آزادِی کا شمار دُ نیا کی بیش بہا نعمتوں میں ہوتا
ہے۔اِس آزادی کی نعمت کے حصُول کے لیے قومیں بڑی بڑی قربانیاں دیتی ہیں۔
پاکستان بھی اپنی آزادی کے تحفظ اور اپنی بقا کی خاطر اپنے نوجوانوں کے خون
کا نذرانہ پیش کر رہا ہے جس کی قیمت کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا یہ قربا نیاں
لازوال سچے موتیوں کی مانند لخت جگر کے ٹکڑوں کی ایسی تاریخی رقم کی گئی ہے
جو کہ ناقابل فراموش ہیں اس کی حقیقت پسندانہ سچے جذبوں پر مبنی جدوجہد کو
شک کی نگاہوں سے دیکھنا پاکستانی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
تاریخ بتاتی ہے جن قوموں نے حقیقت کو جھٹلایا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ
گئیں اور لگتا ایسا ہے کہ انھوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور وہ مسلسل
تباہی کی جانب ر وِش اپنائے ہوئے ہیں جسکا انجام دنیا دیکھی گی۔
پاکستان ایک مثبت سوچ کا نام ہے جس کی مثال سنہری حروفوں سے تعبیر ہے جسے
کوئی نہیں مٹا سکتا مصائب کی لاکھوں آندھیاں آجائیں مگر قوم کے پائے ثبات
کو لغزش نہ دے سکیں گے حضرت علامہ اقبالؒ کا شعر؛
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا چمن میں دیدہ ور پیدا پاکستان اپنے مستقبل کی بقاکے لئے
کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریگا اور قوم سخت چٹان کی طرح اپنے ارادے
پراستقلال سے ڈ ٹی ہوئی ہے پاکستان ایک اصولوں پر مبنی اور قومی فریضہ سمجھ
کر دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے جس میں پوری قوم پاک فوج کے ساتھ
شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنے نوجوانوں کے لہو کو پیش کر رہی ہے ۔لیکن جو
سازشی عناصر قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں دراصل
انھوں نے بدنیتی کو اپنی سوچ کے اندر بسا لیا جس میں انھیں مایوسی کے سوا
کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اگر وہ قومیں بالغ نظری سے پاکستان کی اصولی جنگ کو
دیکھیں گی تو یقینا وہ قومیں فلاح پائیں گی۔ کیونکہ پاکستانی قوم میں جذبہ
ایمان کامل ، یقین محکم ، عمل پہیم موجود ہے اور اس کے تحت تما م فرسودہ
قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہے اور آئندہ بھی اِس کی جدو جُہد میں کوئی کمی
نہیں آئیگی ۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ؛
یقین محکم ، عمل پہیم، محبت فاتح عالم ۔ جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی
شمشیریں
پاکستان معروض وجود میں آنے کے بعد عالمی سازششوں کا شکار رہا ہے جس میں
کھبی کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا کھبی اس کو دہشت
گرد ملک کہا جانے کی بازگشت کی باتیں سنائی دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود
پاکستان اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ کھڑا ہے بقول شاعر حفیظ جالندھری (مرحوم)
کا لکھا گیا قومی ترانہ
پاک سر زمین شاد باد کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالی شان ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد
پاک سرزمین کا نظام قوت اخوت عوام
قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد
شاد با د منزل مراد
پرچم ستارہ وہلال رہبر ترقی وکمال
ترجمان ماضی شان حال جان استقبال
سایہ خدائے ذوالجلال
اس قومی ترانے میں پاکستان کی حقیقت کا مکمل نچوڑ ہے اور اس ولولے و جذبے
کی بدولت پاکستان پہلے سے بھی زیادہ متحد اورمضبوط ہے ۔ اور اس کانام
درخشندہ و تابندہ رہے گا ۔جو کوئی بھی دنیا کے ممالک پاکستان سے اچھے تعلقا
ت برابری کی بنیادپر استوار رکھنا چا ہتے ہیں ان کے لئے پاکستان کے دروازے
ہمیشہ کھلے رہیں گے اور کوئی ممالک خواہ کتنا ہی طاقتور ترین با اثر کا
حامل کیوں نہ ہو اوران فرسودہ قوتوں نے ذرا بر بھی پاکستان کی سا لمیت اور
اُس کی ترقی پر بُری نظر رکھی سمجھو اُ س ممالک کو شرمندگی اور ہر مقام پر
ناکامی کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ پاکستانی قوم کو کسی دھمکی آمیز رویے
اورجارحیت کا کوئی خوف ہے نہ ڈر بس دُکھ و افسوس اِس بات کا ہے کہ امریکہ
ایک جانب پاک امریکہ تعلقات میں بہتری چاہتا ہے دوسری جانب وہ پاکستا نی
قوم کی لازوال قربانیوں کو نظر انداز کر رہا ہے جو دشمن قوتوں کے خلاف
سیِنہ سِپر ہے امریکہ کے اس عمل نے پاکستانی قوم کے زخموں کو پھر سے ہرا
