مغربی نشاۃ ثانیہ پر مشرق کے ادبی و تہذیبی اثرات

مصنف نے ہسپانوی اور دیگر مغربی ادبیات پر عربی ادب کے ذکر کے ساتھ ہی ہندوستانی حکایات اور مشرقی افسانوں کی مغرب میں رسائی کا بھی ذکر کیا ہے ۔یہ کتاب مواد و موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔متذکرہ کتاب کو بہ نظر غائر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ کافی وسیع ہے اور ادب کے ساتھ ساتھ انہوں نے ازمنہ ٔ وسطیٰ کی تاریخ کا بھی نہایت گہرامطالعہ کیا ہے ۔اردو میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔

تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : مغربی نشاۃ ثانیہ پر مشرق کے ادبی و تہذیبی اثرات
مصنف : پروفیسر محمد قمرالدین خان 09437314522
ناشر : ایڈشاٹ پبلی کیشنز ممبئی ،موبائل : 09987025932
صفحات : 304قیمت : 300/-روپئے
ملنے کا پتہ : کاشانہ ٔ مبارک ،سیدانی باغیچہ ، کٹک ۔753008موبائل : 09437314522
اک زمانہ تھا جب مسلمان تمام تر جدید علوم پر نہ صرف مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ بیشتر علوم پر انہیں قیادت و سیادت کا درجہ بھی حاصل تھا اور یہ سب ان کی انتھک محنت اور کوششوں کا نتیجہ تھا جس کی بنیاد پر مغرب اور اہل یوروپ ان سے مختلف علوم و فنون کی کشید کیا کرتے تھے ۔لندن میں منعقد ایک عوامی جلسے میں اس بات کا اعتراف خود شہزادہ چارلس نے ان لفظوں میں کیا تھا کہ جب برطانوی ماہرین علم محض مطبخی کتابوں کی تیاری میں مصروف تھے اس وقت مسلمان ماہرین علم الابدان ، علم الطبیعات ،علم الحساب جیسے دیگر علوم میں ایجادات و اکتشافات کی ایک ایسی دنیا آباد کئے ہوئے تھے جس سے پوری دنیا مستفید ہورہی تھی ۔اس کا خاص سبب یہ تھا کہ مسلم سلاطین و امراء نے علم جدید کے حصول میں نہ صرف خاص دلچسپی دکھائی بلکہ اس کے حصول اور ترویج و اشاعت کیلئے زر کثیر بھی صرف کئےاورعلماء و دیگر ماہرین کی قدر دانی اور ہمت افزائی میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی ۔فضولیات سے اجتناب کے ساتھ ہی حتی الامکان اپنی بہترین صلاحیتوںکا استعمال کرتے رہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوا کہ صدیوں تک وہ سیادت عالم کے اہم ترین منصب پر فائز رہے ۔عباسی خلیفہ ہارون الرشیدکے زمانے کا یہ واقعہ اس کی الوالعزمی اور مقاصد عالیہ کے حصول کیلئے اس کی تڑپ اور بے چینی کی ایک شاندار مثال ہے ۔تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ ہارون رشید کے دربار میں ایک کرتب باز آیا،اس نے کچھ کھیل پیش کرنے کی اجازت مانگی ،خلیفہ کی رضامندی کے بعد اس نے ایک سوئی فضا میں اچھالی وہ گری اور نوک کے بل زمین میں کھڑی ہوگئی ،اس نے دوسری سوئی اچھالی تو وہ پہلی سوئی کے سوراخ میں پیوست ہوگئی اسی طرح وہ ایک کے بعد ایک سوئیاں اچھالتا رہا اور وہ سب ایک دوسرے میں پیوست ہوتی گئیں اس طرح تھوڑی ہی دیر میں زمین پر سوئیوں کا ایک جال کھڑا ہوگیا ،حاضرین دربار اس محیرالعقول کھیل کودیکھ کر انگشت بدنداں ہوگئے تبھی ہارون رشید نے کچھ دیناراس کی طرف اچھالے اور کہاکہ تجھ پر افسوس ہے کیونکہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو تم نے فضول کاموں پر خرچ کردیا ۔

