ایک عظیم شخصیت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ ان کے
افکار ونظریات کے اقرار واعتراف کا دائرہ تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ مزید
وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اس شخصیت کے نکتہ چین بھی اس حقیقت کو قبول
کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کا نظریہ حیات وفن ان کے پیش روؤں اور ہم
عصروں سے منفرد ہے۔ اقبال کے نظام فکر ونظر کے مطالعے کے بعد یہ مسلمہ
حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کا تصور زیست ابدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبیات
عالم کی جن چند شخصیات کے فکری اثاثے کو اسکول آف تھاٹس کی اہمیت حاصل ہوئی
ہے ان میں علامہ اقبال نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ بالخصوص بیسویں صدی کے آغاز
میں جن شخصیات نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں علامہ اقبال کی حیثیت
ایک قطب نما کی ہے۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’اقبالیات کی وجاحتی کتابیات‘‘
میں اس بات کی وجاحت کی ہے کہ علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایک ایسے شاعر
ومفکر ہیں جن کی فکر ونظر کا محور ومرکز قرآن ہے اور چونکہ قرآن اس روئے
زمین پر آخری نسخہ کیمیا کی حیثیت سے نازل ہوا، اس لئے ان کے افکار ونظریات
ہر انس وجاں کے لئے بحر فلاح وبہبود ہے۔
علامہ اقبال کے متعلق یہ بات تو ہر خاص وعام کے علم میں ہے کہ وہ علمی
اعتبار سے بھی اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے۔ مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ
مغربی علوم وفنون میں بھی وہ یکتا ویگانہ تھے ۔ قیام یورپ کے دوران انہوں
نے نہ صرف اپنے پیش روؤں، مغربی دانشوروں ومفکروں کا عمیق مطالعہ کیا بلکہ
اپنے ہم عصروں کے اثاثہ فکر ونظر سے خوب استفادہ کیا۔ چونکہ علامہ کو عربی
وفارسی علوم پر دسترس حاصل تھی اس لئے مغربی دنیا کے علوم تک رسائی حاصل
کرنے میں انہیں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی کیوں کہ مغربی علوم وفنون کسی
نہ کسی طور پر عربی اور فارسی علوم کی رہین منت تھی۔ علامہ اقبال بین علومی
مطالعہ کے قائل تھے ، ان کا نظریہ واضح تھا کہ جب تک کسی ادیب وفنکار کا
مطالعہ وسیع نہیں ہوگا اس وقت تک اس کے فکر ونظر میں گہرائی وگیرائی پیدا
نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی ذاتی لائبریری میں مختلف زبانوں
کی کتابوں کی اچھی خاصی تعداد تھی، بالخصوص مغربی مفکرین کی سیکڑوں کتابیں
بہ زبان انگریزی موجود تھیں۔ حکمت، طب، فلسفہ، معاشیات، اقتصادیات، سیاسیات،
مذہبیات اور تہذیب وتمدن پر مبنی سیکڑوں کتابیں ان کے مطالعے میں رہیں۔ ہم
سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ شاعر مشرق اور حکیم الامت کہے جانے والے شاعر
علامہ اقبال کی تصنیف ’’علم الاقتصادیات‘‘ کی معنویت آج بھی برقرار ہے اور
معاشیات کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
مختصر یہ کہ علامہ اقبال کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کے افکار ونظریات تک
رسائی حاصل کرنے کے لئے صرف ان کا شعری اثاثہ کافی نہیں ہے، بلکہ ان کے
نثری کارناموں جن میں ان کے مکتوبات، لکچرز، ڈائری، تقاریر، تاثرات وغیرہم
کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس وقت میرے عنوان کا تقاضہ یہ ہے کہ میں قارئین
کے حضور میں علامہ اقبال کے بین علومی نظریے کی وضاحت کروں اور اس کے لئے
میں نے ان کی انگریزی میں لکھی ڈائری ’’STRAY REFLECTION‘‘ جس کا ترجمہ
اردو میں بھی ہوچکا ہے، اس سے استفادہ کیا ہے۔ ماہر اقبالیات پروفیسر
عبدالحق نے اس کا ترجمہ ’’بکھرے خیالات‘‘ کے نام سے کیا تھا جو 1975میں
شائع ہوا تھا، دم تحریر وہی نسخہ میرے پیش نظر ہے۔ اس ڈائری کے اوراق یہ
شواہد پیش کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کا مطالعہ کتنا وسیع تھا اور وہ بین
علومی مطالعے میں کتنا درک رکھتے تھے۔ پروفیسر عبدالحق صاحب نے درست ہی
فرمایا ہے کہ ’’اس یادداشت میں اقبال کی نجی زندگی کے ذاتی خط وخال بھی
نمایاں ہیں اور ان کے فکر وشعور کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔‘‘(ص 17) پھر موصوف
آگے لکھتے ہیں کہ بکھرے خیالات کے مطالعے سے اقبال کے ادبی نصب العین کے
ساتھ ان کے مطالعے کی وسعت اور متنوع پہلوؤں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ
اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور جرمن ادبیات کے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘‘
(ص 19 ) بلا شبہ اس ڈائری کے مطالعے سے یہ حقیقت تو واضح ہوجاتی ہے کہ
علامہ اقبال کائناتی نظریات کے حامل تھے۔ وہ کسی ایک نظریے کے مبلغ نہیں
تھے بلکہ ان کا ذہن ودل کشادہ تھا ، وہ دنیا کے تمام علوم وفنون سے استفادہ
کرنے کے وکیل تھے اس لئے تو انہوں نے کہا تھا کہ مشرق سے ہو بیزار نہ
مغرب سے حذر کر-- فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر!
اس ڈائری میں پروفیسر عبدالحق نے ایک سو پچیس عنوانات کے تحت علامہ اقبال
کے افکار ونظریات کی وضاحت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عنوانات اس ٹیکسٹ کے مطابق
ہیں جو علامہ نے خود تحریر کیے تھے۔ اس عہد میں ڈائری لکھنے کی ایک روایت
تھی۔ علامہ اقبال نے اگر اپنی ڈائری بہ زبان انگیرزی تحریر کی تو اس کا بھی
واضح مقصد تھا کہ ان کے افکار ونظریات سے اہل مغرب بھی واقف ہوسکیں۔ کیوں
کہ نہ صرف قیام یورپ بلکہ بعد کے دنوں میں بھی ان کے روابط اہل مغرب سے
قائم تھے۔ اس ڈائری میں انہوں نے نہ صرف شاعری اور فلسفہ کے متعلق اپنی
رائے پیش کی ہے بلکہ طرز حکومت، معاشیاتی توازن، مذہبی جنون، حب الوطنی،
تاریخ، مابعد الطبعیات، شخصیات اور عامیانہ حقائق جیسے موضوعات پربھی روشنی
ڈالی ہے۔
وہ شاعری اور منطقی صداقت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’شاعری میں منطقی سچائی
کی تلاش بالکل بیکار ہے، تخیل کا نصب العین حسن ہے نہ کہ سچائی۔ اس لئے کسی
فنکار کی عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے اس کی تخلیقات میں سے وہ ایک اقتباس پیش
نہ کیجئے جو آپ کی رائے میں سائنسی حقائق پر مشتمل ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس
اقتباس کے مطالعے سے یہ حقیقت تو واضح ہوجاتی ہے کہ شاعری میں صرف اور صرف
حقیقت کو عمل دخل نہیں بلکہ شاعر کا تخیل اور اس کا جمالیاتی حس اس کے فن
کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے۔ علامہ اقبال نے جس حقیقت کو چند جملوں میں پیش
کیا تھا پروفیسر شکیل الرحمان نے اسی بنیاد پر درجنوں کتابیں لکھ دیں اور
