کہنا چاہتے تھے مگر کالی دم والے شیر کی اب باری تھی ۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا فیصلہ تو میرا بھی یہی ہو گا۔

اس برملا اظہار سے تینوں جوان شیر ہوچگاں رہ گئے۔ تینوں ہی ایک وقت میں چیخ اٹھے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ہم کیسے منوا پائیں گے۔ دونوں بڑے شیر گرجے۔ ہم شیر ہیں ہمیں کسی ثبوت کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارا کہنا ہی کافی ہے۔

تینوں جوان شیروں نے سر جھکایا اور بولے مزید استفسار کی ضرورت ہے۔ شیر کا انڈہ کیسا ہو گا۔ اسے کتنے دن سینا ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔

دونوں بڑے شیروں نے اپنی نظریں تینوں جوان شیروں کہ جھکے سروں پر ڈالیں اور بولے۔ برخوردار آپ تینوں اپنا اطمینان کر لیں مگر ہمارا فیصلہ ہرگز تبدیل نہ ہو گا۔ تینوں نے سر ہلایا اور مختلف اطراف میں چل نکلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح تمام جانور اپنی پرانی جگہوں پر واپس آچکے تھے اور پنچائت کے منتظر تھے۔ شیروں کی سانسیں قریب آتی سنائی دے رہیں تھیں اور سب کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ رانی شیرنی بھی اپنے درد کو بمشکل قابو میں رکھ پا رہی تھی ۔ بڑھتے ہوے درد کی لہریں اس بات کی خمازی کر رہیں تھیں کہ کسی ساعت اک خوشخبری اس کی منتظر تھی ۔

پنچائت نے اپنی جگہیں سنبھال لیں اور گہری دھاری والا شیر گلا صاف کرنے کیلیے گرجا اور سر کو اونچاکرتے ہوے بولا۔ پنچائت نے گہری سوچ اور تدبر کے بعد ملکر فیصلہ کر لیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس نے ایک نظر مجمع کی جانب ڈالی مگر مجمع کی آنکھیں رانی شیرنی پر مرکتز تھیں جو حمل کے عمل سے گزر رہی تھی اور شدید قرب کے عالم میں تھی ۔

موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گہری دھاری والے شیر نے آواز کو بیحد بلند کیا اور گرجا۔ پنچائت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ شیر انڈہ دے سکتا ہے۔ تمام جانوروں نے اس کی جانب تحیر سے دیکھا مگر اسی لمحہ رانی شیرنی کی چیخ تمام جنگل کو چیر گئی ۔


تمام جانور مسحورکن نگاہوں سے اس انڈے کو دیکھ رہے تھے جو کہ رانی کے بطن سے پیدا ہو کر لڑھک کر میدان کے بیچ آموجود ہوا تھا۔ یہ انڈہ بیحد چمکدار تھا اور شترمرغ کے انڈے سے کچھ بڑا تھا۔

دھاری والے شیر نے اپنا بھاری بھرکم شریر اپنے استھان سے اٹھایا اور انڈےکا بخور معائنہ کیا ۔ پھر وہ انڈے پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ وہ خوب جانتا تھا اس انڈے سے شیر نکالنا اب اس کی زمہ داری ہے۔

Khurram Ayub
About the Author: Khurram Ayub Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.