گزشتہ جمعہ کی شام کلرسیداں کے مقامی صحافی فیصل صغیر
راجہ کو کچھ نا معلوم افراد نے راولپنڈی کچہری کے پاس سے اغواء کر لیا تھا
جس پر ضلع راوالپنڈی سمیت دوسرے اضلاع کی بھی صحافتی تنظیموں نے تشویش کا
اظہار کیا تھا اور ان سے اظہار یکجہتی کا ٓعلان کیا تھااس کے بعد ان کے
بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں چلتی رہیں بلاآخر سوموار کی شام چار
بجے کے قریب ان کو بے نظیر ہسپتال کے مین گیٹ سے کچھ فاصلے پر بے ہوشی کی
حالت میں پھینک دیا گیا جہاں سے ان کو ایک نجی ہسپتال میں لے جایا گیااور
وہاں پر ان کا علاج معالجہ کیا گیا اس کے ان کو نیم بے ہوشی کی حالت میں
گھر شفٹ کر دیا گیا جس کے بعد بھی وہ تین دن تک بلکل بولنے چالنے سے
قاصررہے جس وجہ سے ان کے بارے میں کسی کو بھی صحیح معلومات حاصل نہ ہو سکیں
اور نہ ہی ان کے بارے میں پتہ چل سکا کہ ان کیساتھ کیا واقعہ پیش آیا جمعہ
کو ان کے بارے میں معلوم ہوا کے اب وہ بہتر ہیں اور معمولی سی بات چیت کر
سکتے ہیں تو میں ان سے ملاقات اور ان کی تیمارداری کیلیئے ان کی رہائیش گاہ
پر گیا وہاں پہنچ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ اب بھی ٹھیک طرح سے بات چیت
نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی چلنے پھرنے کے قابل ہیں بہر حال میں نے بڑی
مشکل سے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور حالات جاننے کی کوشش کی لیکن ان سے اس
واقعہ کے دوران ان کے ساتھ ہونے والے پر تشدد سلوک کی وجہ سے وہ کافی کمزور
دکھائی دے رہے تھے جس وجہ سے وہ اب بھی اْٹھنے بیٹھنے اور بولنے کی سکت
نہیں رکھتے ہیں بڑی مشکل سے ان کے ساتھ چند باتیں ممکن ہو سکیں میرے بار
بار اصرار پر انہوں نے صرف اتنا ہی بتایا کہ وہ اپنے ایک کام کے سلسلے میں
راولپنڈی گئے ہوئے تھے واپسی پر وہ گاڑی کے انتظار میں کچہری سٹاپ پر کھڑے
تھے ایک گاڑی ان کے قریب آ کر رکی جس میں دہ افراد سوار تھے ان میں ایک نے
مجھے پاس بلایا اور کہا کہ آپ گاڑی میں بیٹھیں ہمیں آپ سے کوئی کام ہے ہیں
بیٹھنے سے انکاری ہوا لیکن انہوں نے اتنا زیادہ مجبور کر دیا کہ میں ان کی
گاڑی میں بیٹھ گیا جوں ہی میں گاڑی میں بیٹھا تو اس میں موجود دوسرے شخص نے
مجھے دبوچ لیا اور ساتھ ہی میرے منہ پر سپرے مار دیا اس کے بعد مجھے کچھ
معلوم نہیں کہ مجھے کس راستے اور کس مقام پر لے جایا گیا جب میں ہوش میں
آیا تو میں نے خود کو ایک ویران مکان میں پایا اس کے بعد میرے ساتھ جو سلوک
ہوا مجھ سے جو گفتگو ہوئی یا مجھ سے جو برتاؤ کیا گیا وہ میں آپ کو یہاں
نہیں بتا سکتا بلکہ ان تمام تر حالات سے سب کو آگاہی دینے کے لیے میں بہت
جلد اپنے قریبی دوستوں بلخصوص صحافی بھائیوں کو ایک جگہہ پر اکھٹا کروں گا
اور سب کو مشترکہ طور پر تمام تر واقعہ سے آگاہ کروں گا یہ تھیں وہ ساری
باتیں جو فیصل صغیر راجہ نے میرے ساتھ کیں قارئین کرام اب میں آپ کو وہ
بتاتا ہوں جو خود میں نے مشاہدہ کیا میرے زہن کے مطابق انکو بہوش کرنے کے
لیے جو دوائی یا سپرے استعمال کیا گیاتھا اس کا اسر اب بھی ان میں موجود ہے
ان پر زہنی اوار جسمانی دونوں قسم کے تشدد ہوئے ہیں وہ اب بھی ٹھیک طرح سے
چل نہیں سکتے خوف وڈر ان کے چہرے پر اب بھی با لکل عیاں ہے اور وہ ہر کسی
کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ان پر تشدد ضرور ہوا ہے باقی خدا کی خدا جانے
کے اصل حقائق کیاہیں ان کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ ایک متوسط
گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا شمار اچھے اور شریف لوگوں میں ہوتا ہے اور
میں یہ بات مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی اتنی بڑی منصوبہ بندی ان
کے بس کاروگ ہی نہیں ہے ایسے کام انکی پہنچ سے بہت دور ہیں وہ لکھاری ہیں
اور زیادہ تر سیاسی موضوعات پر لکھتے ہیں میں ایسے تمام افراد سے معذرت کے
ساتھ گزارش کرنا چاہوں گاکہ فی الحال ان کے بارے میں کوئی بھی قیاس آرائی
کرنا قبل ازوقت ہو گا جو کچھ بھی ہوا وہ صرف ان کی ذات کے ساتھ ہوا ہے اس
میں کسی بھی دوسرے فرد کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے اﷲ پاک کا لاکھ لاکھ
شکر ہے کہ وہ زندہ سلامت واپس آگئے ہیں ورنہ ایسے معاملات میں کیا کچھ نہیں
ہو سکتا ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں اور خدا تعالی سے دعا کریں کہ
وہ ظالموں سے محفوظ رکھے انکے کہنے کے مطابق اصل حقائق بہت جلد سامنے لائے
جائیں گئے اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا اس سے قبل انکے بارے
میں کو ئی بھی ختمی رائے قائم کرنے سے احتیاط برتی جائے صحافی جو بھی کرتا
ہے وہ صرف دوسروں کے لیے کرتا ہے اپنے لیے وہ صرف اور صرف اس طرح کے
معاملات مخا لفتیں اور دشمنیاں ہی جمع کرتا ہے اور اس نوکری میں یہی سب کچھ
اس کی مزدوری بنتے ہیں اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام قسم کی بلاؤں سے
محفوظ رکھے
|