چار اشارے۔۔۔۔۔

یہ کہانی میثاقِ جمہوریت سے شروع ہوتی ہے، لیکن عوام کو نہ صرف اندھیرے میں رکھا گیا بلکہ اداروں کو بھی غلام بنا کر انہیں اپنی انگلیوں پر نچانے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اختتامی عشرے میں جب پاکستان میں نواز شریف کی سیاسی جماعت مقتدر ہوئی تو صرف دو سال بعد ہی مارشل لاء کی نظر ہو گئی اور جلا وطن کی صعوبتیں شریف فیملی کو الگ سے برداشت کرنی پڑیں ۔ اس طرح کے واقعات سے پاکستان کی سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن 2006 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مابین میثا ق جمہوریت طے پایا، جس کے بعد 2007 میں محترمہ تو چل بسیں لیکن پیپلز پارٹی کو لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع مل گا اور یوں وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔جس کے بعد پاکستانی آئین میں کافی حد تک تبدیلیاں کی گئیں اور آرمی چیف کو وزارت داخلہ کے ماتحت بنا دیا گیا اس طرح سیاسی وزراء کی مرضی سے اہم نشستوں پر تقرریاں ہونے لگیں جس کی مثال ابھی تک قائم ہے ۔میثاق جمہوریت میں جو معاہدہ طے پایا اس کے دو حصے ہیں ایک تو وہ جو منظر عام پر لایا گیا اور ایک وہ بھی تھا جو باطن رکھا گیا ۔باطن رکھا گیا حصہ ابھی تک شاید کسی کو معلوم نہیں لیکن اس کے کچھ کچھ اشارے سامنے آ رہے ہیں ۔اس کا سب سے پہلا اشارہ تو یہ ہے کہ دونو ں پارٹیوں نے اپوزیشن نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے کسی بھی صورت ایک دوسرے پر الزام تراشی تو بہت کرتے ہیں ،سڑکوں پر گھسیٹنے کی بھی باتیں کرتے ہیں ، ننگا کرنے کی بھی باتیں کرتے ہیں اور پھر یہ سب نا ہو تو نام بدلنے کی بھی اجازت دیتے ہیں، لیکن جب کوئی اس پر پوچھ گچھ کر لے تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو محض سیاسی بیان تھا ۔یہ تو کچھ یوں ہوا کہ حمام میں سبھی ننگے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو انگلی کر رہے ہیں لیکن خود کو ڈھانپنا بھی کوئی نہیں چاہتا ۔پھر ہمیں دوسرا اشارہ یہ ملتا ہے کہ باری بنا لو! پہلے تمہاری باری کیوں کہ تمہارے بانی کی بیٹی مر گئی ہے ہمیں بھی تم سے ہمدردی ہے اسی ہمدردی میں تم پاکستان پر پانچ سال حکومت کر لو! چلو اسی کھیل کود میں تمہارا دل بھی بہل جائے گا اور تمہیں وہ غم بھی بھول جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو دوسری طرف بی بی کے مرنے کے فوری بعد ہی عوام کا پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دیکھتے ہیں کون ہیں بی بی کے قاتل ؟؟ کم از کم پیپلز پارٹی والے اتنا تو کریں گے ہی کہ بی بی کے قاتلوں کو سامنے لے آئیں اور اس طرح پاکستانی تاریخ میں چلی آرہی ایک ریت بھی ٹوٹ جائے گی ،کہ یہاں کسی بھی ایسے شخص کا قتل ہو جائے تو قاتل کبھی نہیں پکڑا جاتا ۔لیکن کیا ہوا کہ آوے کا آوا ہے بگڑ گیا ،اداروں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائیں گئیں ، بیوروکریسی کو غلام بنا لیا گیا اور رشوت ستانی کو اس طرح فروغ ملا کہ لوگ سانس لینے کیلئے بھی رشوت دینے لگے ،جینا محال ہو گیا تھا !کیونکہ اسی پیپلز پارٹی کے دور میں ہی عوام ناکوں چنے چابنے پر مجبور ہو گئی تھی، ملک سے پچاس فیصد سے زائد صنعت چلی گئی، ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ملک بھی سارے کا سارا عدم استحکام کا شکار ہوا، لیکن پنجاب میں حکومت ن لیگ کی ہی رہی ،پر ٹھنڈی اینٹ کے مترادف! اتنی بڑی اپوزیشن جماعت اور پھر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر حکومت ملنے کے با وجود عوام کیلئے کوئی آواز نہ بلند کر پانا واقعی حیران کن امر ہے! لیکن کوئی سوچے تو ، پھر سڑکوں پر احتجاج اور اپنا جمہوری حق مانگنے والوں کے ساتھ جو رویہ رو ا رکھا گیا وہ تو اور بھی قابل تشویش تھا ۔