(1) اسلام آباد کا دورہ، سلاجیتی ملاقاتیں،روغانی دعوتیں
اور دوسری شادی
19/10/17
:
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اشتراک
سے منعقدہ چار روزہ تربیتی ورکشاپ میں سخت مصروفیت رہی تاہم احباب کے ساتھ
ملنے ملانے اور ملاقاتون کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔۔۔۔بہت سے احباب و اساتذہ
کے ساتھ ملنا چاہتا تھا لیکن ٹائم منیج نہ ہوسکا، واپسی کا ٹکٹ کنفرم تھا۔
اس میں تغیر کی گنجائش نہیں تھی۔۔جن احباب کی محبتوں سے محظوظ ہواان کا ذکر
خیر ہوجائے تو بہتر ہے۔۔
1 ۔ معروف صحافی برادرم سبوخ سید صاحب اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ
تشریف لائے اور رات گئے تک ان کے ساتھ ہنسی مزاق کے علاوہ ’’سنجیدہ
زہریلے‘‘ عنوانات پر گفتگو ہوئی۔
2۔ برادرم عامر ہزاروی نے مارگلہ ہوٹل تشریف لاکر شرف ملاقات بخشی۔تاہم اب
کی بار بھی سلاجیت انہیں نہیں دی جاسکی۔۔
3۔ ہمدردیات کے عبدالخالق ہمدرد نے گھر پر مدعو کیا اور اپنے پند و نصائح
سے باخبر کیا۔ان کے بھائی معاویہ کشمیری سے بھی ملاقات ہوئی۔
4۔ برادرم مفتی عبد الغفار(لیکچرار) نے شرف زیارت سے نوازا، اپنی مصروفیات
کے ساتھ ہماری مصروفیات پرناقدانہ رائے دی اور وہ مشورے بھی عنایت کیے جو
ہماری غیبوبت میں دیگر احباب کو ہمارے متعلق دیا کرتے ہیں۔
5۔ استادمحترم شیخ الحدیث انور صاحب کے صاحبزادے برادرم ڈاکٹر جنید انور
خصوصی طور پر سلاجیت کے لالچ میں لاہور سے ملنے تشریف لائے۔ان کے ساتھ اچھا
وقت گزرا۔مگر سلاجیت اگلی دفعہ مہیا کرنے کا وعدہ(جو وفا نہ ہوسکے) کرکے
رخصت کیا۔۔
6۔ برادرم عارف سعید نے حسب سلسلہ ’’دیس پردیس‘‘ ہوٹل میں ایک شاندار بیٹھک
کا اہتمام کیا۔جس میں ہم نے احباب کے ساتھ مزاحیہ انداز میں دل کی باتیں
خوب شیئر کی۔۔۔۔۔۔۔ہماری تقریر دلپزیر سن کرتمام شرکاء دوسری شادی پر نہ
صرف قائل ہوئے بلکہ تیار بھی ہوئے اور ایک ساتھ چار بہنیں دیکھنے کا مینڈیٹ
بھی مجھے دے دیا۔۔۔۔۔۔۔کوئی صاحب تعاون کریں تو ممنون ہونگا۔۔تاکہ ہم سب ہم
زلف بن سکیں۔۔۔
7۔ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ٹیچر کلب میں زاہد شاہد کے زیر انتظام
جمیعۃ عشاق العربیہ کی منعقدہ بیٹھک میں ذیشان احمد، احتشام،عبداللہ مدنی
اور سمیع اللہ وغیرہ سے بھی ملاقات ہوئی۔۔عشاق العربیہ کی نشست کی تفصیلات
اور استاد ولی خان المظفر کے ساتھ ہونے والی گفتگو الگ تحریر کا متقاضی
ہے۔۔امتیاز داریلی بھی اسلام آباد میں تھے باوجود بار بار چاہنے کے ان سے
ملاقات کی ترتیب نہ بن سکی۔۔۔۔ تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) ڈاکٹر محمد منیر صاحب سے خصوصی ملاقات و انعامات کی وصولی
:
اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے نائب صدر، الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل
، معروف ریسرچر و محقق جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر صاحب سے ایک مفصل
انٹرویو کیا۔اور انہیں نہ صرف دعوت دیا بلکہ قائل بھی کیا کہ وہ بین
