اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم اُس خط کا کیا جواب
دیتے ہیں، جو انہیں پی ٹی آئی نے لکھا ہے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ وزیراعظم
وضاحت کریں کہ ’’․․․ یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست جس شخص کو مجرم تصور کرے،
وزیراعظم اس سے ہدایات لیں۔ ریاست نواز شریف کے خلاف سنگین جرم کے ارتکاب
کا مقدمہ چلا رہی ہے، وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کی
اس قدر بے توقیری کے کیا مقاصد ہیں؟ ․․․ ریاست اُس شخص کی عدالت میں منتظر
ہے، جبکہ وزیراعظم اسے ملنے لندن پہنچ جاتے ہیں، ریاست کی نظر میں مجرم شخص
جب چاہتا ہے وزیراعظم کو کابینہ سمیت اپنے دربار میں طلب کر لیتا ہے، شرم
کا مقام ہے کہ وزیراعظم اپنے وزیروں سمیت اس نااہل شخص کے صاحبزادے کے دفتر
کے باہر قطار لگائے کھڑے رہتے ہیں ․․․․ وزیراعظم وضاحت دیں کہ وہ ریاست کے
وفادار ہیں یا ایک بدیانت شخص کے مفادات کے نگہبان․․․؟‘‘
تحریک انصاف کی طرف سے جاری کیا گیا یہ خط خبر کی صورت میں اخبارات کی زینت
بنا ہے، یوں اسے کھلا خط بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب بھی
اسی طرح اخبارات کو جاری کردیا جائے تاکہ قارئین کو سوال اور جواب کی سہولت
دستیاب رہے۔ وزیراعظم کے پاس یقینا ایسے مشیروں کی کمی نہیں ہوگی ، جو اس
قسم کے مواقع پر کام آیا کرتے ہیں، یا یوں کہیے کہ بہت سے مشیروں کا کام
بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے معاملات کے جوابات خود جاری کریں، کیوں
کہ وزیراعظم کے پاس وقت اس قدر وافر نہیں ہوتا کہ وہ ہر کسی کے سوالات کے
جوابات دیا کریں۔ اچھے مشیر کی تو نشانی بھی یہی ہے کہ وزیراعظم کو سوال کی
گرانی سے بھی محفوظ ہی رکھتے ہیں، یعنی انہیں یہ بھی علم نہیں ہونے دیتے کہ
ان سے کس نے کیا معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؟ بس سوال کے مطابق جواب دے کر
وزیراعظم کی دستخطوں والی مہر ثبت کردی جاتی ہے، جس سے اگلی پارٹی مطمئن ہو
اجاتی ہے، کہ ان کو جواب مل گیا۔ یہ سوال چونکہ سیاسی نوعیت کا ہے، اور پی
ٹی آئی کی جانب سے ہے، اس لئے ممکن ہے اس معاملے میں کچھ مشاورت بھی ہو
جائے۔ وزیراعظم اپنے خاص دوستوں سے کچھ مشورہ بھی لے لیں۔ اگر حکومت نے
جواب دینے سے پہلو تہی کی تو اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی
دھرنے کا اعلان کردے، اور دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک خط کا جواب
نہیں دیا جاتا۔
وزیراعظم کے پاس خط لکھنے کے لئے ایسے دانشور مشیر موجود ہیں، جن کے ہاں
الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں، وزیراعظم کو تقریریں وغیرہ بھی وہی لکھ
کر دیتے ہیں، بات میں ادب کی چاشنی اور بھر پور مفہوم والے جملے جب بھی
وزیراعظم (پہلے یا موجودہ) کی زبان سے نکلیں تو جان لیجئے کہ اسی مخصوص
مشیر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ انہیں بات کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب حکومت اس خط کے جواب دینے کا فیصلہ کرے گی۔
حکومتی مشیروں پر منحصر ہے، کہ وہ ایسا مشورہ بھی دے سکتے ہیں، جس میں خط
کا جواب نہ دیا جائے، بلکہ میڈیا سے بات چیت کرنے والے چند ماہر وزیروں کی
ڈیوٹی لگا دی جائے کہ چلیں شروع ہو جائیں اور وہ خط کی ایک ایک جزویات کو
لے کر بال کی کھال اتارنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ جواب دینے میں ہی دور کی
کوڑیاں نہیں لائیں گے بلکہ ایسے ایسے سوال بھی اٹھائیں گے جس پر سوال کرنے
والے بھی د نگ رہ جائیں گے۔ معاملہ خط کی حدود سے نکل کر مناظرے کی صورت
اختیار کرلے گا، یوں اخبارات سے ہٹ کر معاملہ چینلز کی ہنگامہ خیزی میں
الجھ کر رہ جائے گا۔ تجزیہ نگار اپنے فن کے جوہر دکھائیں گے۔ اس بات کے
امکانات بھی ہو سکتے ہیں کہ حکومت اس خط کا مناسب جواب دے، ایک ایک سوال پر
غور کیا جائے اور پھر ترتیب سے اس کا جواب دیا جائے۔ تاہم حکمرانوں سے اس
قسم کی ترتیب یا سلیقے کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس بات کا امکان بھی ہو سکتا ہے
کہ وزیراعظم خط اٹھائیں اور اپنی جیب سے خرچ کرتے ہوئے سیدھے لندن پہنچ
جائیں اور اپنے قائد کو وہ خط دکھائیں، ’’جناب فرمائیے! میرے لئے کیا حکم
ہے؟ کس قسم کا جواب دینا ہے؟ اور جواب دینے کے لئے کونسا مشیر زیادہ بہتر
رہے گا؟‘‘ |