کتاب کے پیش لفظ میں مرزا خلیل احمد بیگ سابق صدرشعبہ ٔ لسانیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے درست رائے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ زیر نظر کتاب مغربی نشاۃ ثانیہ پر مشرق کے ادبی و تہذیبی اثرات پروفیسر محمد قمرالدین خاں کی انگریزی تصنیفRenaissance Easfern Contribution to European کا اردو ترجمہ ہے جسے مصنف نے خود کیا ہے کتاب کا بغور مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب مصنف کے گہرے مطالعے اور بصیرت مندانہ تجزیئے کا نچوڑ ہے۔ انہوں نے بڑی تلاش و تحقیق اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بڑ ے موثر پیرائے میں یہ کتاب تحریر کی ہے جس میں مشرق و مغرب کے درمیان تہذیبی و ثقافتی ،سماجی و سیاسی ، تجارتی و اقتصادی نیز ادبی و لسانی روابط کا تاریخی حوالوں کے ساتھ عمیق جائزہ پیش کیا ہے ۔ انہوں نے مشرق ومغرب کے مابین روابط کے سلسلے میں صلیبی جنگوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کے تہذیبی اثرات کو واضح کیا ہے ۔

مصنف نے ہسپانوی اور دیگر مغربی ادبیات پر عربی ادب کے ذکر کے ساتھ ہی ہندوستانی حکایات اور مشرقی افسانوں کی مغرب میں رسائی کا بھی ذکر کیا ہے ۔یہ کتاب مواد و موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔متذکرہ کتاب کو بہ نظر غائر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ کافی وسیع ہے اور ادب کے ساتھ ساتھ انہوں نے ازمنہ ٔ وسطیٰ کی تاریخ کا بھی نہایت گہرامطالعہ کیا ہے ۔اردو میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔پروفیسر محمد قمرالدین خاں کا تعلق کٹک ( اڑیسہ ) سے ہے وہ اتکل یونیورسٹی کے پہلے اسکالر ہیں جنہیں انگریزی لٹریچیر میں ڈی لٹ کی سند تفویض کی گئی ۔اڑیسہ کے مشہور اونشا کالج میں بحیثیت صدر شعبہ انگریزی ۳۰؍سال تک فائزرہے اور برہم پوری یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اورابھی بھی علمی و تحقیقی میدان میں سرگرم ہیں ۔خالص انگریزی کے آدمی ہونے کے باوجود اسلامیات کے ساتھ ہی اردو زبان پر ان کی قدرت یہ بتاتی ہے کہ موصوف لسانیات سے پر بھی گہرا درک رکھتے ہیں ۔ان کی نگاہیں کتنی دور رس ہیں اس کی جھلک اس اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

’’دیگر ممالک کی تہذیب و تمدن کے لوگوں پر اثرات بیان کرتے ہوئے پروفیسر برگ نے اپنی کتاب The Legacy of Ancient Worldمیں اسلامی تہذیب کے اثرات پر اپنی رائے قلم بند کی ہے ۔متوسط دور اور موجودہ زمانہ پر غیر ملکی اثرات کے باوجوداسلام نے مغربی سماج اور سوسائٹی کومتاثر کیا ہے ۔یہ بات غلط نہیں کہ موجودہ دور کے اثرات تاریخ کی دین ہیں لیکن جہاں تک متوسط زمانہ کی بات ہے برگ نے غلط مطالعہ کیا اور صرف ایک ہی زاویہ پر اپنی رائے کو محدود رکھا ہے یعنی عیسائیوں کی صلیبی جنگ کیونکہ دوسری کوئی تہذیب یا ملک کا اثریوروپ کی تہذیب و کلچر پر اتنا زیادہ نہیں پڑا جتنا کہ مشرق کی اسلامی تہذیب و تمدن نے ڈالا ۔البتہ اس سلسلے میں اسلام نے بھی مغرب سے بہت ساری نئی باتیں ادب ، سائنس اور فلسفہ سے حاصل کیں ۔کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ موصوف کی یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اچھی کاوش ہے ۔قدم قد م پر تاریخی حوالوں سے اپنی بات کو مبرہن کرنے کا ان کا انداز ان کی علمی لیاقت اور موضوع پر گہری نظرکا ثبوت فراہم کرتا ہے ،جس کے مطالعے کی پروزور سفارش کرنا ہم اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں ۔

waseel khan
About the Author: waseel khan Read More Articles by waseel khan: 126 Articles with 94390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.