حکومتی ایوانوں میں انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے بعد
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ جناب شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی میں سب سے
پہلے آواز بلند کی کہ ان اصلاحات کی آڑ میں ختم نبوت کا حلف نامہ تبدیل کر
دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ان دینی جماعتوں کو بھی آواز دی جو دین کے
نام پر سیاست کرتی ہیں تو ایک بھونچال سا آ گیا اور حکمران جماعت کے سربراہ
نوازشریف نے اسی رات ہدایت کی کہ پرانا حلف نامہ فوری بحال کیا جائے۔ اگلے
روز اس پر کام شروع ہوا تو حکومتی ارکان، خصوصاً سپیکر قومی اسمبلی ایاز
صادق کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ایک کلیریکل غلطی تھی ،جسے فوری طورپر ٹھیک
کر دیا گیا ہے اور حلف نامے کی اقرار نامے میں تبدیلی واپس لے کر اسے پہلے
کی طرح ہی بحال کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام سے پہلے ملک کی دینی، سیاسی
جماعتیں اور عوامی و سماجی طبقے شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے اور
مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس ساری کارروائی کے ذمہ داروں کو سزا د ی جائے
لیکن پھر اچانک بڑی حد تک خاموشی چھا گئی۔ اس کے ساتھ ہی وزیر قانون پنجاب
رانا ثناء اﷲ کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے قادیانیوں کے بارے میں
کہا کہ انہیں علمائے کرام بھی غیر مسلم نہیں سمجھتے اور یہ کہ وہ مسلمانوں
جیسی ہی اذان دیتے،کلمہ پڑھتے، نماز ادا کرتے اور مسجدیں بناتے ہیں اورصرف
ایک مسئلے پر اختلاف کرتے ہیں۔ اس پر علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے ایک
بار پھر آواز بلند کی تو رانا ثناء اﷲ نے محض اتنا کہہ کر جان چھڑا لی کہ
ان کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا ہے اور وہ ختم نبوت پر پورا ایمان رکھتے
ہیں وغیرہ وغیرہ۔ان بیانات کے بیچ جناب نوازشریف نے حلف نامہ تبدیلی کے اصل
ذمہ داروں کا پتہ لگانے کے لئے جناب راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں کمیشن
قائم کیا، جسے کہا گیا کہ وہ 24گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ پیش کرے۔ کئی
24گھنٹے گزرنے کے بعد جب یہ رپورٹ پیش ہوئی تو راجہ ظفر الحق نے بیان دیا
کہ انہوں نے مکمل تحقیق کے بعد اصل ذمہ داروں کا نام نوازشریف کو بتا دیا
ہے، اب یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں یا نہیں۔
حیران کن امر یہ ہوا کہ حکومتی پارٹی کے سربراہ نوازشریف اور حکومتی
عہدیدار اس معاملے کو سنجیدہ لیتے مگر انہوں نے اول تا آخر یہ کوشش جاری
رکھی ہوئی ہے کہ پورے معاملے پر مٹی ڈال دی جائے اور معاملے کو طول دے کر
اتنا لٹکایا جائے کہ عوام خود ہی ٹھنڈے پڑ جائیں اور معاملہ رفع دفع ہو
جائے گا۔مزید تسلی اور تشفی کیلئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو پہلے عمرے
پر روانہ کیا گیا ، پھر امام کعبہ کو بلا کر وزیر اعظم اور دیگر عمائدین
حکومت کے ساتھ دعا کروائی گئی۔اسی عرصے میں جناب نوازشریف خود عمرے پر
پہنچے اور مسجدنبوی میں جیسے مستقل ڈیرے ہی ڈال کر بیٹھ گئے ۔ وہاں سے نماز،
تلاوت، روضہ رسولؐ پر حاضری اور عاجزی و انکساری کی تصاویر تسلسل کے ساتھ
جاری کرنے لگے۔ اس سب کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ قوم کو باور کرا دیا جائے
نوازشریف تو اسلام اورنبی کریم محمدﷺ کی محبت سے سرشار ہیں اور ختم نبوت کا
حلف نامہ ہو یا اس طرح کے دیگر بیانات و اقدامات وہ تو بس ایک کلیریکل غلطی
تھی اور کچھ نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ رانا ثناء اﷲ نے بجائے اس کے کہ وہ قادیانیوں کے
حوالے سے دیئے گئے اپنے بیان کی مکمل وضاحت کرتے، اس پر معافی مانگتے یا
پھر قادیانیوں کو کافر قرار دیتے، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق ختم
نبوت پر ایمان کے دعوے کرنے لگے اور ختم نبوت کے حق میں یوں بیان دینے لگے
جیسے مسلمانوں کو اس بارے میں اس سے پہلے کچھ معلوم ہی نہیں۔ دینی طبقے اور
عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، ان کی دست
راست انوشہ اے رحمان اور رانا ثناء اﷲ کو برطرف کیا جائے لیکن حکومت اس
جانب آنے کو تیار ہی نہیں بلکہ راجہ ظفر الحق نے جن ذمہ داروں کا نام
تحقیقات کے بعد متعین کر کے نوازشریف کو بتایا، اب ان کے خلاف کارروائی بھی