الاقوامی یونیورسٹی، الشریعہ اکیڈمی اور بین الاقوامی ریڈکراس کے ورکشاپس،
سیمنارزاور کانفرنسیں گلگت بلتستان میں بھی منعقد کروائیں۔۔۔۔ان شاء اللہ
آنے والے دنوں میں جی بی حکومت کے ذمہ داروں اور نامور تعلیمی اداروں ا ور
بار کونسلوں کے عہدہ داروں سے گزارش کرونگا کہ وہ باقاعدہ آفیشلی ان کو
مدعو کریں۔۔۔اگر جی بی کے ذمہ داران حکومت میرے ساتھ تعاون کریں تو بہت
سارے ورکشاپس اور ٹریننگ کا اہتمام کرواسکتا ہوں۔اسلامک انٹرنیشنل
یونیورسٹی میں عشاق العربیہ کی تقریب میں ڈاکٹر منیر سے خصوصی شیلڈ حاصل
کی۔ الشریعہ اکیڈمی کے گیسٹ ہاوس میں دعوت طعام کے بھی کتابوں کا ایک خصوصی
گفٹ بھی ان کے ہاتھوں وصول کرنے کا موقع ملا۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3) الدکتور استاد ولی خان المظفرؔ کے ساتھ چند لمحات
:
اب کی بار استاد ولی خان المظفر ؔ کو ٹوپی کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔۔۔خدا
کے لیے یہ اعتراض مت کرنا کہ ان کی ’’مندیل احمر‘‘سرخ رومال کہاں ہے۔۔؟ دو
سال پہلے عربی ادب کے حوالے سے عشاق العربیہ کی کوئی نشست تھے۔ استاد جی کی
طفیل ہم بھی مدعو تھے۔ وہاں دوران گفتگو ہم نےاستاد جی کےساتھ دو چار
تصاویر بنوائی ۔استاد جی کے سر پر ٹوپی نہیں تھی شاید صوفے کی سامنے ٹیبل
پرٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ گپ شپ کے دوران نماز کا بلاوا آگیا۔ ہم نماز کے لیے
چل دیے تو دوسرے کمرے کے دروازے پر کسی عرب پروفیسر نے ساتھ تصویر بنوانے
کی چاہت کی۔ میں اور استادجی کھڑے ہوئے۔ایک کلک میں تصویر لی گئی۔تب بھی
استادجی کے سرپر ٹوپی نہیں تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے تقریب کے مہمان خصوصی
کے طور پر استادجی کے سر پر ٹوپی اور مندیل احمر دونوں تھی۔۔خیر وہ تصویر
ہم نے اپنی فیس وال سے احباب کی نظر کیا۔۔پھر کیا تھا کہ صاحبان جبہ و
دستار اور اصحاب تقوی و تدین نےوہ جملے کَسےکہ اچھے بھلے لوگ ورطہ حیرت میں
مبتلاء ہوئے۔ اور تو اور استاد جی سے دورہ حدیث اور سادسہ میں باقاعدہ حدیث
اور تفسیر پڑھنے والوں نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا، فون کے ذریعے بھی
استاد جی کی اس کیفیت ناگفتہ پر گفتگو کی۔۔ بغیر ٹوپی کے تصویر احباب کے
حضور پیش کرنے کی غلطی بلکہ بلنڈر بھی ہم سے ہوئی تھی اور اب ٹوپی کے ساتھ
ہم دوباہ آپ کے حضور حاضر کرکے ثواب دارین بھی ہم ہی کمارہے ہیں۔
استاد ولی خان سے بہت مختصر نشست ہوئی لیکن بہت ہی مفید باتیں ہوئی، بیتے
دنوں کو بھی یاد کیا گیا۔ استادجی کی معیت میں زندگی کی پانچ حسین بہاریں
گزریں ہیں۔ استاد جی نے زور دے کر کہا کہ ’’مشن اور وژن پر توجہ مبذول کرنی
چاہیےیہی موٹو بنایا جائے۔۔ٹوپیوں ،رومالوں اور جبوں پر وہ لوگ متوجہ ہوتے
ہیں جنہوں نے کچھ کرنا نہیں ہوتا۔نان ایشوز کو ایشوز بنایا جاتا
ہے‘‘۔بہرصورت بہت کچھ کرنے والے علامہ اقبال، عطاء اللہ شاہ بخاری اورمحمود
غازی کی طرح بے نیاز ہوکر کرتے ہیں، علمی و دینی اور سماجی خدمات ٹوپیوں کے
