سائنس اور سیاست میں کشمیر کا تذکرہ

سائنس اور سیاست پندرہ سال تک برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہنے والے ڈاکٹر برائن ایڈن کی آٹو بائیو گرافی ہے۔ڈاکٹر برائن ایڈن کے ساتھ میرا رابطہ اس وقت ہوا جب برطانیہ میں میری ماورائے عدالت سزا کے خلاف سیاسی و قانونی مہم شروع ہوئی۔ یہ سن نوے کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب برطانوی وزیر داخلہ نے یہ انوکھا اعلان کیا کہ میری اور میرے ساتھی ریاض ملک کی سزا کا تعین جج نہیں بلکہ وہ بحثیت وزیر داخلہ کرے گا۔ لنڈن ہائی کورٹ نے ہماری رٹ کی روشنی میں خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کے لیے وزیر داخلہ کو حکم دیا تو واضح ہوا کہ بھارتی اور برطانوی حکومتوں نے ہمیں نشان عبرت بنا کر برطانیہ میں کشمیریوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہمیں تاحیات جیل میں رکھنے کا خفیہ فیصلہ کر رکھا تھا۔ اس موقع پر ہماری قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی مہم فراق کے نام سے قائم کی گئی جس میں ڈاکٹر برائن ایڈن ایم پی بھی شامل ہو گے۔ ہم دونوں کشمیریوں کا انکے حلقے سے تعلق نہ تھا۔ ڈاکٹر ایڈن انسانی بنیادوں پر ہماری مہم میں شامل ہوئے ۔ برائن ایڈن مانچسٹر کے قریب ٹاؤن بولٹن کی ایک محفوظ نشست کے لیے پہلی بار نوے کی دہائی کے وسط میں سامنے آئے اور مسلسل تین الیکشن جیتنے کے بعدساٹھ سال کی عمر میں اس وقت رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہو گے جب وہ مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ انہوں نے یہ نشست پاکستانی پس منظر کی مالک یاسمین قریشی کے لیے خالی کی تھی۔ برائن ایڈن کے ایشیائی ووٹروں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کیونکہ وہ طویل عرصہ برطانیہ رہنے کے باوجود سیاسی طور پر ابھی بدلے نہیں ان کے دماغوں میں اب بھی برصغیرکا موروثی سیاسی نظام رچا بسا ہے جہاں سیاستدان مرتے دم تک ریٹائر نہیں ہوتے بلکہ وہ قبروں میں جا کر بھی اپنے خاندانی جانشینوں کے ذریعے عوام سے مخاطب رہتے ہیں جبکہ یورپ میں دو تین مرتبہ الیکشن جیتنے کے بعد سیاستدان نوجوان نسل کو موقع دینے کے لیے خود بخود ریٹائر ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے یورپ میں جمہوریت پھلتی پھولتی اور ملک ترقی کرتا ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں اس دور کی نئی نسل ہی پورا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آئی ٹی موجودہ زندگی کا حصہ ہے جسے ہمارے نوے فی صد سیاستدان استعمال نہیں کر سکتے ایک مقامی سیاستدان پر لوگوں نے سڑک کی خستہ حالی کا زکر کیا تو وہ کہنا لگا وہ پیدل سکول جایا کرتا تھا اور آپ لوگ ہر وقت لنک روڈ کا رونا روتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر برائن ایڈن لکھتے ہیں کہ وہ مخصوص گریمر سکولوں میں الیون پلس انٹری ٹیسٹ میں فیل ہو گے تھے لیکن انکی والدہ کی کوششوں سے وہ اس دور کی کاؤنٹی بونڈری کی پابندیاں ختم ہوئیں جسکے نتیجے میں بچوں کو دوسرے اضلاح میں بھی داخلے کی اجازت ملی۔ انکی والدہ نے تا مرگ ہڑتال کی تھی جسکے نتیجے میں یہ متعصبانہ تعلیمی نظام ختم ہوا تھا۔ الیون پلس آئی کیو کے مساوی اور متبادل ایک متنازعہ ٹیسٹ تھا لیکن بچوں کے مختلف پس منظر اور انکے علاقے کے پرائمری سکولوں کے مختلف معیار کی وجہ سے اس سے بچوں کی زہانت کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا تھا جو ڈاکٹر ایڈن نے پی ایچ ڈی کر کے ثابت کر دیا ۔ ڈاکٹر برائن ایڈن اپنی والدہ کی کوششوں سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہو گے اورانکا ملک کے چار بڑے محققین میں شمار ہونے لگا انہیں برین کینسر پر ریسرچ کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اپنے چھوٹے سے گاؤں سے لنکا شائر کی ہول یونیورسٹی میں داخلہ پانے والے پہلے طالب علم تھے جنہیں بعد میں ڈرہم یونیورسٹی میں لیکچرر اور سالفورڈ یونیورسٹی میں ریڈر کے طور پر لیا گیا۔ ان کامیابیوں کے لیے ڈاکٹر برائن ایڈن پبلک لائف سے دور رہے لیکن کہتے ہیں کہ بولٹن کی ملٹی کلچرل سوسائٹی اور دوستانہ مزاج کے مالک لوگوں کی وجہ سے انہوں نے بولٹن نقل مکانی کی جہاں وہ لیبر پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے جہاں پہلے وہ کونسلر اور بعد میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گے۔ سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تو انہیں مسلہ کشمیر اور ہم دو کشمیریوں کے کیس کا علم ہوا جنہیں سیاسی بنیادوں پر خفیہ سزائیں دی گئی تھیں۔ ڈاکٹر ایڈن لکھتے ہیں کہ انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ انکے ملک میں بھی عدلیہ کو بائی پاس کر دیا جاتا ہے اور ہم دو کشمیریوں کا کیس اسکی بڑی مثال تھی جہاں جج کے بجائے وزیر داخلہ نے ہمیں سزاؤں کاتعین کیے بغیر جیل بھیج دیا تھا ۔ وہ لکتھے ہیں کہ اس وقت انکا دل دہل گیا جب قیوم راجہ کی ضعیف والدہ اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے وزیر اعظم کو یاد داشت دینے کے لیے خصوصی طور پر کشمیر سے برطانیہ تشریف لائیں مگر وزیر اعظم نے انکی اپیل رد کر کے مجھے (ڈاکٹر ایڈن) بہت دکھی کیا اور میں مزید متحرک ہو گیا بالااخر یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت نے برطانوی وزیر داخلہ کے صوابدیدی اختیارات ختم کر کے قیوم راجہ کو ۲۲ سال بعد بری کر دیا۔ ڈاکٹر ایڈن کشمیر پر تبصر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ کے ایک گروپ کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت کی دعوت پرمظفرآباد کا دورہ کیا ۔ پاکستان میں وہ میریٹ ہوٹل پر ٹھہرے جہاں انہوں نے اپنا بل خود ادا کرنا چاہا کیونکہ وہ بھارت بھی جانا چاہتے تھے جہاں انہیں سارے اخراجات خود برداشت کرنا تھے۔ ڈاکٹر ایڈن نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت نے انہیں کشمیر نہ جانے دیااور بھارت نے یہ پابندی انسانی حقوق کی تنظیموں پر بھی لگائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ایڈن نے مسلہ کشمیر کی پچیدگی کا ذمہ دار کشمیریوں کو قرار دیا جو کسی ایک ایجنڈہ پر کام کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ اور گروہی سیاست میں ملوث ہیں ۔ ہر گروپ پارلیمنٹ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جسکی وجہ سے انکی جد و جہد کاکوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ حقائق پر مبنی ڈاکٹر ایڈن کا یہ تجزیہ کشمیریوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے لیکن کیا کشمیری قیادت اس سے کوئی سبق حاصل کرے گی۔ اﷲ تعالی کشمیریوں کو سوچنے سمجھنے اور مثبت اور قابل عمل پالیسی اپنانے کی توفیق دے ڈاکٹر ایڈن نے صحت زندگی کی سب سے قیمتی چیز قرار دیتے ہوئے اپنے حالیہ خط میں میری صحت اور فیملی کے ساتھ خوشگوار زندگی کے لیے دعا کی۔ میں نے بری ہوتے ہیں برطانیہ چھوڑ دیا تھا لیکن ڈاکٹر ایڈن نے مسلسل میرے ساتھ رابطہ رکھا۔ ڈاکٹر ایڈن نے اپنی آٹو بائیو گرافی کا پہلا ایڈیشن اس سکول کے بچوں کو پیش کیا ہے جس میں انہوں نے پرائمری تعلیم حاصل کی انکا کہنا ہے کہ انکی فیملی اگر بہت زیادہ غریب نہیں تو اتنی امیر بھی نہیں تھی۔ انکی زندگی کافی مشکل تھی۔ انہوں نے یہ کتاب اپنے سکول کے بچوں کو پیش کرنے کا یہ مقصد بتایا کہ اگر کسی ایک بچے کو بھی ڈاکٹر ایڈن کی زندگی سے انسپریشن ملی تو وہ سمجھیں گے کہ کتاب لکھنے کا انکا مقصد پورا ہو گیا ہے کیونکہ کون جانتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر کتنے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنے !

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.