اب مطالعہ جمالیات ادب کا ایک الگ باب بن چکا ہے۔ شخصی بقائے دوام کے متعلق
علامہ اقبال کی یہ بات بھی ہمیشہ گرہ میں باندھ رکھنے کی ہے کہ ’’شخصیت
چونکہ انسان کا عظیم ترین سرمایہ ہے ،اس لئے خیر کو قطعی سمجھنا چاہئے ۔
اسے ہمارے اعمال کی قدر وقیمت کا معیار ہونا چاہئے ، وہی خیر ہے جو ہمیں
شخصیت کا شعور بخشتا ہو، وہی شر ہے جو شخصیت کو کچلنے اور بالآخر اس کو
نابود کرنے کا میلان رکھتا ہو۔‘‘ (ص 59)
آج جب عدم رواداری پر قومی بحث ہورہی ہے اور مذہبی جنون کے تعلق سے طرح طرح
کی رائیں پیش کی جارہی ہیں ، ایسے وقت میں علامہ اقبال نے مذہبی جنون کے
متعلق جو کہا تھا وہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ’’قومیت ہمارے لئے ایک
خیال محض ہے، اس کی کوئی مادی بنیاد نہیں ہے، ہمارا اجتماعی نقطہ دنیا کے
چند نقطہ ہائے نظر سے ایک طرح کی ذہنی مفاہمت ہے، ہمارا تعصب اس وقت بیدار
ہوتا ہے جب ہمارے مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ ہم اپنے
تعصب میں اسی طرح حق بجانب ہیں جیسے ایک انگریز ہے ،جب اس کی تہذیب کو
نشانہ تنقید بنایا جاتا ہے۔ دونوں حالتوں میں احساس ایک ہی ہے، اگرچہ دونوں
مختلف مقاصد سے متعلق ہیں اور وہی حب وطن اگر مذہب کیلئے ہے تو جنون ہے اور
وہی جنون اگر ملک کیلئے ہے تو حب وطن ہے۔‘‘ (ص 62)
علامہ اقبال مطالعہ تاریخ کے نہ صرف دلدادہ تھے بلکہ وہ اسے حرز جاں سمجھتے
تھے۔ ان کے خیال میں مطالعہ تاریخ نہ صرف تسلسل زمانہ کی دستاویز ہوتی ہے
بلکہ تاریخ کے سہارے ہی ہم انسانی تہذیب وتمدن کے سرے تک پہنچتے ہیں۔ اس
لئے وہ تاریخ میں ٹھوس حقائق کے حامی تھے ، بلاشبہ آج ملک وسماج میں جو
گمرہی ہے اس کی ایک وجہ گمراہ کن اور تعصب پر مبنی تحریر کردہ تاریخ ہی ہے۔
بالخصوص انگریزوں نے ہندوستانیوں کے درمیان ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کے
نسخے کو عملی صورت دینے کیلئے جو تاریخ لکھی اس کے نتائج سے ہم ہندوستانی
آج تک دوچار ہورہے ہیں۔علامہ اقبال کے مطابق ’’تاریخ ایک طرح کی عملی
اخلاقیات ہے ، دوسرے علوم کی طرح اگر اخلاقیات ایک تجرباتی علم ہے تو اسے
انسانی تجربات کے انکشافات پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس نقطہ نظر کے برملا اظہار
سے ان لوگوں کے بھی نازک احساسات کو یقینا صدمہ پہنچے گا جو اخلاق کے
معاملے میں سخت گیر ہونے کے دعویدار ہیں لیکن جن کا عوامی کردار تاریخی
تعلیمات سے متعین ہوتا ہے۔‘‘ (ص 60 )
علامہ اقبال نے اپنی ڈائری میں شخصیات کے متعلق بھی اظہار خیال کیا ہے جو
مختصر ہوتے ہوئے بھی آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ مثلاً ہیگل کے متعلق ان کا
یہ سطر دریا کو کوزے میں قید کرنے کی مانند ہے ،’’ہیگل کا نظام فکر رزمیہ
شعر منشور ہے۔‘‘ نتشے کے متعلق ان کی رائے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔
’’نتشے کا فلسفہ کم سے کم اخلاقیات کی دنیا میں یوروپی کردار کے عقلی جواز
کی ایک کوشش ہے ، اس کے باوجود یورپ میں عام طور پر اشرافیہ کے اس بڑے
پیغمبر پر ملامت کی جاتی ہے، صرف چندہی نے اس کی دیوانگی کے مفہوم کو سمجھا
ہے۔‘‘ غالب کے متعلق علامہ اقبال کا یہ اقتباس تو دنیائے ادب میں سکہ رائج
الوقت کا درجہ رکھتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اکثر ناقدین اس اقتباس کو لکھتے
