امریکہ صدیوں سے اپنے مفادات کی جنگ لڑتا آیا ہے اور یہ
بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے امریکہ نے کئی دفعہ اپنے مفادات کو عملی جامہ
پہنانے کے لئے کبھی دہشت گردوں کی سپورٹ کر کے تو کبھی ان کے خلاف اپنے
گرما گرم بیانات کے ذریعے دنیا کو بےوقوف بنانے کی ناکام کوششیں کیں اور
بعض دفعہ تو کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ۔
اسی طرح کی ایک کوشش حال ہی میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے
پاکستان کے مختصر دورے کے دوران بھی کی ہے لیکن کسی نے بھی اس حقیقت سے
پردہ نہیں ہٹایا کہ امریکی وزیر خارجہ کس مقصد سے پاکستان آیا تھا اکثر
اخبارات نے اس خبر کو نشر کیا ہے کہ امریکہ اب پاکستان سے کیا چاہتا ہے کسی
نے کچھ لکھا تو کسی نے کچھ لکھا لیکن جو حقیقت تھی وہ کھل کر سامنے نہ آسکی
اور امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے اس مختصر دورے کو مختلف اخباروں اور
کالم نگاروں نے مختلف سرخیوں اور اپنے اپنے نمک مصالحوں کے ساتھ عوام کی
آنکھوں میں خوب دھول جھونکی اور خاص طور پر بی بی سی اور وائس آف امریکہ
اور دوسرے اخباروں نے اپنی نمک حلالی کا صحیح حق ادا کیا ہے ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ عراق اور شام میں امریکہ کی ناکامی کے بعد اب نئی
پالیسی یہ بنائی گئی کے عراق اور شام میں تو جنگجو دہشت گردوں کی کافی
تعداد ہلاک ہو چکی ہے اور وہاں سے تو ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے لہذا
افغانستان اور پاکستان میں موجود ان دہشت گردوں کو کسی نہ کسی طریقے سے
بچایا جا سکے تا کہ مستقبل میں ان کو مزید نکھار کر ان سے استفادہ کیا جا
سکے اور اپنے سلگتے مفادات کو ایک بار پھر سے بچایا جا سکے اور اس کام کے
لئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو پاکستان ، افغانستان اور ہندوستان کے
دورے پر روانہ کیا گیا ۔
امریکی مفادات کی جنگ نے افغانستان اورپاکستان کو اپنی آگ میں لپیٹ رکھا
ہے ، اس جنگ کا سب زیادہ نقصان پاکستان نے اْٹھایا ہے۔ ہزاروں فوجی جوان
اور پولیس اہلکار شہید ہوئے، بے تحاشہ خون بہا اور معصوم بچے تک مارے
گئے۔مالی اور تجارتی نقصانات کی توکوئی حد نہیں۔ لیکن پھر بھی امریکہ کے
خیال میں پاکستان نے وہ نہیں کیا جو اْس کا مطالبہ تھا۔
پاکستان اِن مصائب سے گزرتا رہا، دہشتگردی کا نشانہ بنتا رہا،اس کے باوجو
امریکہ ہماری تمام قربانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ اس جنگ میں ہم نے
نہ صرف اپنا امن کھویا، ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں کھوئیں بلکہ اپنے وسائل
اور اپنی معیشت کی بربادی سے اپنی آنیوالی نسلوں کو سالہا سال پیچھے کردیا
ہے۔ ترقی معکوس کے اس عمل میں ہماری تجارت ہماری معیشت سب بہہ گئی اس کے
باوجود امریکہ بہادر پاکستان سے اب بھی ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے۔
پاکستان امریکہ کی جنگ کا حصہ بن کر اب تک ستر ہزار جانوں اور اربوں ڈالر
کا کا نقصان اٹھا چکا ہے، ہمارا کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ اس جنگ میں
برباد ہو چکا ہے۔اس جنگ کے منفی اثرات اور نتائج پاکستان آج بھی بھگت رہا
ہے۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ پاکستان سے راضی نہیں ہے جیسے خواجہ آصف نے بیان
دیا ہے کہ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں ہے اور اس اعتماد کو بحال کرنے کے
لئے ٹائم لگے گا اور اب اس اعتماد کی آڑ میں امریکہ نے پاکستان سے ایک دہشت
گردوں کے خلاف کاروائیاں روکنے اور دوسرا جو گرفتار ہیں ان دہشت گردوں کو
امریکہ کے حوالے کیا جائے کیونکہ پاکستان پر اعتماد نہیں ہے کہ کسی بھی وقت
ان کو آزاد کر سکتا ہے ان دہشت گردوں کو امریکہ اپنی جیلوں میں رکھنے کا
تقاضا کر رہا ہے تاکہ اعتماد کی آڑ میں ان کی حفاظت کی جا سکے اور ضرورت کے
وقت ان سے مزید استفادہ کیا جا سکے ۔
اب پاکستان اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے کیا کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے
گا لیکن لگتا یہی ہے کہ پاکستان ہزاروں فوجی جوانوں، کمسن بچوں ، مظلوم
عوام کے پاکیزہ خون کو گذشتہ کی طرح ایک بار پھر داو پر لگائے گا اور
امریکہ کے سلگتے مفادات کو بچانے کے لئے ایک بار پھر امریکہ کا ساتھ دے گا
اور پھر ہمیشہ کی طرح وہی جواب آئے گا کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ
وفاداری نہیں کی ۔ |