کبھی محتاج نہیں رہی ہیں۔عبدالستار ایدھی ساری زندگی ٹوپی اور داڑھی کے
ساتھ انسانیت کی خدمت کرتے رہے، باجود ٹوپی اور داڑھی کے، انہیں کوئی محبت
نہیں ملی نہ ہی خود ساختہ دینی حلقوں میں مقبولیت بلکہ انہی حلقوں سے دشنام
طررازی کا شکاررہے۔ویسے بھی پاکستانی مدارس و ملاووں میں رائج عیسائی پوپ
کی برمی نما ٹوپی، پٹھانوں کی کڑک قسم کی ٹوپیاں،سندھیوں کی موتیوں والی
ٹوپیاں،گلگتیوں اور چترالیوں کی پکول، ترکوں کی ثقافی ٹوپیاں اور محمد علی
کی جناح کیپ ، بریلویوں کی رنگی برنگی ٹوپیوں اور نہ جانے کن کن ٹوپیوں کا
اسلامی ٹوپی ہونے کا جو رواج چل پڑا ہے شاید یہ بہت ہی غلط رجحان ہے۔۔میاں
یاد رہے! سندھیوں، بلوچوں، پٹھانوں اور پنجابیوں کی جو روایتی پگڑیاں ہوتی
ہیں ان کا بھی عمامہ(سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ کوئی تعلق
نہیں۔۔یہ ساری چیزیں اسلام میں ممنوع نہیں تاہم لوگوں کی ثقافت پر دال ہیں
لیکن یار لوگ اپنی اپنی خواہش اور چاہت کے مطابق کسی کو عین اسلامی تو کسی
کو عین غیر اسلامی قرار دینے پر کبھی بھی دیر نہیں کرتے۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
……………………………………………….
(4) طلبہ سے نفرت کبھی نہ کریں
29/10/17
:
میرے ایک استاد تھے۔ میں نے ان سے درس نظامی کے دو اہم مضامین پڑھا۔استاد
جی خدا واسطے مجھ سے شاکی رہتےتھے۔بلکہ گلگت بلتستان کے اکثر طلبہ سے شاکی
رہتے۔میں نے کئی بار کوشش بھی کی کہ استاد جی کی کوئی خدمت کروں۔مگر
استادجی کو یہ گوارا نہ تھا۔ وہ کلاس میں کبھی بھی مجھ سے سبق نہیں
سنتے۔۔۔۔کلاس فیلوز سے بالترتیب درس ماضی سنتے۔جیسےہی میرا نمبرآتا، استاد
جی پڑھانا شروع کرتے یا مجھے کراس کرکے اگلے طالب علم کو سبق سنانے کا
کہتے۔۔۔یقینا یہ عمل میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔۔۔۔بہر صورت وقت گزر
گیا۔۔
گزشتہ سال استاد جی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور کہا
کہ میں اپ کا شاگرد ہوں۔استاد جی کہنے لگے کہ میں پہچان گیا۔ پھر استاد جی
کو اپنے دفتر میں لے گیا، اور اصرار کرکے گھر لے گیا۔۔استادجی سے بہت ساری
باتیں ہوئی۔اپنی مصروفیات سے بھی استادجی کو آگاہ کیا۔ بہت خوش ہوئے۔
ہمارے بعض دوست جو آجکل استاد و مدرس ہیں، اپنے طلبہ سے خواہ مخواہ شاکی
رہتے ہیں یا ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ ان سے خدا واسطے نفرت کرتےہیں۔۔۔۔ایک
طالب علم کےلیے یہ بہت برا وقت ہوتا ہے کہ اس کا استاد اس سے شاکی رہے
۔۔۔۔۔۔تو میری اپنے تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ بہر حال اپنے شاگردوں سے
محبت کیجیے۔۔نہ جانے زندگی کے کس موڑ میں اس کی آپ سے ملاقات ہو، اور محبت
بھرے انداز میں آپ کو ’’استادجی‘‘ کہہ کر پکارے۔۔۔میں تو کہتا ہوں کہ میرے
تمام اساتذہ میرے فخر ہیں اور میرے تمام شاگرد میرے دوست اور میرا مستقبل
ہیں۔۔۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔
(5) ذات یا شخصیت پر تنقید و تضحیک
29/10/17
:
مجھے اخبارات اور ویب سائٹس پر لکھتے ہوئے دس سال گزرے ہیں۔۔ فیس بک پر بھی
چھ سال سے مسلسل لکھ رہا ہوں۔۔ الحمد اللہ آج تک کسی کی ذات یا شخصیت پر
کبھی بھی نام لے کر تنقید تک نہیں کی، تضحیک یا تذلیل تو دور کی بات ہے،
کسی کی تذلیل اور تضحیک کو حرام سمجھتا۔۔ ہاں اگر کوئی ایسی شخصیت جو عوامی
یا حکومتی ہو، یعنی عوامی وسماجی لیڈر یا حکومتی ذمہ دار، تو اس کا نام یا
عہدہ کا نام لے کر بھی تنقید کیا ہے تو وہ عوامی مفاد کے لیے کیا ہے ، اس
شخص سے کوئی عناد ہر گز اس میں شامل نہیں۔۔مثلا پی پی کی جی بی کی قیادت جب
وہ حکومت میں تھی تو پانچ سال کھل کر تنقید کیا، جب سے وہ حکومت میں نہیں
تب سے ان پر ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔اب ان کی ذات سے مجھے کیا لینا
دینا۔۔بہر صورت اتنی کھل کر تنقید کرنے پر بھی پی پی کی قیادت کبھی ناراض
نہیں ہوئی، بعض لوگ تو ملاقات پر ہنس کر میری تحریروں کا تذکرہ کرتے اور
میں شرماجاتا کہ یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں انتظامی معاملات،اور خیالات و
تصورات پر مدلل تنقید کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اگر کوئی دلیل سے سمجھا دے تو
فورا معافی بھی مانگ لیتا اور رجوع بھی کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکمل احتیاط کے
باوجود بھی اگر کسی کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا ہے شعوری یا غیر شعوری طور
پر, تو براہ کرم مطلع کیجیے۔۔۔۔۔۔۔رجوع بھی ہوگا معافی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔
…………………….
(6) اخبارات کے دھتکارے ہوئے قلم کاروں سے گزارش
03/11/2014
دل کی اتھا گہرائیوں سے ٹھنڈے دماغ سے پڑھ کر غور کیجیے گا جناب!
جامعہ فاروقیہ علم و تحریک اور عمل و اخلاص کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے، فیس
بکی مفتیان اور اخبارات کے دھتکارے ہوئے قلم کے مزدوروں سے گزارش ہے کہ اس
جیتے جاگتے مینارے کی حرمتوں کا پامال کرنے سے گریز کریں، ہماری اوقات تو
صرف یہ ہے کہ ہم چند سو روپیوں کے عوض سولہ سو الفاظ کا کالم تحریر کرتے
ہیں اور ٹھہرتے ہیں افلاطون و سقراط کے استاد اعظم، اگر ہم اپنی ماضی پر
غور کریں تو ہم انہیں بوریہ نشیں علماء کے خوشہ چیں رہے ہیں،اللہ والوں کی
تذلیل کرکے معلوم نہیں ہم کیا لینا چاہتے ہیں، میں تو اس سلیم اللہ خان کو
جانتا ہوں جو چار ہزار طلبہ کو تعلیم و تربیت اور قیام و طعام کا مفت
بندوبست کررہے ہیں، میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جو چالیس روپے
والے ہوائے چپل پہن کر گورنر سند ھ اور وزیراعلی سندہ ارباب غلام رحیم سے
ملتے ہیں، اور جب وہ کہتے ہیں کہ ہم کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو حضرت
ارشاد کرتے ہیں کہ اپ ہماری جامعہ نہ آئے یہی اپ کی خدمت ہوگی، میں تو اس
سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جس کا نہ اپنا گھر ہے نہ اپنی گاڑی ہے اور نہ
ہی کویی جائیداد، میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جو اپنی کتابوں کا
