فیس بک کی دنیا میں بھی اچھے دوستوں کے ساتھ رکھ رکھاؤ
دوستیاں رکھیں گے تو اچھے نتائیج ملیں گے۔حافظ وصی محمد طلباء سیاست کا بڑا
نام ہے ستر کی دہائی میں اگریکلچر کالج لائل پور کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر
تھے اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق تھا اور ہم لاہور میں گورنمنٹ کالج آف
ٹیکنالوجی سے جمیعت کا تعلق بھی ایک تگڑا تعلق ہوتا ہے جو زندگی بھر ساتھ
دیتا ہے۔مدتوں پہلے جدہ ایئر پورٹ پر ملے تھے اب فیس بک پے ملتے ہیں آج ایک
فکر انگیز پوسٹ نے مجھے ہلا کے رکھ دیا ۔پرسوں ہی لاہور سے آیا ہوں راستے
میں بھیرہ کے پاس بادلوں نے گھیر لیا اسے دھند نہیں سوموگ کہتے ہیں جو بھی
کہہ لیں انھی پا کی رکھ دی تھی اور میں کئی منٹ تک پریشان گاڑی چلاتا رہا
نبیل نے بتایا یہ دھند نہیں گندگی دھویں کا ایک بادل تھا جو زمین پر سفر
کرہا ہے۔اور یہ ماحول کی آلودگی کی وجہ سے ہوا ہے۔اب نہ تو دو سٹروک رکشے
ہیں اور نہ ہی ڈیزل گاڑیاں۔شنید ہے پڑوسی ملک سے یہ تحفہ مل رہا ہے اور
ساہیوال کول پلانٹ سے گویا بھارتی دھواں اور گند ہمارے بھیرہ کو بھی گندہ
کر گیا ہے۔ہمارے ماہر امور موسمیات کیا کر رہے ہیں اور جالب کی شاعری کے
دلدادہ شہباز شریف کی گڈ گورننس کیا گل کھلا رہی ہے۔اس کا عملی نمونہ سڑکوں
پر اولادیں جننے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں-
پنجابی کی مثال ہے لائی لگ نہ ہووے گھر والا تئے چندرا گوانڈ نہ ہووے۔سچ
پوچھئے اگر گوانڈ(ہمسایہ) برا ہے تو مکان آدھی قیمت پر دے کر نکل جائیں اور
اگر یہ ہمت نہیں ہے تو پھر اس سے زیادہ برے بن جائیے۔میری مراد بھارت سے ہے
یہ کسی طور ہمیں چین سے نہیں رہنے دیتا سیاچین سے بھیرہ تک گند ہی
گند۔۔کوئلے سے پاور پلانٹ اب تو روانڈا میں نہیں لگائے جاتے جو چیز کسی جگہ
ٹکے ٹنڈ نہیں بکتی اسے پاکستان میں لایا جاتا ہے۔جرمنی گئے تو ونڈ ملز سے
بجلی پیدا کی جا رہی تھی میں حیران تھا کہ وہ بجلی کنزیوم کرنے پر اپنے
لوگوں کو کچھ لوٹا رہے تھے۔اس دنیا کی اس غیر منصفانہ تقسیم پر دو ہتڑ مار
کر رونے کو جی چاہتا ہے بکھا رج کے پکھا اور بد ہضمی والے بے شمار واصف علی
واصف نے خوب کہا کہ اگر کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو یاد رکھنا کوئی بد ہضمی
سے بھی فوت ہو رہا ہو گا۔کیونکہ اﷲ رزق تو دیتا ہے انسان تقسیم میں ڈنڈی
مارتا ہے۔۔ہمارے اس وزیر اعظم جس کے پاس پٹرلیم اور گیس کا تجربہ ہے انہیں
ہوا بازی کا تجربہ ہے اور سنا ہے یہ جہاز سے الٹ بازیاں بھی لگا سکتے ہیں
تو مجھے جنگل کے اس بادشاہ کی یاد آ گئی جسے ایک دن کے لئے بادشاہ بنایا
گیا تھا اور جب اس سے سوال کیا گیا کہ بادشاہ سلامت کارکردگی کیا ہے تو
جواب دیا آپ نے میری الٹ بازیاں نہیں دیکھیں۔بس ہم تو اس مختصر سے عرصے میں
پٹرول کی قیمت میں تین بار اضافہ دیکھ چکے ہیں اور مہنگائی کے اس سپیل سے
گزر رہے ہیں جو ہماری زندگیوں کا جلوس نکال چکا ہے۔سب اچھا ہے اور سب کے
