اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے چیرمین عمران
خان نے میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کی
تھیں لیکن شائد وہ پھر بھی وہ مقاصد حا صل کرنے سے کوسوں دور ہیں جو انھوں
نے میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی سے قبل طے کر رکھے تھے ۔ان کا خیال تھا
کہ میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد میدان صاف ہو جائے گا اور اقتدار
ر ایک پکے ہوئے پھل کی صورت میں ان کی جھولی میں آ گرے گا لیکن بوجوہ ایسا
ہو نہیں کا۔لاہور کا حلقہ این اے ۱۲۰ جس طرح کے رحجان کا آئینہ دار بنا ہوا
ہے اس سے تو یہی متر شح ہو رہا ہے کہ ہنوز دہلی دور است۔ میاں محمد نواز
شریف وزارتِ عظمی کی مسند سے اٹھا کر باہر پھینکے جا چکے ہیں جس کے بعد یہ
سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا نااہلی کی دو دھاری تلوار سے نیا وزیرِ
اعظم محفوظ و مامون ہوگا یا کہ اس کا مقدر بھی گزرے ہوئے وزرائے اعظم کی
طرح ہی ہو گا اور کیاجمہوریت پاکستان میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی ؟اگر
ہم اس معرکے کے کرداروں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانگی ہوتی
ہے کہ اس جمہوری جنگ میں ایک طرف مسلم لیگ لیگ (ن) اور ان کے حواری مولانا
فضل الرحمان،میر حاصل بزنجو،،محمود خان اچکزئی اور اسفند ولی یار ہیں جو
جمہوری نظام کاتسلسل چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ
جماعتیں پی ٹی آئی،مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی ہیں جو
اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کو حرفِ آخر تصور کرتی ہیں ۔۔اس میں کوئی دو رائے
نہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو حکومت کسی تحفہ میں نہیں ملی تھی بلکہ عوام
نے ان پر ووٹوں کی بارش کی تھی ۔انتخابی دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر
عمران خان نے وزیرِ اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کیلئے اگست ۲۰۱۴
میں پاکستان کے اس طویل ترین دھرنے کا آغاز بھی کیا جو ۱۲۶ دن جاری رہا ۔اس
دھرنے سے امید بندھی تھی کہ پاکستان میں شفافیت اور جوابدہی کا نیا نظام
ابھرے گا اور عوام آئین و قانون کی بالا دستی کو محسوس کریں گے لیکن ایسا
کچھ بھی نہ ہوا بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر مزید تواناہوگیا ہے ا ۔ا
یمپا ئر کی انگلی نہ اٹھنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا دھرنا اپنی افادیت کھونے
لگا تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جو انتخابات میں
دھاندلی کی تحقیقات کرے لہذاسپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک کمیشن
تشکیل دیا گیا لیکن پی ٹی آئی دھاندلی ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔وہ
ایسے ثبوت اور شواہد عدالت کو دینے میں ناکام ہو گئی جس پر عدالت پی ٹی آئی
کے موقف کو درست تسلیم کر لیتی لہذا پی ٹی آئی کی پٹیشن خارج کر دی
گئی۔پٹیشن خارج ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کوئی ایسا نعرہ نہیں بچا تھا
جس پر وہ اپنی سیاست کو ایک دفعہ پھر فعال کر سکتی۔ اپنی پٹیشن کے خا رج
ہونے سے اس کی مقبولیت کو کاری ضرب لگی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا
سکتاہے کہ اس کے بعد جتنے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں پی ٹی آئی کسی ایک
نشست پر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔کراچی کے ضمنی انتخا ب میں بھی اسے بہت
کم ووٹ ملے حالانکہ ۲۰۱۳ کے نتخابات میں وہ کراچی کی دوسری بڑی جماعت بن
کر ابھری تھی۔ پی پی پی نے کراچی کا ضمنی الیکشن جیت کر ثابت کیا ہے کہ
سندھ میں وہ ہر جماعت کو بچھاڑنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
وقت عمران خان پر مہربان ہوا اور پانا لیکس کا جن بوتل سے باہر آ گیاجس سے
پی ٹی آئی کو ایک ایسا نعرہ ہاتھ آ گیا جس نے اس کے تنِ مردہ میں ایک دفعہ
پھر جان ڈال دی۔ کیا پاناما لیکس عالمی سازش ہے یا اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت
پر شب خون مارنے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے ابھی تک طے ہونا باقی ہے۔ اس
بات کی طے تک پہنچنے کیلئے ہمیں ان جماعتوں کے کردار کو زیرِ بحث لانا ہو
گا جو میاں محمد نواز شریف کے خلاف کھڑی ہیں ۔ حکومت کی مخالفت اپوزیشن کا