منافع بھی تبلیغ میں سال لگانے والے علماء کو دے دیتا ہے، میں تو اس سلیم
اللہ خان کو جانتا ہوں جو مشرف سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو دو دن پہلے
پہنے ہویے صاف کپڑوں میں جاتے ہیں اور مشرف کے سامنے اپنا مکا ٹیبل پر مار
کر کہتے ہیں کہ اس وقت تک کوئی مذاکرات نہیں ہونگے جب تک اپ اور فوج کی ٹیم
ہمارے مدارس کا مکمل دورہ کرکے حالات نہ سمجھیں گے، میں تو اس سلیم اللہ
خان کو جانتا ہوں جو ساٹھ سال سے بخاری کا درس دیتا ہے، میں تو اس سلیم
اللہ خان کو جانتا ہوں جو ہر حال میں رات دو بجے قیام تہجد کے لیے جاگتے
ہیں، میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جس نے براہ راست حضرت مدنی سے
پڑھا اور فقیر محمد پشاوری سے فیض حاصل کیا ، میں تو اس سلیم اللہ خان کو
جانتا ہوں جس کو قاری طیب، مفتی شفیع عثمانی، حضرت بنوری، حضرت مفتی رشید
احمد، مفتی محمود اور ابولحسن علی ندوی کی رفاقت ملی اور میں تو اس سلیم
اللہ خان کو جانتا ہوں جس کو مفتی نظام الدین شامزیی ، مفتی تقی عثمانی،
مفتی رفیع عثمانی، مولانا جمشید رائے ونڈ والا اور دیگر ہزاروں شیوخ الحدیث
شاگر د ملے اور میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جو پیرانہ سالی کے
باوجود وفا ق المدارس العربیہ کو منظم کرکے رکھا ہوا ہے اور میں تو اس سلیم
اللہ خان کو جانتا ہوں جس نے اردو کی سب سے بڑی اور محقق شرح بخاری یعنی
کشف الباری املا کروایا اور ایک ایک حرف کی تحقیق کی، اور میں تو اس سلیم
اللہ خان کو جانتا ہوں جس نے اظہار حق میں کبھی مداہنت سے کام نہیں لیا اور
میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جس نے اپنے سگے بیٹے ڈاکٹر عادل خان
صاحب دامت برکاتہم کو بات نہ ماننے اور جامعہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے
پر فاروقیہ سے رخصت کیا ہےاور انہیں کہی اور جاکر دینی خدمات انجام دینے کی
فہمائش کی ہے۔ اور میں تو اس سلیم اللہ خان کو جانتا ہوں جو کامل ولی اللہ
ہے۔ جس کے آغوش میں مسلسل سات سال علم کی برکات سمیٹتا رہا، آپ کوئی مجھے
سمجھائے کہ دو ہزار روپے کی مزدوری پر کالم لکھنا والا انسان اس کی اصلاح
کے قابل بھی ہے، اور ہاں میرے یہ ترتیب الفاظ محبی و مکرمی جناب سلیم اللہ
خان کی شان میں اضافہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی مختلف این جی اوز کے مزدوروں
کی گستاخیاں اور قلمی بدتمیزیاں شیخ سلیم اللہ خان کی شان و عظمت کو کم
کرسکتی ہیں، انف فی الماء و است فی السماء والی کیفیت ہے، میرا پیارا سلیم
اللہ خان اس مقام پر فائز ہے کہ مجھ جیسے ناہنجاروں کی تعریفیں اور شقاوتیں
،رطب اللسانیاں اور بکواسات نہ اس کے مقام کو بڑھاتی ہیں نہ کم کرسکتی ہیں،
یا اللہ میرے شیخ کے فیوض و برکات کو ہمیشہ کے لیے جاری و ساری فرما، امین
یارب العالمین تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
………………..
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے |