کیا حکمران واقعی چور نہیں ہیں؟

ایم کیو ایم ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس وقت ایک ہی رونا پیٹ رہی ہے اور وہ ہے مائنس ون فارمولا لیکن کیا اس فارمولے کا کوئی وجود بھی ہے؟ کہ بس یوں ہی عوام کو چقمہ دینے کیلئے باتیں کی جارہیں ہیں !نواسی اور نوے کی بات ہے جب کراچی میں آرمی اور رینجر کی جانب سے آپریشن کیا گیا جس میں ساحل سمندر پر غاروں میں کتنے ہی لوگوں جن میں بچے ، عورتوں سمیت ہر عمر کے افراد شامل تھے کو بازیاب کروایا گیا اور یہ کارنامہ کس کا تھا !محترمی جناب ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا۔وہاں کی زبوں حالی کے مناظر لکھنے کا متحمل میرا قلم نہیں ہو سکتا ۔جب کہانی کھل کے سامنے آئی اور اس میں الطاف حسین کا ہاتھ نکلا تو الطاف حسین صاحب ایسا بھاگے کہ آج تک ہاتھ نہیں آئے ۔اس کے بعد کراچی کے حالات کافی حد تک بہتر رہے لیکن صرف مختصر عرصہ کیلئے، کیونکہ پھر سے وہی دنگے ،فساد اور ہٹ دھرمیاں ،قتل و غارت گری جیسے واقعات اور پھر بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت کے قتل نے ملکی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ پر انگلی اٹھا دی ۔ 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی اور آصف علی زرداری صدر پاکستان کے منصب پر براجمان ہوئے، جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ بھی نہیں کرنے دیا نا ڈیوٹی اور نا ہی کرنے کے کام، کیونکہ زرداری اچھے سے جانتا تھا کہ قاتل کون ہے ۔اس لئے اس ضمن میں کوئی بھی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آسکی بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر الزامات دھرے گئے اور مشرف کو آڑے ہاتھو ں لیا گیا کہ وہ محترمہ کے قتل میں ملوث تھا ۔تاریخ کے وہی پتے بارہا کھیلے جاتے ہیں بھٹو نے بھی یہی غلطی کی تھی جو اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کے الزامات فوج پر لگائے اور اسے میڈیا پر ذلیل بھی کروایا ۔خیر 2013کے عا م انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہاں البتہ ان کی ساکھ ختم ہو چکی ہے اور اب کے بار پوزیشن ن لیگ کی مضبوط ہوئی ۔میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے لیکن انہوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ، یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اس پوزیشن پر آئے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پہلے بھی ایک جنرل کی گود میں کھیل کر یہاں تک پہنچے تھے وگرنہ ن لیگ کا منشور ہی کیا! یا اس کا مقصد کیا ہے آج تک کسی کے سامنے نہیں آیا، سوائے وڈیرہ شاہی اور مغلیت کو فروغ دینے کے ۔اور صاحب جی پاناما کیس میں پھنس گئے ،دوسری طرف چھوٹے میاں صاحب بھی کسی سے کم نہیں ،حکومت میں آتے ہی کیمپ آفس کی آڑ میں اپنے گھروں کا خرچ بھی سرکاری دولت سے نکالنا شروع کر دیا ۔درجنوں ایسی کمپنیاں بنائیں گئیں جو بلدیات میں تعمیر و ترقی کے کام کرتی رہیں جن کے ملازمین لاکھوں میں تنخواہیں لیتے رہے ہیں اور کسی میڈیا یا عام آدمی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی ۔یہی ایک وجہ تھی کہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیا اور اپنی ساکھ مضبوط رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہوتا کیا ہے ! لوگ کھیل کھیلتے ہیں اور اﷲ میدان کھلا چھوڑ دیتاہے اور پھر وہی کھیل ان کی جان پہ بن آتا ہے ۔جب یہ کمپنیاں منظر عام پر آئیں اور ان کے آڈٹ کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تو سرکاری کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کے ذمہ لگا دیا گیا جو چند پیسے لے کر جیسا چاہے آڈٹ کر دیتی ہیں ۔ جب اس پر بھی سوال اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ کرپشن ہوئی ہے تو میاں صاحب نے صوبائی وزیر قانون رانا ثنا ء اﷲ کے سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی جس کے زیادہ ارکان انہیں کمپنیوں کے بڑے عہدوں پر فائض ہیں ’’اناٌ ونڈے شریڑیاں ، مڑ مڑ اپنے گھر نوں‘‘ ۔کوئی ان سے پوچھے کہ رانا ثنا ء اﷲ کس منہ سے رپورٹ شہباز شریف کے خلاف دیں گے اور پھر شہباز شریف ایک بڑا ہی بے ہودہ مزاق کرتے ہیں کہ مجھ پر ایک روپے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے کبھی تو بے شک مجھے قبر سے نکال کر بھی لٹکا دینا دوسرے لفظوں میں وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ جیتے جی کوئی ان پر کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔جب کوئی اس کے خلاف عدالت میں جائے گا تو وہاں رپورٹ پیش کر دی جائے گی کہ اسکی تحقیقات ہم کروا چکے ہیں اور اس کی رپورٹ یہ ہے ۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد میاں نواز شریف کی شوگر ملوں سے سینکڑوں بھارتی را ء ایجنٹ پکڑے گئیجن میں سے زیادہ کو بلیو پاسپورٹ جاری کئے گئے تھے اور یہ سب کس کی مرضی سے ہوا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔عزیر بلوچ سندھ اور بلوچستان میں ملکی سالمیت سمیت ملک کے ستونوں کو بھی کاری ضربیں لگاتا رہا اور ڈاکٹر عاصم تو چار سو ارب روپے لے اڑا۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ ملک میں اس وقت سب سے بڑا ناسور دہشتگردی کی بجائے کرپشن ہے جس کا خاتمہ ملکی سالمیت کیلئے ضروری ہے ۔اور اسٹیبلشمنٹ کا کام ہی ملکی سالمیت اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔تو جن لوگوں نے گناہ کئے ہیں اور ملکی سالمیت اور استحکام پر کاری ضربیں لگائیں ہیں ان کو پکڑنے کیلئے اگر اسٹیبلشمنٹ اپنا کام کر رہی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ،ویسے اچھائی ہمیشہ برے لوگو ں کو ہی بری لگتی ہے ۔یہ ایک ہوا پھیلائی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جمہوریت میں دخل اندازی کر رہی ہے جو کہ سرا سر غلط ہے ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاک فوج اور عوام نے ہمیشہ جب بھی ملکی سالمیت پر وار کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تابڑ توڑ حملہ کیا ،اسی طرح اس وقت پاکستان معاشی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہے ،خارجی اور سیاسی بحران کی وجہ سے تما م کیس عالمی عدالت میں ہم ہارتے جا رہے ہیں جبکہ قرضوں میں ہر شخص کا بال بال ڈوب چکا ہے ،شروع میں جو سبسبڈی حکومت کی جانب سے دی گئی تھی وہ اب کیوں نہیں ہیجبکہ ان کے مطابق معیشت پہلے سے مستحکم ہوئی ہے۔ ہر ماہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کوئی بھی ترقیاتی کام یا منصوبہ شروع کرنا ہو تو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑتا ہے اور تو اور نجکاریاں کر دی گئیں ہیں اداروں کی یہ تو گویا ایسا ہے کہ جیسے یہ چند اریسٹو کریٹس سوچ چکے ہیں کہ پاکستان کو بیچ کر ہی دم لیں گے ۔لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے ۔علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا :
ہنسی آتی ہے مجھے حسرتِ انسان پر
گناہ کرتا ہے خود ،لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190300 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More