خداوند متعال کی معرفت اور اس کے حصول کا طریقہ

انسان کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے کیونکہ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ ہوگی ،بندگی اور اطاعت کا صحیح راستہ انسان کے لئے نہیں کھلتا اس وجہ سے قرآن کریم اور روایتوں میں معرفت خدا کے ضروری ہونے پر بہت سے مطالب بیان ہوئے ہیں۔

خداوند متعال کی معرفت اور اس کے حصول کا طریقہ

خداوند متعال کی معرفت اور اس کے حصول کا طریقہ
روایات کے مطابق معرفت پروردگار کا حصول انبیاء ، اولیائے خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی معرفت کے ذریعے سے ممکن ہے چونکہ یہ ہستیاں اسماء و صفات الہی اور پروردگار کے جمال و جلال کی مظہر ، معصوم اور انسان کامل ہیں کہ جن کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دیا ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ وہ ان ہستیوں کے ذریعے سے پہچانا جائے، ان کے ذریعے سے اس کی اطاعت ہو اور ثواب و عذاب کا معیار بھی ان پر ایمان اور ان کی اطاعت کے مطابق ہو۔

انسان کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے کیونکہ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ ہوگی ،بندگی اور اطاعت کا صحیح راستہ انسان کے لئے نہیں کھلتا اس وجہ سے قرآن کریم اور روایتوں میں معرفت خدا کے ضروری ہونے پر بہت سے مطالب بیان ہوئے ہیں۔ بعض قرآنی آیات میں خدا کی حمد و ثناء اور اس کی مختلف صفتوں کا ذکر ہوا ہے اس طرح انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے روایات، دعاؤں اور خطبات میں وسیع پیمانے پر خدا کی حمدو ثناء اور اس کی صفات کو بیان کیا ہے۔

جب فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام سے کسی نے معرفت خدا اور اس کے حصول کے طریقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: " معرفت اھل کل زمان امامھم الذی یجب علیھم طاعته "یعنی معرفت خدا سے مراد ہر زمانے کے لوگوں کا اپنے امام کی معرفت کو حاصل کرنا ہے، وہ امام کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے ۔"

واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کی پہچان خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے اور انسان امام کی معرفت حاصل کرکے اور اس کے فرامين و احکام پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے صحیح اور سیدھے راستے پر قدم رکھ سکتا ہے اور وہ سعادت جو خداوندعالم نے اس کے لئے محفوظ رکھی ہے اس تک پہنچ سکتا ہے۔ معرفت خدا کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شخص کی پہچان نہ ہو جو خدا کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے راہنمائی اور رہبری کے مقام پر فائز ہے۔

شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اس سے مراد یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ یہ جان لیں کہ خداوند عالم وہ ہستی ہے کہ جس نے لوگوں کو کسی زمانے میں بھی امام معصوم کے بغیر نہیں چھوڑا ہے لہذا جو شخص بھی خدا کی عبادت کرے اور دل میں یہ خیال کرے کہ خدا نے ان پر کوئی حجت قرار نہیں دی ہو تو گویا اس نے غیر خدا کی عبادت کی ہے پس خدا کی معرفت کے لئے پہلے خدا کے نمائندوں کی معرفت ضروری ہے اور خدا کے وہ نمائندے اس کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء اور اوصیاء ہیں اور ہر زمانے میں خدا کا ایک نمائندہ موجود رہتا ہے ۔


 
محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.