لٹکا دی گئی ہے تاکہ معاملہ ویسے ہی رفع دفع ہو جائے۔ اسی لئے توعوام کے
غصہ اور جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور سوشل میڈیا پر بات کرنے والوں کو خاموش
کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ نے عوام کو دھمکی دی کہ ان کے خلاف سخت
کارروائی ہو گی اور پھر اس کے بعد اخبارات میں تسلسل کے ساتھ اشتہارات دیئے
گئے کہ حلف نامہ تبدیلی ساری پارلیمانی پارٹیوں نے مل کر کی تھی اور سب نے
مل کر دوبارہ پرانی حالت بحال کر دی ہے، لہٰذا اب اس مسئلہ پر مزید سیاست
نہ کی جائے یعنی حکومتی ایوانوں سے ایک ہی کوشش ہے کہ سارے محرکات کو مکمل
پس پشت ڈال کر سارا معاملہ ٹھنڈا کر دیا جائے حالانکہ اس سے معاملات مزید
خراب ہی ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ یہ معاملہ اتنا چھوٹا نہیں جتنا اسے
سمجھا جا رہا ہے۔ مسلمان چاہے عمل و کردار کے لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں
نہ ہوں، ختم نبوت اور نبی کریم محمدﷺ کی حرمت کے حوالے سے کسی نازیبا حرکت
کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران
جماعت کی جانب سے ہی یہ سارا کچھ کیوں ہوا؟ اور اسی حکمران جماعت کے گھر کے
فرد اور رکن پارلیمنٹ کیپٹن (ر) صفدر کے ذریعے ایک الگ تقریر کیوں کروائی
گئی؟ حکومت خود قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام قادیانی ڈاکٹر
عبدالسلام کے نام پر رکھتی ہے تو اس وقت کیپٹن (ر) صفدر خاموش رہتے ہیں اور
اب اس معاملہ کو قومی اسمبلی میں اچھالتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی ایوانوں
کی ساری سرگرمیاں انتہائی پراسرار ہیں۔ چند روز پہلے منہاج القرآن اور
عوامی تحریک کے سربراہ جناب طاہر القادری نے یہ انکشاف کیا کہ بات صرف حلف
نامے میں تبدیلی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی آڑ میں اس حوالے سے سیکشن
سیون بی اور سیون سی کو سرے ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد حلف نامے کی حیثیت
ہی ختم ہو جاتی ہے اور مسلمان اور قادیانی کے فرق کی اس بنیاد کو ہی ہٹا
دیا گیا ہے جس پر سب خاموش ہیں۔ حکومت ہوں یا اس کے اتحادی، جناب طاہر
القادری کے اس بیان پر ٹس سے مس نہیں ہوئے ہیں جبکہ قانون دان بھی اسے درست
کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کلیریکل غلطیاں ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب
سوچے سمجھے منصوبے اور بیرونی ایجنڈے پر ہو رہا ہے۔ قادیانیوں کو مسلمانوں
میں شامل کرنے کے لئے اصل دباؤ امریکہ اور یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ سے آ
رہا ہے جہاں ہمارے حکمرانوں کا سب سے زیادہ آنا جانا، دنیا اور مال جائیداد
محفوظ رکھنے کا معاملہ ہے۔ قادیانیت کو جنم دے کر اسے پروان چڑھانے اور
یہاں تک پہنچانے والا تو صرف اور صرف برطانیہ ہے، جہاں آج بھی قادیانیت
پوری آب وتاب کے ساتھ کھلی حکومتی امداد و تعاون کے سائے میں پھل پھول رہی
اور دنیا بھر میں اپنا زہر پھیلا رہی ہے۔ وہی طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ
قادیانیوں کو مسلم معاشروں میں دوبارہ سے قابل قبول بنا دیا جائے۔ یہ کوئی
محض کلیریکل غلطی، صرف ایک بیان یا غیر ارادی فعل نہیں طویل اور عالمی سازش
کاحصہ ہے، جس کا آج ادراک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کو بیدار ہونے، حکومت
کو اس حوالے سے صحیح جذبات پہچاننے اور ختم نبوت کے دفاع کے لئے جدوجہد
کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ 1974ء میں ختم نبوت کا
قانون پاس ہونے کے بعد ہمارے ملک میں پہلی بار اس حوالے سے اس طرح کی فضا
بن رہی ہے اور یہ مسئلہ دوبارہ سے کھڑا ہو گیا ہے، آخر کیوں؟ اس مسئلہ پر
اتنے ہنگامے کے باوجود آخر ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی مرکزی
قیادت کیوں خاموش ہے؟ کیوں سب نے ایک بیان یا حلف نامہ بحالی کے بعد لب سی
لئے۔ یہ سب قابل غور پہلو ہیں۔ ہمیں بطور مسلمان ختم نبوت اور حرمت رسولﷺ
کے مسئلہ پر پوری طرح بیدار رہنے اور اس کی چوکیداری کیلئے ہمہ وقت جدوجہد
و کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں
نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو دنیامیں رسوائی تو ملنی ہی
ملنی ہے اس کے ساتھ ایک آسمانی کوڑا بھی ہے جو کسی بھی وقت برس سکتا ہے اور
اس سے پھر کوئی نہیں بچ سکتا۔ |