اِنکشاف: افسانوی مجموعہ؍افسانہ نگار قمر النِساء قمر

سماجی، سیاسی، تعلیمی و ادبی حلقوں کے لیے یہ واقعی اِ نکشاف ہے کہ معروف سماجی و سیاسی شخصیت قمر الِنساء قمر جو ’قمرباجی‘ کے نام سے معروف ہیں کہانی کار اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ چند روز قبل کی بات ہے مجھے سہ ماہی ’ سلسلہ ‘کے چیف ایڈیٹر مرتضیٰ شریف سے ملاقات کرنا تھی، انہوں نے فرمایا کہ میں گلشن چورنگی پر واقع النساء کلب آجاؤں۔ میرے لیے یہ آسان تھا اس لیے کہ میں روز ہی اس کے سامنے سے گزرتا ہوں۔ طے شدہ وقت پر النساء پہنچ گیا۔ مرتضیٰ شریف صاحب نے سید اعجاز علی نوید سے تعارف کرایا جو النساء کے امور کے نگراں ہونے کے علاوہ ہفت روزہ ’’جہد‘‘ اخبار کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں اور القمر پبلی کیشنز کے طباعتی امور کے نگراں بھی ہیں ۔ میں النساء پہلی مرتبہ نہیں آیا تھا بلکہ یہاں میں کئی ادبی تقاریب میں شرکت کرچکا تھا۔ اعجاز صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اور اخبار میں کالم لکھنے کے امور بھی شامل تھے۔ مختصر یہ کہ اس موقع پر اعجاز صاحب نے مجھے دو عدد کتابیں عنایت فرمائیں ان میں سے ایک ’’اِنکشاف‘‘ تھی دوسری ’’سلسلے ہیں یادوں کے :بیاد شہید وطن شہید ظہور الحسن بھوپالی‘‘ تھی۔’ انکشاف‘ قمر باجی کی کہانیوں اور افسانوں کا مجموعہ ہے جب کہ دوسری تصنیف کی سعی بھی قمر النساء قمر ہی کی ہے ،البتہ ادارت سید اعجاز علی نوید نے کی ہے۔اِس وقت میرے پیش نظر قمر النساء قمر کی کہانیوں اور افسانوں کا مجموعہ ’اِنکشاف‘ ہے ۔ دوسری کاوش کو پھر کبھی متعارف کراؤں گا۔ ’اِنکشاف‘ جنوری2017میں القمر پبلی کیشنز کراچی نے شائع کی ہے۔

قمر باجی کہانی کار اور افسانہ نگار بھی ہیں،یہ انکشاف مجھ پر پہلی مرتبہ ہوا ۔ حالانکہ ان سے بہت قریبی ملاقاتیں تو نہیں البتہ ان کے ادبی و علمی پروگراموں میں ان سے سلام دعا ضرور ہوئی، اِسے بھی کافی عرصہ ہوگیا۔ وہ طویل عرصہ تک کراچی کے سیاسی، سماجی، علمی و ادبی حلقوں میں بہت معروف ، معتبر اور سرگرمِ عمل رہی ہیں ۔ قمر النساء قمر اہل کراچی کی’’ قمر باجی‘‘ ہیں۔وہ ان چند قابل احترام خواتین میں سے ہیں کہ جو مردوں کے شانہ بہ شانہ سماجی، سیاسی ، معاشرتی ، فلاحی ، علمی اور تعلیمی کاموں میں شریک رہیں لیکن سماجی حلقوں میں آج تک کسی نے ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے چہرہ کو بھی نہیں دیکھا۔ یعنی وہ سخت پردہ کرتی ہیں ، نقاب لیتی ہیں ان کی صرف آنکھیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ قمر باجی کے علاوہ عوامی حلقوں میں جانی پہچانی پردہ پوش ، برقعہ پہننے والی، یہاں تک کہ نقاب کرنے والی خواتین جو میرے حافظے میں آرہی ہیں ، ان میں آبادی بانو (بی اماں)،بیگم مولانا محمد علی جوہر ، کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کے علاوہ پاکستان کی محترم خواتین ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی (مولانا احمد شاہ نورانی کی ہمشیرہ)، ڈاکٹر ثمعیہ راحیل قاضی (قاضی حسین احمد کی صاحبزادی)، ڈاکٹر فرحت ہاشمی اور قمر النساء قمر(قمر باجی) وہ خواتین ہیں جنہوں نے سماجی ، علمی ، ادبی اور سیاسی خدمات کی ادائیگی میں پردے کو وجہ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین با پردہ رہ کر بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرسکتی ہیں۔ قمر باجی کو میں نے النساء کلب کے ادبی پروگراموں میں مہمانوں سے ملتے، ان کی خیریت پوچھتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے،سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے، کمر تھپ تپاتے ، دیکھا ہیں۔ ان کا انداز ایک شفیق ماں ، محبت کرنے والی بہن کاہوتاہے۔ قمرباجی نے با پردہ ہوتے ہوئے کراچی کے پسماندہ علاقے لانڈھی سے بلدیاتی کونسلر کا انتخاب لڑا ، کامیاب ہوئیں اور اس علاقے کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا، وہ قومی اسمبلی کی رکن بھی رہیں اور ایک پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سیاست میں شدت پسندی کے عنصر نے بہت سے لوگوں کو سیاست سے بد دل کردیا ان میں سے ایک قمر باجی بھی ہیں۔ ان پرظہور الحسن بھوپالی جو ان کے بھتیجے ہیں کی شہادت کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے اپنے آپ کو عملی سیاست سے الگ کر کے سماجی ، علمی وادبی خدمات تک محدود کر لیا۔ گلشن اقبال میں النساء کلب میں تنظیمِ فلاحِ خواتین کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جہاں خواتین کی فلاح و بہبود اور تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ سیاسی وسماجی خدمات کے طویل سفر میں جس کا دورانیہ سات دہائیوں پر مشتمل ہوچکا ہے قمر باجی مشرقی روایات ، خاندانی اقدار پر قائم ہیں ، وہ مسلسل بہ پردہ ہیں اور سماجی کام بڑھ چڑھ کر انجام دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اگر کوئی خاتون انسانیت کی خدمت میں کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو برقعہ یا نقاب اس میں حائل نہیں ہوتا۔ برقعہ اور نقاب میں رہتے ہوئے بڑوں کو احترام و عزت دینا انہیں سلام کرنا ، چھوٹوں سے شفقت سے ملنا ان کے سلام کا جواب دینا ، معاشرے میں فلاح و بہبود کے کام کرنا مشرقی تہذیب کا حصہ ہے۔ اسلام ان باتوں سے ہر گز نہیں روکتا۔ قمر النساء قمر صاحبہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں ہر چھوٹا ہو یا بڑا، انہیں ’قمر باجی‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے، بقول رضوان احمد صدیقی ’’صدر ضیاء الحق سے لے کر حاجی حنیف طیب تک سب ہی انہیں قمر باجی کہتے رہے ہیں‘‘۔ با لکل اسی طرح کہ جیسے فاطمہ ثریا بجیا اپنی اس عادت پر ہمیشہ قائم رہیں کہ ہر چھوٹے اور ہر اپنے سے بڑاے ، خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکو بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ اور ان کی اس پیاری عادت کو اہل وطن نے پسند بھی کیا۔
بات قمر باجی کی کہانیوں اور افسانوں کے مجموعے ’’اِنکشاف‘‘ کی کرنا تھی لیکن ابتدائیہ طویل ہوگیا ۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ قمر باجی کی سماجی، فلاحی، تعلیمی، ادبی خدمات اس قدر وسیع ہیں کہ جب بھی قمر باجی کی شخصیت کا حوالہ آئے تو ان کی سماجی و فلاحی خدمات کا بیان کیا جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ جہاں تک قمر باجی کی کہانی کاری اور افسانہ نویسی کا تعلق ہے باوجود اس کے کہ ان کی کہانیاں معروف اخبارات و رسائل میں چھپتی رہیں اس کے باوجود وہ کہانی کار کی حیثیت سے پہچانی نہیں جاتیں بلکہ عوام انہیں خواتین کے حقوق کی علمبردار ، سماجی و فلاحی کاموں کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔’’ اِنکشاف‘‘ میرے لیے نہیں بلکہ بے شمار لوگوں کے لیے انکشاف ہی ہے کہ قمر النساء قمر (قمر باجی) کہانی کار اور افسانہ نویس اور وہ بھی خوبصورت اور عمدہ افسانوں کی خالق بھی ہیں۔ کہانی، افسانہ، ناول، رپوتاژ اور شاعری وہی کرسکتا ہے کہ جوعلم و ادب سے دلچسپی رکھتا ہو، اپنے اندر حساسیت لیے ہوئے ہو، کسی کے دکھ اور درد میں اپنے اندر کسک محسوس کرتا ہو، سچائی کوبیان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، اس کی آنکھیں جو دیکھیں اسے اپنی سوچ کے کینوس میں محفوظ کر لے، الفاظ کا ذخیرہ ، جملوں کی ترتیبی کا ھنر جانتا ہوں ۔قمر باجی کی کہانیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان تمام خصوصیات سے لَب ریز ہیں۔ سید اعجاز علی نوید نے اپنی والدہ محترمہ کی اس ادبی کاوش کو ’اِنکشاف‘ کے عنوان سے شائع کر کے ادبی دنیا کے لیے ایک بڑا نکشاف کیا ہے۔قمر باجی کے یہ افسانے 1950تا1980کے درمیان مختلف اخبارات میں شائع ہوئے۔