کردیا پاکستان پُرامن خود مختار ملک ہے مگر امریکہ اپنے کچے کانوں کے مطابق
اُس پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر الزامات جارحیت کی دھمکیوں اور زہر اُگلنے
کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے کیا یہ پاک امریکہ بہترتعلقات کی جانب قدم ہے ۔
ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کادورہ پاکستان اور پھربھارت
میں کچے کانوں سے سن کر پاکستان پر اپنی پالیسی مسلط کرنے اور تقاضے
کاعندیہ دیا۔ جو کہ پاکستان کو نئی امریکی پالیسی قطعی طور پر قابل قبول
نہیں ۔
پاکستان کی مخلصانہ سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ روز پاک فوج نے کرم
ایجنسی کے علاقے میں ایک کامیاب کاروائی کے دوران غیرملکی مغویوں کو بحفاظت
بازیاب کروایا جن میں ایک کینڈین شہری اُس کی بیوی اور تین بچے شامل تھے ان
افراد کو پانچ سال قبل افغانستان سے اغوا کیا گیاتھا اس کامیابی پر وہائٹ
ہاؤس سے بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ بازیاب ہونے والے یہ افراد جو شو
بوئل اور اُن کی بیوی کینٹلن کولمین تھیں اور اس سلسلے میں امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں غیرملکیوں کی بازیابی پر
پاکستانی حکومت کی معاونت اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان خطے میں سیکورٹی
صورتحال کی بہتری کے لئے امریکی خواہشات کی قدر کرتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
کہ ہمیں اُمید ہے کہ اس طرح معاونت ٹیم ورک مزید مغویوں کی بازیابی اور
مستقبل میں انسداد دہشتگردی کے لئے مشترکہ آپرشنز کے لئے مدد گار ثابت
ہوگی۔ لیکن امریکی وزیر خارجہ مسلسل اپنی روِش میں میں نہ مانو کی ضد
اپنائے ہوئے ہے جس کا کوئی علاج نہیں جبکہ پاکستان تما م الزامات کی تردید
کرچکا ہے اس کے باوجود پاکستان کی نیت کو خوشدلی سے تسلیم نہیں کیا جارہا
ہے دنیا کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہے کہ پاکستان تمام دوست اور برادر
ممالک کے ساتھ بہتر روابط رکھنے کا خواہاں ہے اور ہمیشہ نیک خواہشات کا
احترام کرتا رہا ہے ۔پاکستان دنیا میں ایک ایسی قوت ہے جسے کسی بھی ذاویے
میں پیمانے کی کوشش کی جائے گی وہ اس پر سو فیصد پورا اُترے گا کیونکہ
پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے جسے صرف اہل نظر ہی
دیکھ سکتے ہیں جس کی ایک مثال بے مثال (پاک چین دوستی )ہے جس کی حکومتی سطح
پر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی عوام میں ہم آہنگی پائیدار بنیادوں پر پائی
جاتی اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں چائنا چائنا کی آواز سنائی آتی ہے
یہ پاکستانی قوم کی فراخدلی اور ان کی نیک نیتی کو ظاہر کرتی ہے پاکستانی
قوم ان کوعزت وتوقیر کی نظروں سے دیکھتی ہے جو اسے عزت کی نگاہوں سے دیکھتے
ہیں۔ پاکستانی قوم کا دل سمندر کی گہرائی سے بھی زیادہ گہرا ہے جبکہ اس بات
سے قطعی انکار نہیں کہ پاک امریکہ کے مابین تعلقات ایک دھائیوں پر محیط ہیں
لیکن ایک چیز دونوں کے تعلقات میں جونظرآئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کے
پاکستان سے حکومتی سطح پر تعلقات تورہے ہیں مگر امریکہ پاکستانی قوم کے دل
میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کی
واحدانیت کو اب تک سمجھنے سے قاصر ہے امریکہ اپنی ناقص پالیسی اور غلط حکمت
عملی کی بنا پر دوریاں پیدا کر رہا ہے پر ہم نہیں چاہتے ہماری خواہش ہے کہ
پاک امریکہ کے مابین تعلقات بہتری کی طرف بڑھیں لہذا امریکہ پاکستان کے
ساتھ سنجیدہ رویہ اختیار کرکے قابل عمل معلومات کا تبادلہ کرے تاکہ غلط
فہمیاں دور ہوں ۔
آخر میں شاعر تخیل حضرت علامہ ا قبالؒ کا نموُنہّ کلام
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
دلوں میں ولولے اآفاق گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
نِشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صُبح وشام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
مزید نمونہ کلام میں کہا گیا کہ
جس میں نہ ہو اِنقلاب موت ہے و ُ ہ زندگی
ر ُوح اُ مم کی حیات، کشمکش اِنقلاب
میں تُجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سِناں ں اوّل طاؤس ورباب آخر
آئین جواں مَرداں حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
نمونہ کلام کا آخری شعر یہ بھی ملاحظہ فرمائیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مُقدر کا ستارا
٭٭ شکریہ ٭٭
|