بجائے ہم اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرتے ہم ان پر پردہ ڈالنے
کی روش اختیارکرتے ہیں۔یہ طریقہ ہماری ناکامیوں کو دوچند رکرتاہے۔پرانی
غلطیوں کاخمیازہ اپنی جگہ، یہ طریقہ نئی غلطیوں کی طرف دھکیلتا ہے۔پی پی کے
سابقہ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن ان دنوں کچھ اسی طرح کا طریقہ اپنائے
ہوئے ہیں۔وہ نیب پرچڑھائی کررہے ہیں۔اسے بر ابھلا کہتے ہیں۔اس سے دوغلے پن
کیے جانے کی شکایت کرتے ہیں۔وہ بہت بے چین ہیں مگر با ت بن نہیں رہی۔انہیں
اس لفاظی کا کچھ فائدہ نہیں ہورہا۔الٹا ان کی خاطر سندھ اسمبلی نے جو نیب
پر عدم اطمینان کی جو قرار داد پاس کی ہے۔وہ ان کی پارٹی کے لیے کسی طور
نیک نامی کا سبب نہیں بنے گی۔شرجیل مین کی پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ اس
قسم کی قرارداد ان کو فائدہ کی بجائے مذید نقصان پہنچاسکتی ہے۔شرجیل میمن
کی قانونی پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ ان کا دفاع کرنا آسان نہیں رہا۔جہاں
تک نیب کی بات ہے پی پی مطمئن نہیں مگرنیب کے کردار سے مطمئن ہے ہی کون؟۔یہ
کردا ر اس قدر متنازعہ ہے کہ سبھی اس سے معترض ہیں۔دوسری بڑی جماعت مسلم
لیگ ن بھی اسی رویے کے خلاف نوحا خواں ہے۔امتیازی سلوگ کا دعوی کرتی
ہے۔شرجیل میمن کی باتیں غلط نہیں۔مگر مسئلہ ان کی پوزیشن کا ہے۔وہ مبینہ
طور پر اربوں روپے کے غبن کے ملزم ہیں۔ان سے متعلق یہ بھی کہا گیاکہ انہوں
نے اپنا جرم تسلیم کرتے ہوئے نیب سے بارگین کرلی ہے۔کچھ رقم واپس کرکے مذید
سے متعلق کوئی مناسب طریقہ طے کیا جارہاہے۔ان کی یہ کمزورپوزیشن ہی ہے جو
ان کے منہ سے نکلے سچ کو بھی بے وزن کررہی ہے۔
نیب کی اس غیر تسلی بخش پرفارمنس کے پیچھے ریاست کے اداروں کا کھوکھلا پن
کارفرما ہے۔نیب کے چئیرمین کا انتخاب حکومت او راپوزیشن دونوں کی مشاورت سے
ہوتاہے۔دونوں بڑی جماعتیں پچھلے دس سالوں سے یہ تقرری کررہی ہیں۔اس کے با
وجودشرجیل میمن او رنوازشریف دونوں کو نیب کے رویے سے شکایت ہے۔نیب کا
پچھلا اور موجود چئیرمین دونوں جماعتوں کی مشاورت اور مرضی سے مقرر
ہوا۔زیادہ حیرت یہ ہے کہ دونوں نیب سربراہان پی پی کی طرف سے نامزد کیے
گئے۔آج نیب پر سب سے زیادہتحفظات بھی پی پی کوہیں۔دوسری طرف مسلم لیگ ن
حکومت میں ہونے کے باوجود بھی نیب کے ہاتھوں پریشان ہے۔لگتاہے معاملات اتنے
سادہ نہیں جتنے نظر آرہے ہیں۔نیب کو قائم کرنے والوں اور اسے چلانے والوں
کی درمیان بڑی خلیچ موجود ہے۔یہ خلیج حالیہ واقعات کو جنم دے رہی ہے۔بظاہر
حکومت کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے۔مگر نیب کب کیا کرتاہے۔اس کی حکومت کو
کانو ں کان خبر نہیں ہورہی۔بظاہر تویہ ادارہ حکومتی ہدایات کے مطابق کام
کرنے کا پابندہے۔مگرجس طرح وہ جب چاہے جس کو چاہے اندرکرنے کی جرئت دکھارہا
ہے۔ پتہ چلتاہے کہ یہ حکومت کو کسی خاطر میں نہیں لارہا۔نہ اسے کسی صوبائی
حکومت کی کچھ پرواہ ہے۔نہ اسے مرکزی حکومت سے کچھ لینا دینا۔ وہ کسی اور ہی
طرف سے ڈائریکشن لیتاہے۔اور اسے ہی جواب دہ بنا ہواہے۔
آوے کا آوہ بگڑ اہوا ہے۔مگر ہم ہیں کہ بجائے اصلاح کی فکر کرنے کے ابھی تک
ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔اگر نوازشریف آج نیب سے شاکی
ہیں۔تو یہ ان کی اپنی ہی کوتاہیوں کا پھل ہے۔کیا انہیں پچھلے ساڑھے چار سال
تک اندازہ نہ ہواکہ ان کی ناک تلے کیا کیا ہورہاہے۔انہیں نیب کے اسلوب کی
فکرکیوں نہ ہوئی۔یہ درست ہے کہ حکومت کی جانب سے نیب کی کارکردگی پر کئی
بار سوال اٹھائے گئے۔مگر عملا اس سلسلے میں کیا ہوا۔بدقسمتی سے جنوبی پنجاب
میں مسلم لیگ کے ورکرز کنونشن میں وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے نیب پر کھل
کرتنقید کی گئی تو دوسری سیاسی جماعتوں نے نیب کے دفاع کرنے کے حق میں کھڑے
ہونے کا علان کردیا۔نواز شریف نے ساڑھے چار سال تک بے بیازی کی جو روش
اپنائے رکھی وہ آج ان کے مشکلات کی دیواریں بنا رہی ہے۔شرجیل میمن کی حکومت
کے پانچ سال بھی معاملات کو سدھارنے کی بجائے کبوتر کی طرح آننکھیں موندے
رکھی۔جس انداز میں اس حکومت نے ڈوگر کورٹ کی حمایت کی چیف جسٹس افتخار محمد
کی بحالی کو روکنے کی کوشش کی۔اس سے ان کی حکومت کی بد نیتی واضح ہوتی
ہے۔آج شرجیل میمن کا واویلہ بھی کسی ڈوگر کورٹ کے نہ ہونے سے متعلق
ہے۔جمہوری قیادت کی اس غیرسنجیدہ روش نے ریاستی نظام کو مفلوج کررکھا ہے۔یہ
دونوں جماعتیں تو کسی نہ کسی ڈوگر کورٹ کو ڈھونڈ لیتی ہیں۔مگر قوم کوکبھی
بھی صحیح معنوں میں احتساب ہوتا نظر نہیں آیا۔شرجیل میمن کی کمزور پوزیشن
اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی ڈوگر کورٹ قائم کی جائے۔وہ بار بار دوسروں کو
ریلیف ملنے کا گلہ کرتے ہیں۔جانے وہ دوسروں کے جرائم کے ساتھ اپنے جرائم کو
کیوں تول رہے ہیں س۔دراصل یہ وہی پرانا طریقہ واردات ہے۔جو چھوٹے بڑے چور
کا فرق ختم کرنے سے متعلق ہے۔اس طریقہ واردات میں اتنا شور مچایا جاتاہے کہ
اصل چور کی چوریاں اس رولے غولے میں کہیں گم ہوجائیں۔ |