علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے اور
پاکستان کے قومی شاعر کی حثیت بھی حاصل ہے علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو
برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ماں
باپ نے نام محمد اقبال رکھا مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ
ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر
1877 کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے علامہ اقبال کے آباواجداد
قبول اسلام کے بعد کشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھتیاں کو اپنا
مسکن بنایا آپ کے والد نور محمد سپرو برہمنوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے اور
اورنگزیب عالمگیر کے دور عہد میں اسلام قبول کیا علامہ اقبال کا گھرانہ
پورے علاقے میں دین دار اور امانت دار سمجھا جاتا تھا 6مئی 1893 میں اقبال
نے میٹرک کیا اور 1895 میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے
لاہور آگئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل
میں رہنے لگے۔ اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے۔
انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج
جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔
اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا
اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور
اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ)
میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ جیسے مایہ ناز استاد سے فیض
یاب ہوئے۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی
رْخ متعین کر دیامارچ 1899میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل
آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے
تھے۔ نومبر 1899کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے
مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے اساتذہ، شاگردوں کی
ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سْننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال
چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پْکارا گیا۔ غزل
پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چْن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد اْچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے
اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار بْلائے جانے
لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم
رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک
سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان
کردیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور
پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیاایم اے
پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی
حیثیت سے متعین ہوگئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام
پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ
بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم
کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے
لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔ 1904کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے
گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا۔ دل کہتا تھا کہ اْڑ کر
انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال
نے اسٹبس کی ’’ارلی پلائجنٹس‘‘اور واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ کا اردو میں
تلخیص و ترجمہ کیا، شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریہ توحیدِ مطلق پر انگریزی
میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اردو زبان میں ایک
مختصر سی کتاب تصنیف کی جو 1904 میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ
اولین کتابوں میں سے ہے اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم
ہوگئی تو 1903 میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال گورنمنٹ کالج
میں تقرر ہوگیا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں
تک کہ یکم اکتوبر 1905کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی
25 دسمبر 1905کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور
کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر
کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں
رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے
ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ
لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں
آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی
ڈگری حاصل کی کیمبرج میں آپ نے اس دور کے معروف اساتذہ اکرام جن میں وائٹ
ہیڈ، میگ ٹیگرٹ، وارڈ، براؤن اور نکلسن شامل ہیں ان سے فیض یاب ہونے کا شرف
حاصل ہوا علامہ اقبال کیونکہ بہت ذہین بھی تھے اس لیے اپنے کام کو کبھی
اگلے دن پر نہیں چھوڑتے تھے ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان
کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے
بہرحال جولائی 1908میں آپ اپنی تعلیم مکمل کر لے وطن کے لیے روانہ ہوئے
بمبئی سے ہوتے ہوئے اور25 جولائی 1908کی رات دہلی پہنچے
علامہ اقبال تعلیم مکمل کر کے وطن واپس پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کی حالت
زار کو دیکھتے ہوئے آپ نے مسلمانوں کو ان کے حقوق کے لیے اپنی نظموں سے
بیدار کرنے کی کوششیں شروع کیں اور مختلف موقعوں پر جلسوں میں خطابات بھی
کیے اور اپنی تمام تر مصروفیات کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا علامی اقبال
نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا اور
مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں شرکت بھی کی اور مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول
کے لیے جدوجہد کرتے رہے علامہ اقبال کی مسلمانوں کی بے لوث خدمات کے عوض
انہیں شاعر مشرق پاکستان کا لقب دیا گیا اور ان کی تصانیف کو مختلف کتابوں
میں شائع کیا گیا جوکہ آج تک جاری و ساری ہے علامہ اقبال 21نومبر1938کو
61سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے لیکن اس قوم میں اپنے حق کی
خاطر لڑنے کے شعور کو اجاگر کر دیا
علامہ اقبال کی بے شمار تصانیف ہیں جن میں انگریزی،اردو اور فارسی کے علاوہ
نثر بھی شامل ہے
نثر میں1903،فارسی شاعری تصانیف میں اسرار خودی 1915 ،رموز بے خودی 1917 ،پیام
مشرق 1923 ،زبور عجم 1927،جاوید نامہ 1932،پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
1931 ،ارمغان حجاز (فارسی - اردو) – 1938 ،اردو شاعری تصانیف میں بانگ درا
1924،بال جبریل 1935 ،ضرب کلیم 1936،جبکہ انگریزی شاعری مجموعے میں فارس
میں ماوراالطبیعیات کا ارتقاء 1908اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو 1930
آخر میں اقبال کے ایک مشہور شعر کے ساتھ اختتام
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پرْ دم ہے اگر تو ،تو نہیں خطرہ افتاد٭٭
|