حالات اچھے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔وزیروں کے احوال ٹھیک باقی
ماسٹر حسین بخش نے کیا خوب کہا تھا مندے حال فقیراں دے کوئی چولے وے لیراں
دے آپ بے غم پھر داں ایں ساڈے حال فقیراں دے۔
چندرے گوانڈ نے اب سموگ بھیج دیا ہے بیماری کھنگ کھانسی گلے میں خراش اور
کپڑوں پر داغ۔اﷲ خیر کرے جس ملک میں داغ تو اچھے ہیں کی گردان ہو اور دوسری
طرف ملا کہہ رہا ہو کہ اﷲ کا نبی فرما گئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے تو
بندے کو سر پیٹنا چاہئے۔ بند کریں اس قسم کی مشہوریاں۔
کیا خوب کہا ہے کہ کاش درخت وائی فائی پیدا کرتے اور ہم انہیں دھڑا دھڑ
لگاتے لیکن چونکہ وہ آکسیجن پیدا کر رہے ہیں جو ہمیں زندگی دیتی ہے اسی لئے
ہم انہیں نہیں لگا رہے ۔پنجاب حکومت اور مرکز نے درخت تو لگانے ہی نہیں اس
لئے کہ یہ کام تو عمران خان نے کے پی کے میں کر لیا ہے ادھر کے پی کے میں
سڑکیں پل نہیں بنانے کیوں کہ یہ کام شہباز شریف کرتا ہے۔(موئن جو دڑو
دیکھنا ہو تو پے کے ۴۹ کافی ہے)سوچنے کی بات ہے کہ زندگی کے لئے آکسیجن
ضروری ہے اور اگر آکسیجن چاہئے تو درخت لگانے ہوں گے۔میں سلام پیش کرتا ہوں
نواب امین اسلم اور کے پی کے کی پوری ٹیم کو جنہوں نے درخت لگائے جنگلات کا
دفاع کیا ان کے ارد گرد باڑ لگائی لوگوں کو روزگار دئے ۔
ہمیں ڈاکٹر وصی صاحب آکسیجن چاہئے ہمیں اپنے لوگوں کو سموج سے بچانا ہے اگر
انڈیا اس میں شامل ہے تو اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جایا جائے اس لئے
کہ ایک موذی دشمن کے ملک سے زہریلی گیس کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
خدا را شہنشاہ تعمیر و ترقی میاں شہباز شریف صاحب درخت لگائیں ۔لاہور جو
باغارت کا شہر تھا اس میں سے درخت غائب کئے جا رہے ہیں اس پر توجہ دیں۔
پاکستان کو اس وقت جنگلات کی شدید کمی کا سامنا ہے میں ماہر ماحولیات نہیں
میرے پاس آپ کو بتانے کے لئے صرف یہی ہے کہ جس طرح آپ اپنے بچوں کا صدقہ
دیتے ہیں خیرات کرتے ہیں اﷲ کا نام لے کر ان بچوں کے نام پر دو دو درخت
لگائیں ۔یہ ہمارے اور آپ کے اوپر فرض ہے میں تو میاں شہباز شریف نواز شریف
اور سارے ٹبر کے نام پر بوٹا لگا دوں گا لیکن ان سے درخواست خدارا اپنی
تجوریاں تو آپ نے بھر لیں اتنے مگن رہے کہ فارغ البال ہو گئے اس دھرتی کو
اس کا حسن لوٹائیں۔
یاد رکھئے اگر ان چند سالوں میں درخت نہ لگے تو پاکستان بڑی مشکل میں پھنس
جائے گا۔بے آب و گیاہ علاقوں میں شہر آباد کریں نئی نئی سوسائٹیاں گرین
ویلیز کو کھا رہی ہیں مری جیسے علاقے آر سی سی کی عمارتوں میں ڈھک چھپ گئے
ہیں۔درخت لگائیں پاکستان بچائیں۔فقیر بھی جب خوش ہوتا ہے تو کہتا ہے تیرا
اﷲ ہی بوٹا لائے گا وہ یہ نہیں کہتا کہ تیری ایک اور شوگر مل لگ جائے اور
سٹیل کا کارخانہ لگے۔ہمیں سچی بات ہے اپنی نالایئق حکومتوں سے کچھ نہیں
کہنا انہیں بس آئینہ دکھا نا ہے۔اور وہ درخت لگا کر ۔شکریہ حافظ وصی محمد
خان شکریہ یاد دلانے کا۔
|