وقت دیانت داری کا ثبوت نہیں دیتے، بقول علامہ اقبال، ’’میری نظر میں مرزا
غالب فارسی شاعر کی حیثیت سے عام مسلم ادبیات میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کا
غالباً واحد مستقل اضافہ ہے۔ بلا شبہ وہ ان شاعروں میں سے ایک ہے جس کا ذہن
وتخیل اسے نسل وقومیت کے تنگ حدود سے بلند تر مقام پر فائز کرتا ہے۔ غالب
کی عظمت کا اعتراف ابھی ہونا باقی ہے۔‘‘ (ص 71)شاعری کی مقبولیت کے متعلق
علامہ اقبال کی رائے اپنی جگہ مسلمہ حقیقت کی حامل ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ
’’کسی نظم کی مقبولیت اس امر پر منحصر نہیں ہے کہ اس میں منطقی صداقت کی
مقدار کیا ہے۔ گولڈ اسمتھ کی ’’ویران گاؤں‘‘ بہت زیادہ مقبول ہے لیکن پھر
بھی یہ نظم سائنسی غلطیوں اور ناقص معاشی استدلال سے بھری ہوئی ہے۔‘‘ (ص
72)
ان دنوں نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا میں اقلیتوں کے تعلق سے بحث ومباحثہ
ہورہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے متعلق جب کبھی ذکر ہوتا ہے تو اقلیتوں
کے آئینی حقوق پر گفتگو شروع ہوتی ہے، اس کے مسائل کے حل تلاش کیے جاتے ہیں
اور اس کیلئے حکومت سے منت وسماجت کی جاتی ہے لیکن علامہ اقبال کی نگاہ میں
اقلیت کسی کی دست نگر کی حیثیت نہیں رکھتی ۔ ’’دنیا کی قسمت کا فیصلہ علی
الخصوص اقلیتوں کے ذریعہ ہوا ہے۔ تاریخ یورپ اس مقدمہ کی صداقت پر وافر
دلائل رکھتی ہے، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نفسیاتی سبب ہے کہ
اقلتیں کیوں تاریخ انسانی میں ایک طاقت ور عنصر رہی ہیں۔ کردار ایک ایسی
مخفی قوت ہے جو اقوام کی تقدیر متعین کرتا ہے اور اکثریت میں مستحکم کردار
کا وجود ناممکن ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے کہ جتنی زیادہ پھیلتی ہے اتنی ہی
زیادہ کمزور ہوتی ہے۔‘‘ (ص 83)
اس ڈائری میں بہترے یک سطری جملے ہیں جو علامہ اقبال کی تعمیری فکر ونظر کی
آئینہ دار ہیں۔ ایک کامیاب انسان کے لئے ان کا یہ پیغام ازلی وابدی حقیقت
کا ترجمان ہے کہ ’’اپنی معزوریوں کو پہچانو، اپنی صلاحیتوں کا اندازہ لگاؤ
اور زندگی میں کامیابی یقینی ہے۔‘‘اور پھر کاہلی کے متعلق ان کا یہ قول
زریں ’’کاہل ذہن کچھ ایسی مشین ہے جو حرکت نہیں کرتی۔‘‘پھر سیاست دانوں کے
لئے ان کا یہ پیغام کہ ’’سچی سیاسی زندگی مطالبہ حقوق سے نہیں بلکہ ادائیگی
فرض سے شروع ہوتی ہے۔‘‘اور فن کے متعلق ان کا یہ جملہ تو اب بین اقوامی
شہرت کا حامل ہے کہ ’’سائنس، فلسفہ ، مذہب سب کے حدود ہیں، صرف فن ہی
لامحدود ہے۔
‘‘
مختصر یہ کہ علامہ اقبال کی اس ڈائری کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے
کہ وہ بین علومی مطالعے کے دلدادہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار ونظریات
بحر ذخار کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کا عکس ان کی شاعری اور نثری تحریروں
میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں چند مثالوں کی ہی گنجائش تھی کہ
طوالت کا خوف درپیش تھا لیکن جو اقتباسات ، ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں اس
کے مطالعے سے بھی بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال کا ذہن
آفاقی تھا، اور جسے انہوں نے اپنے بین علومی مطالعے کے ذریعہ لازوال
تابناکی بخشی تھی۔ |