امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے ایک بدوی سے
گھوڑی خریدی، اُسے قیمت ادا کی۔ اُس پہ سوار ہوئے اور چل دیے، ابھی تھوڑی
دور ہی گئے تھے کہ وہ لنگڑانے لگی۔ آپ واپس موڑ کر اُس شخص کے پاس لے آئے۔
فرمایا: یہ گھوڑی واپس لے لو، یہ لنگڑاتی ہے۔بدوی نے کہا:امیرالمؤمنین، میں
واپس نہیں لوں گا کیونکہ میں نے صحیح حالت میں فروخت کی تھی۔امیرالمؤمنین
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:چلیے فیصلے کیلئے کسی کو منصف مقرر کر لیں
جو میرے اور آپ کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کر دے۔بدوی نے کہا:
کیا شریح بن حارث کندی کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا:مجھے منظور ہے۔عدالت میں پہلے بدوی، پھر حضرت عمر فاروقؓ نے اپنا
موقف اختیار کیا۔ قاضی شریحؒ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا۔
امیرالمؤمنین،کیا یہ گھوڑی جس وقت آپ نے خریدی تھی، صحیح سالم تھی۔
فرمایا:ہاں! قاضی شریح نے کہا:امیرالمؤمنین جو شے آپ نے درست حالت میں
خریدی، اُسے اب اپنے پاس رکھیے یا پھر اُسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت
میں آپ نے اُسے خریدا تھا۔
جنگِ صفین کے موقع پر امیرالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہ کی ایک زرہ گم ہو
گئی۔ آپ نے ایک غیرمسلم کو زرہ بیچتے دیکھا تو فرمایا:یہ میری ہے۔
اُس نے کہا:نہیں، یہ میری ہے۔دونوں کے درمیان معاملہ حل نہ ہوا تو انہوں نے
عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی شریح نے امیرالمومنین کو
دیکھا تو احتراماً کھڑے ہوئے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
بیٹھے رہیں۔ قاضی شریح بیٹھ گئے۔پھر فرمایا: میری زرہ کھو گئی ہے۔ میں نے
اُسے اِس کے پاس دیکھا ہے۔قاضی شریح نے غیرمسلم سے پوچھا:تمہیں کیا کہنا
ہے؟، ذمی نے کہا:زرہ میری ہے کیوں کہ یہ میرے قبضے میں ہے۔قاضی شریح نے زرہ
دیکھی اور یوں گویا ہوئے: اﷲ کی قسم اے امیرالمومنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ
ہے، یہ آپ ہی کی زرہ ہے لیکن قانون کے مطابق آپ کے لیے گواہ پیش کرنا واجب
ہے۔حضرتِ علی رضی اﷲ عنہ نے بطور گواہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا۔ اُس نے
آپ کے حق میں گواہی دی۔ پھر آپ نے حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما کو عدالت میں
پیش کیا، اُنہوں نے بھی آپؓ کے حق میں گواہی دی۔قاضی شریح نے کہا:غلام کی
آقا اور بیٹوں کی باپ کے حق میں گواہی قبول نہیں۔ اور گواہ ہیں تو پیش
کیجئے۔حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے پاس مزید گواہ نہ تھے۔ قاضی شریح نے
امیرالمومنینؓ کیخلاف فیصلہ دیدیا۔
اے اربابِ اقتدار یہ تھے وہ عظیم لوگ جو قانون اورآئینی حکمرانی کے حقیقی
علمبردار تھے طاقت وقوت اورشہرت ہونے کے باوجود عدالت کے فیصلے پر کوئی
تنقیدی لفظ نہیں کہا ۔کوئی پریس کانفرنس یا احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا
،قاضیوں کو موت کی دھمکیاں نہیں دیں ،عدالت کے تقدس کو پامال نہیں کیا ،یہ
تھے آئین وقانون کے حقیقی علمبردار جو لوگ آئین وقانون کے تقدس کو ڈھال
بناکر اپنے مفادات کی جنگ لڑتے ہیں انہیں کبھی تاریخ اچھے الفاظ میں یاد
نہیں کرتی تاریخ کا سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے جن حکمرانوں نے قومی مفادات پر
خواہش نفس کو ترجیح دی ان کے حصے میں خسارہ خسارہ ہی آیا مغلوں کے آخری
بادشاہ بہادرشاہ ظفر اورسپین کے آخری بادشاہ ابومحمدعبداﷲ دلیر ی کوچھوڑ کر
کم ہمتی کو ترجیح دی ان کے حشر سے اہل علم واربابِ دانش بخوبی اگاہ ہیں ۔
جنابان یہ دو مثالیں ہیں کہ ایسے حکمرانوں کے ساتھ تاریخ کیا حشر کرتی ہے
جو اپنے لالچ ، خزانوں ، خاندانوں، اور شوق کو ترجیح دیتے ہیں ، جو حکمران
عوامی امنگوں کا خون کرتے ہیں ، جنہیں فکر اس بات کی نہیں ہوتی کہ ریاست کو
محفوظ کیسے کرنا ہے بلکہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ اپنا خزانہ کیسے بڑھانا
ہے؟ شوق و لالچ کی آگ کیسے سرد کرنی ہے ؟ کاروبار ریاست کو ذاتی کاروباروں
پہ ترجیح دینے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے
، لحاظ نہیں کرتی جب لعن طعن کرتی ہے تو ہزاروں نسلیں سنتی ہیں اور جب
تعریف کرنے پر آتی ہے تو ہزاروں سال واہ واہ ہوتی ہے۔
یہ موقع ہے کہ آپ کیا دکھائیں گے ہمت یا کم ہمتی؟کس کو ترجیح دیں گے ،
ریاست کو یا کاروباروں کو ؟اگر اپنے ذاتی مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح
دیں گے توہمیشہ لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہیں گے ورنہ تاریخ اپنا سبق ضرور
دہراتی ہے۔ |