اِنکشاف ‘ دو حصوں پر مشتمل ہے ابتدائی حصہ عرضِ مصنِفہ ، عرضِ نا شر کے علاوہ ادبی و علمی دنیا کی نو شخصیات نے قمر النساء قمر کی شخصیت اور ان کی کہانی کاری اور افسانہ نویسی پر اظہار خیال کیاہے۔ ان میں معروف صحافی محمود شام نے ’خوش انجام کہانیاں‘ کے عنوان سے مصنفہ کی قلمی کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بقول محمود شام ’’وہ کرداروں کے جذبات کی تصویر الفاظ میں بڑی کامیابی اور خوبصورتی سے کھینچ لیتی ہیں۔ ذہنی کیفیات کی بھی خوب عکاسی کرتی ہیں‘‘۔ پروفیسر جاذب قریشی نے ’’سچائی کی باز یافت ‘‘کے عنوان سے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’قمر النساء قمر مشہور شہر بھوپال کے ایک دینی تہذیبی علمی خاندان کی وہ چمکتی ہوئی مشعل ہیں جس کے اُجالوں نے انسانی اقدار کے عکس پہنے ہوئے ہیں اور جو اپنے طویل سفر میں کالی ہواؤں اور دشمن آندھیوں کے درمیان تسلسل کے ساتھ روشن رہی ہیں‘‘۔ اخبار جہاں کی سعیدہ افضل نے ’’میِر کارواں تم ہو ‘‘ کے عنوان سے قمر باجی کی افسانہ نگاری کے بارے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’وہ نوجوان نسل کے دُکھ سُکھ ایک ماہر مصوِر کی مانند الفاظ کے رنگوں میں افسانے کے کینویس پر کچھ ایسی مہارت تصویر کرتی ہیں کہ قاری ان زندہ کرداروں کے درمیان اپنی موجودگی کا یقین کرنے لگتا ہے‘‘۔ رضوان صدیقی نے ’’بہت دیر کی‘‘ کے عنوان سے قمر باجی کی شخصیت اور خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی ان کا خیال ہے کہ ’’قمر باجی کی شخصیت پر ان کے بھتیجے ظہور الحسن بھوپالی شہید کی شخصیت کا گہرا اثر رہا ہے‘‘۔ ظفر محمد خان ظفرؔ نے ’’قمر النساء قمر کے فکر انگیز و دلچسپ افسانے‘‘ کے عنوان سے اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے ’’اِنکشافِ ذات: قمر النسا قمر‘‘کے تحت لکھا کہ ’’وہ ایک صاحبِ علم اور صاحبِ فہم خاتون ہیں۔ سماجی اور سیاسی طور پر فعال ہیں ‘ خاص طور پر وہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں طبقۂ نسواں کی بہتری کے لیے فکر موجود ہے‘‘۔ کالم نگار و افسانہ نگار نسیم انجم نے قمر النِّساء قمر کے افسانوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے لکھا کہ اِنکشاف میں کئی افسانے ایسے ہیں جو متاثر کن اور فنی لحاظ سے قابل توجہ ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے افسانوں کے دردو کرب کو قارئین محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے‘‘۔ اکادمی ادبیات سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سُومرو کا کہنا ہے کہ’ قمر النساء قمر کے افسانے ہماری حقیقی زندگی کی سچی کہانیاں ہیں‘۔ صفیہ ملک نے ’’قمر باجی اپنے کام اور افسانوں کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے قمر باجی کی سماجی خدمات اور ان کی افسانہ نویسی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور اِسی تحریر پر کتاب کا پہلا حصہ اختتام کو پہنچتا ہے۔

اِنکشاف کا دوسرا حصہ قمر النساء قمر کے 13افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں قمر باجی ایک منجھی ہوئی کہانی کار اور افسانہ نگار کے روپ میں نظر آتی ہیں۔ ان کے افسانے گھروں کے عام مسائل، رسم و رواج، سماجی الجھنوں اور معاشرتی صورت حال کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے افسانوں میں بے ساختگی ہے،پُر لطف، پُر تاثیر ، سبق آموز، سہل زبان، آسان جملے ، لگتا ہے کہ گھریلوں ماحول میں سب کچھ بیان کیا جارہا ہے۔وہ بڑی خوبی کے ساتھ تشبیہات و استعارات کا بر محل استعمال اپنے افسانوں میں کرتی نظر آتی ہیں۔ بقول سعیدہ افضل ’’کہیں کہیں نثر اتنی اعلیٰ اور خوبصورت ہے جیسے دلہن کوئی مرصع زیورات سے سجی ہو‘‘۔ قاری ان کے افسانے پڑھ کر بور نہیں ہوتا بلکہ اسے خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کی کہانیاں پڑھنے والے پر مثبت اثرات چھوڑتی ہیں۔ بقول نسیم انجم ’’آپ جب ان کے افسانے پڑھیں گے تو بہت سی باتیں آپ پر مُنکشف ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں زندگی کے تلخ مشاہدات اور تجربات معاشرے میں ہونے والی طبقاتی کشمکش کی نمایاں جھلک ملے گی‘‘۔ پہلے افسانے کا عنوان ہے ’’بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘‘۔ اس میں نوجوان نسل کے فطری جذبات کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ شادی کی اولین تقریب منگنی جیسی فضول رسم کے منفی اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا افسانہ ’’ بِلا عنوان‘‘ زمانے میں جو کچھ اچھا اور برا ہورہا ہے اس کا اظہار ہے۔ ’’ہیں کواکِب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ میں سول نافرمانی کی تحریک میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرکت کی داستان کو منفرد اندازمیں قلم بند کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’شوق کی بُلندی‘‘ میں اعلیٰ اقدار کی پاسداری کا درس دیا گیا ہے۔ افسانہ ’’سَراب‘‘ ایک زخمی دل پر گُزری واردات کا خاموش نوحہ ہے۔اسی طرح افسانہ ’’روح کا رشتہ‘‘، ’’ہُوا ہُوا میرے سجدوں کا احترام ہُوا‘‘،’’ملن‘‘،’’منزلیں ڈُھونڈ لیتی ہیں مُسافر کو ‘‘،’’مفہومِ کائنات تمہارے سِوا نہیں ‘‘،’’اِنکشاف‘‘،’’شکستہ دیوار‘‘اور ’’میری کہانی پہلی کہانی‘‘ شامل ہیں ۔ یہ کہانی قمر باجی کی کہانی کاری کی ابتدا تھی۔ یہ پہلے پہل بھوپال میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی کے بعد قمر باجی نے متعدد کہانیاں اور افسانے لکھے جو اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ یہ کہانی ایک بچی کی کہانی ہے جو گھر سے ناراض ہوکر چلی جاتی ہے ۔ افسانہ نگار از خود اس افسانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اس بچی کو اپنے ساتھ لے آتی ہیں، اس کے گھر کو تلاش کرتی ہیں ، وہ کسی غریب کی بیٹی تھی انہوں نے اسے اسکول میں داخل کرایا تاکہ وہ اچھی عادات کو اپنائے اور گھر سے بھاگنے کو اپنے دل و دماغ سے نکادے ۔گھر سے بھاگنے کو اچھا عمل تصور نہ کرے ۔ اسے اچھے اور برے کی پہچان ہوجائے۔ یہ کہا نی قمر النسا ء قمر کے کہانی کار بننے کی ابتدا بھی تھی ساتھ ہی سماجی اور فلاحی کاموں کی جانب ان کی زندگی کے دھارے کوموڑنے کا آغاز بھی۔ پھر انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی انسانیت کی خدمت بنا لیا اور سماجی و فلاحی کاموں میں خود کو وقف کردیا۔

قمر النساء قمر ہندوستان کی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم سرونج اور بھوپال کے وکٹوریہ اسکول سے حاصل کی ۔ جیکب لائن اسکول کراچی سے میٹرک اور اُردو ادب میں ماسٹر کیا ۔ آپ نے اپنے خاندان کے ہمراہ 22مئی1950کو کراچی ہجرت کی۔ آپ کا گھرانہ علم و ادب اور دینی تعلیمات سے گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ظہور الحسن بھوپالی شہید آپ کے بھتیجے ہیں۔ 1973میں آپ نے خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ادارے ’’تنظیمِ فلاح خواتین کی بنیاد رکھی جس کا مرکزی دفتر گلشن اقبال میں النسا کلب کے نام سے قائم ہے۔ یہاں پر خواتین کے لیے فنی تربیت کا ادارہ کام کر رہا ہے جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم دی جاتی ہے۔ آپ کی سماجی ، علمی، ادبی، مذہبی اور فلاحی خدمات کی وجہ سے آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ (5نومبر2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440295 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More