ایمان کا تقاضا کیا ہے؟

تحریر: بنت عطاء ، کراچی
اﷲ رب العلمین کے الہ اور رب ہونے کے یقین کے بعد اﷲ کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ فرمان باری ہے کہ: ’’ایمان والے وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘ یعنی یقین کامل کے ساتھ ماننے کو ایمان کہتے ہیں۔ نیز فرمایا: ’’ایمان والے وہ ہیں کہ جنہوں نے کہا اﷲ ہمارا رب ہے پھر اس پر قائم رہے‘‘۔
لیکن صرف اﷲ کو مان لینا ایمان لانے کے لئے کافی نہیں۔ اﷲ کو تو یہودی اور عیسائی بھی مانتے ہیں جیسا کہ اﷲ نے فرمایا: ’’آؤ اس کلمے پر متحد ہوجائیں کہ جس کو تم بھی مانتے ہو اور ہم بھی کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے‘‘۔ مشرکین مکہ بھی اﷲ کو مانتے تھے۔ خانہ کعبہ کو بیت اﷲ کہتے تھے، اسی طرح آپس کے معاہدوں کے آخر میں اﷲ گواہ ہے لکھتے تھے۔ نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد کا نام عبداﷲ تھا۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ وہ اﷲ کو مانتے تھے لہٰذا محض اﷲ کو مان لینا ایمان کے لیے کافی نہیں بلکہ ایمان کے لیے اﷲ کو ماننے کے ساتھ ساتھ اﷲ کی ماننا بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی بات کو اﷲ تبارک و تعالی نے قسم کھا کہ فرمایا:’’قسم ہے زمانے کی انسان بہت خسارے میں ہے۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے‘‘۔

ایک اور مقام پر ارشاف فرمایا:’’"اے ایمان والو! ایمان والے بن جاؤ‘‘۔ یعنی اﷲ کی ماننے والے بن جاؤ۔ اﷲ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہم سے تقویٰ کا مطالبہ کیا۔ تقویٰ اﷲ کے خوف سے اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔ اﷲ کو ہم سے یہ مطلوب نہیں کہ ہم زیادہ ذکر و اذکار کریں، کثرت سے نوافل ادا کریں، زیادہ تلاوت کریں، اﷲ کی راہ میں بہت مال خرچ کریں، اشاعت دین میں ہر وقت منہمک ہوں۔ یہ ساری باتیں اﷲ کو محبوب تو ہیں مگر ہم سے مطلوب نہیں ہیں۔ اﷲ کو مطلوب یہ ہے کہ کم از کم ہم اس کے نافرمان نہ بنیں۔ اس کے خوف سے گناہ نہ کریں۔ گناہ اس کا نام ہے کہ جس کام کو کرنے کا اﷲ نے حکم دیا اسے ترک کرنا اور جس کام سے بچنے کا حکم دیا اسے کرنا۔

ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم اﷲ کو ماننے کے ساتھ اﷲ کی مانیں۔ جتنا ہم اﷲ کی اطاعت سے دور ہوتے جائیں گے اتنے ہی ہم ایمان سے بھی دور ہوتے جائیں گے۔ اسی لئے قرآن میں گناہگار و کافر دونوں کے لئے فاسق کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ فاسق اﷲ کی حدود سے نکلنے والے کو کہا جاتا ہے۔ جتنا خدا کی حدود سے نکلتا جائے گا گناہگار ہونے سے کافر ہونے تک کے مراحل طے کرتا جائے گا اور جب بالکل ہی نکل گیا تو کافر ہوجائے گا ۔اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان فرمانبرداری کا نام ہے۔

فرمان باری ہے کہ:’’ایمان کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے‘‘۔ یعنی بظاہر تو ایمان والے بنو مگر معاشرے میں قاتل، لٹیرے، شرابی، سود خور، رشوت خور کے نام سے معروف ہو۔

اﷲ کے ماننے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اﷲ کے عذاب کے ڈر سے اﷲ کی اطاعت کرتے ہیں گناہوں سے بچتے ہیں۔ ان کے لئے اتنی عبادت کافی ہوتی ہے کہ جس سے وہ عذاب سے بچ سکیں یعنی فرائض کا اہتمام اور حرام سے اجتناب۔ ایسے لوگوں کو اﷲ نے اصحاب یمین کہا ہے اور عذاب سے نجات کی خبر دی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے ایک طالبعلم والدین اور اساتذہ کے ڈر سے پڑھتا ہے اس کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ پاس ہوجائے فیل ہونے سے بچ جائے۔

دوسری قسم کے وہ عبادت کرنے والے ہوتے ہیں کہ جو اﷲ کی محبت میں اﷲ کی عبادت کرتے ہیں، اﷲ کی نافرمانی سے خود کو بچاتے ہیں۔ اطاعت میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اﷲ کے احسانات کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف فرائض کی حد تک خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ کثرت سے ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، اشاعت دین کے لیے جدوجہد، اﷲ کی راہ میں بکثرت مال خرچ کرنے میں منہمک رہتے ہیں۔ نیکی کے ہر کام میں آگے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں ایسے لوگوں کو اﷲ نے سابقون کہا ہے اور فرمایا: ’’ان کے لئے عیش و عشرت والی زندگی اور نعمتوں بھری جنت کا وعدہ ہے اور ان سب سے بڑھ کر اﷲ کے قرب کا وعدہ ہے‘‘۔ یعنی جیسے یہ دنیا میں نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے بروز قیامت اﷲ کے قریب ہوں گے۔ اﷲ کی محفل میں اﷲ کے قریب ان کی سیٹ مخصوص ہوگی۔ پہلی قسم تقوی کہلاتی ہے اور دوسری احسان۔ ایمانی زندگی کی دونوں قسموں کے لیے اخروی نجات کی بشارت ہے۔ پس ہمیں سوچنا چاہیے ہم ان دونوں قسموں میں کہاں ہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.