بعض لمحات ،جملے،الفاظ اور حروف صدیوں تک قوموں اور ملکوں
کی حالات پر ااثر انداز ہوجاتے ہیں ،اسی طرح کے 67 الفاظ برطانوی سیکرٹری
خارجہ آرتھر جیمزبالفور کے خط کے ہیں ،جس کے ثمرات آتش وآہن ،فتنہ وفساد ،لامتناہی
خونریزی کا سلسلہ ،انسانیت کی بدترین توہین ،لاکھوں فلسطینیوں کی جبری اپنے
علاقوں سے بے دخلی اور انسانی حقوق کی پامالی ،عالمی قوانین کو روندتے ہوئے
غیر قانونی طور پر یہودی بستیوں کے قیام کی صورت سو سال سے جاری ہے ،یاد
رہے کہ یہ خط، دو یہودیوں ’’حاییم وائزمین (جو بعد میں اسرائیل کا پہلا صدر
بنا)اور ناہوم سوکولو کی متواتر کو ششوں کا نتیجہ تھا ، اور اس خط کے ذریعے
31 اکتوبر 1917 ء کو برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں ہونے والے
معاہدے کی توثیق کی گئی تھی ،یہ خط 2نومبر 1917ء آرتھر جیمز بالفور نے
صیہونیوں کے نام لکھا تھا،باالفاظ دیگر یہ خط اور اعلامیہ برطانوی حکومت کی
صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھا، جس کے مطابق پہلی جنگ
عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنا اور ارض مقدس میں ایک ناجائز یہودی
ریاست کا قیام تھا ،تاریخی ریکارڈ کے مطابقآرتھر جیمز بالفورکے خط کا متن
یہ ہے "
مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے ازحد خوشی ہو رہی ہے کہ درج
ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور
اس کی توثیق ہماری کیبینیٹ بھی کر چکی ہے۔
:
"شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی مگر
اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی عیسائی
اور مسلمانوں کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی
حیثیت کو نقصان نہ پہنچے ، میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی
فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔"
اگر دیکھا جائے تو اس خط کا ایک ایک لفظ الکفر ملۃ واحدۃ کی واضح عکاسی
کرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے جو زبان استعمال
کی گئی ہے ،محتاج بیان نہیں ہے ، اب،جب کہ برطانوی حکومت اس سازش کے سوسال
کامیابی سے پورےہونے کا صدسالہ جشن منارہی ہے ،اس موقع پر برطانوی وزیر
اعظم تھرسامے نے بیان دیا کہ برطانیہ کو فخر ہے کہ اُس نے سر زمین فلسطین
پر اسرائیل کے قیام کو عمل میں لایا اور اس بات پر بھی فخر ہے کہ اُس نے
یہودیوں کو اعلان بالفور پیش کیا،آج جب کہ قیام اسرائیل کی اولین دستاویز
سمجھے جانے والے اس خط کو گزشتہ روز 100برس مکمل ہوگئے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ
کے مطابق اس موقع پر جہاں فلسطین سمیت دنیا بھر میں موجود فلسطینیوں نے یومِ
سیاہ منایا، وہیں برطانوی حکومت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف
اپنے ملک کے اس سیاہ تاریخی فیصلے پر فخر کا اظہار کیا، بلکہ اس حوالے سے
تقریبات بھی منعقد کیں جن میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو مہمان
خصوصی شریک ہوئے جب کہ دوسری جانب نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا بھر میں احتجاجی
مظاہرے کیے گئے۔
فلسطین میں مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں احتجاجی
ریلیاں نکالی گئیں، اور آرتھر بالفور کے پتلے نذرآتش کیے گئے۔ غزہ میں
اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا گیا، جب کہ مقبوضہ بیت المقدس میں
برطانوی قونصل خانے کے باہر ہونے والے مظاہرے کو اسرائیلی پولیس نے بزورِ
طاقت ناکام بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بدھ
اور جمعرات کی درمیانی شب اعلانِ بالفور کے خلاف ریلی نکالی گئی، جب کہ
جمعرات کے روز برطانیہ کے قدامت پسند یہود نے اعلان بالفور اور تھریسامے کی
نیتن یاہو سے ملاقات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اسی طرح جرمنی، اٹلی،
تیونس، اردن اور لبنان سمیت کئی ممالک میں برطانوی سفارت خانوں کے باہر
احتجاج کیا گیا۔
بلاشبہ فلسطین سمیت دنیا بھر میں ہر انسانیت اور انصاف پسند برطانوی سامراج
سے یہ مطالبہ کررہاہے کہ برطانیہ اس سیاہ ترین بالفور اعلامیہ پر فلسطینی
قوم سے معافی مانگتے ہوئے اسرائیل جیسی خونخوار اور جعلی ریاست کی سرپرستی
و حمایت سے پیچھے ہٹ جائے اور اس بات کو تسلیم کرے کہ بالفور اعلامیہ حکومت
برطانیہ کی سنگین غلطی تھی،جب کہ وقت کا اہم تقاضا یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین
کو حقیقی بنیادوں پر حل کئے بغیر مشرق وسطی میں امن نہیں قائم کیا جاسکتا
ہے اور بالفور جیسے بدنام زمانہ اعلامیوں کےصد سالہ منانا خطے میں انارکی
اور صہیونی دہشت گردی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
|