اس کے بعد 2013کے الیکشن میں ن لیگ مقتدر جماعت بن کر سامنے آئی! مطلب ساڈی واری والی کہانی،لیکن یہاں ہمیں تیسرا اشارہ بھی دیکھنے کو ملا اور وہ تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے پنجاب تمہارا اور سندھ ہمارا یعنی پیپلز پارٹی کو سندھ میں اکثریت حاصل ہوئی اور وہ بڑی اپوزیشن جماعت بن کر سامنے آئی ۔پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ایم کیو ایم نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کر دئے تھے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم بھی پیپلز پارٹی کی مجبوری بن گئی اور اس طرح حکومت میں وہ بھی حصہ دار بن گئی اور اپنے ناپاک عزائم کو خوب پروان چڑھانے کی کوششیں کیں ۔پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی بنیادوں کو اس طرح کاری ضربیں لگنے لگائیں گئیں کہ سرزمین وطن ہر دوسرے لمحے ہچکولے کھانے لگی، یہ سب ناقابل برداشت تھا یہی وجہ تھی کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیسہ پلائی دیوار بننا پڑا اور انہوں نے ثابت بھی کیا جس طرح انہوں نے پیپلز پارٹی ،ن لیگ اور ایم کیو ایم کے غدارِ وطنوں کو سبق سکھایا اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیا آج سب کے سامنے ہے ۔پاناما لیکس ، اقامے ،پیراڈائز لیکس ،حدیبیہ پیپز ملز ، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی پیش رفت اور وزیر اعظم کی نا اہلی اس وقت تینوں سیاسی جماعتوں کی جان پر بنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین مرتبہ نا اہل وزیر اعظم اداروں کے ساتھ تصادم کر رہے ہیں اور پیچھے بیٹھ کر زرداری کے لقمے آ رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ میاں صاحب اداروں کے ساتھ تصادم کر کے ملک کو توڑنے کی کوششوں میں ہیں !دوسری طرف دشمن بھی تاک لگائے بیٹھا ہے ،ہم نے آج تک پاکستان میں ایسی کوئی تحریک نہیں دیکھی جو نعرہ لگائے کہ بلوچستان کو آزاد کیا جائے لیکن یہ نعرے ہمیں برطانیہ ، امریکہ اور یورپ میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں چوتھا انتہائی بھیانک اشارہ مل رہا ہے اور اس کیلئے پاکستانی عوام کو نہ صرف جاگنا ہوگا بلکہ ایسے لوگوں کے خلاف جان توڑ قدم اٹھانا ہوگا ۔ وہ شخص کبھی بھی پاکستانیت کا قائد نہیں ہو سکتا جو پاکستان کی سالمیت اور استحکام کا دشمن ہو اور میاں محمد نواز شریف اس وقت فرنٹ لائن پر یہ سب کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ چوتھا اشارہ ملک کو توڑنے کے ناپاک عزائم کی طرف جاتا ہے ۔اس وقت یہ سوچا جا رہا ہے کہ کوئی بیرون ملک نہیں بھاگے گا بلکہ ایک کی کوشش یہ ہے کہ گریٹر پنجاب بنایا جائے ، دوسرے کی کوشش سندھ ریاست بنانے کی ہے ۔ان دونوں پارٹیوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاست چلائیں گے اور ہمیشہ ان پر بادشاہت قائم رکھیں گے لیکن یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ سرزمین پاک اﷲ کی انمول نعمت ہے اور اس کا اب تک ایسی صورتحال میں بھی قائم رہنا سب سے بڑا معجزہ ۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190499 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More