حق ہے لہذا اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی آئی جنرل
پرویز مشرف کے قریب تصور ہوتی تھی اور جنرل پرویز مشرف سے عمران خان کی
ملاقاتیں کوئی سر بستہ راز نہیں ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم میں
انھوں نے ان کی کھل کھلا کر حمائت کہ تھی اور اس بات کا اعتراف انھوں نے
اپنی تقاریر میں خود بھی کئی بار کیا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے عمران خان کو
وزیرِ اعظم بنانے کا وعدہ بھی کر رکھا تھا لیکن عین وقت پر گجرات کے
چوہدریوں نے اکھاڑے میں چھلانگ مار کر سارے منصوبے کو غارت کر دیا تھا ۔اس
وعدہ خلافی کی وجہ سے عمران خان کے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعلقات کشیدہ
ہو گئے تھے اور وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جا ملے تھے ۔۲۰۰۸ کے
انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی مسلم لیگ (ن) سے یکجہتی کی ایک کڑی تھی ۔محترمہ
بے نظیر بھٹو کی ترغیب پر میاں محمد نواز شریف نے ۲۰۰۸ کے انتخابات میں
حصہ تو لے لیا لیکن عمران خان اور محمود خان اچکزئی سے ۲۰۰۸ کی بس چھوٹ
گئی تھی جس کا انھیں بڑا قلق تھا۔،۔
گجرات کے چوہدریوں کے بارے میں سب کو علم ہے کہ مسلم لیگ (ق) جنرل پرویز
مشرف کے زیرِ سایہ بنی تھی اور مسلم لیگ (ق) کے سارے فیصلے جنرل پرویز مشرف
ہی کرتے تھے ۔وزیرِ اعظم میرظفر اﷲ جما لی اور پھر شوکت عزیز کی بحثیتِ
وزیرِ اعظم نامزدگی بھی جنرل پرویز مشرف کا ہی فیصلہ تھا حالانکہ جماعت کے
سربراہ چوہدری شجاعت حسین تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کی وردی جب سپریم کورٹ میں
وجہِ تنازعہ بن گئی تو چوہدری پرویز الہی کو بیان دینا پڑا کہ ہم جنرل
پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کریں گے ۔ چوہدری پرویز الہی کے
یہ جملے پاکستانی سیاست میں ناقابلِ فراموش رہیں گے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے
کہ چوہدریوں کیلئے فوجی جنتا کے سائے میں سیاست کرنا کتنا آسان ہے ۔ ان کے
اقتدار میں آنے کی راہ فوجی چھتری ہے لہذا و ہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ر سیاست
کا تصور نہیں کر سکتے۔ جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی جماعت مسلم لیگ (ق) کو
جب ۲۰۰۸ کے انتخابات میں حسبِ توقع نشستیں نہ ملیں اور این آر کے مطابق
وردی اتار دی تو پھر چوہدری برادران نے بھی آنکھیں دکھانی شروع کر دیں جس
سے مسلم لیگ (ق) پر جنرل پرویز مشرف کی گرفت کمزور پڑ گئی ۔اب سپہ
سالارشفاق پرویز کیانی تھے لہذا چوہدری برادران کی سوچ میں تبدیلی کو
بآسانی سمجھا جا سکتا تھا۔۔شیخ رشید احمد فوج کے ترجمان سمجھے جاتے
ہیں۔جماعت اسلامی فوج کا بغلی بچہ ہے لہذا ان سب نے جس طرح پانا ما لیکس پر
آسمان سر پر اٹھایا تھا وہ اسٹیبلشمنٹ کی سازشی تھیوری کو تقویت بخش رہا ہے
۔ان جماعتوں کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی طالع آزما ان کے دل میں پلنے
والی خواہشات کو حقیقت کا جامہ پہنا دے۔شیخ رشید جنرل ضیا الحق، مسلم لیگ (جونیجو)
،مسلم لیگ (ن)،جنرل پرویز مشرف ،مسلم لیگ (ق) کا ہراول دستہ رہے ہیں۔میاں
نواز شریف پر اس وقت جتنے الزامات ہیں وہ اس دور کے ہیں جب شیخ رشید ان کے
ہمنوا اور دست وبازو تھے لہذا کرپشن کی کہانی سے وہ بھاگ نہیں سکتے۔ اس وقت
تو وہ نواز شریف کی محبت اور پی پی پی کی مخالفت میں محترمہ بے نظیر بھٹو
کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کیاکرتے تھے جھنیں صفحہ قرطاس پر اتارنے کیلئے
قلم بھی آمادہ نہیں ہوتا لیکن آج وہی کرپشن کے خلاف مورچہ زن ہیں۔سوال
کرپشن کا نہیں ہے بلکہ اس اقتدار کا ہے جو شیخ رشید سے روٹھ چکا ہے۔انھیں
کل اپنی نشست جیتنے کیلئے میاں محمد نواز شریف کی ضرورت تھی جبکہ آج عمران
خان کا کندھا درکار ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے اقتدار کے حصول کیلئے یکجا ہیں
لیکن نعرہ کرپشن کے خاتمے اور شفافیت کا ہے۔کرپشن کا خاتمہ میاں محمد نواز
شریف کی نا اہلی میں مضمر نہیں ہے بلکہ ان قوانین کے نفاذ میں ہے جسے نافذ
کرنے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔شورو غوغہ تھم جائیگا تو پھر وہی شب و
روز ہوں گے ، وہی ہم ہوں، ہماری اشرافیہ ہوگی اور عوام کی بد بختی ہوگی۔ہم
نے ایسے تماشے ماضی میں بھی دیکھے تھے اور آئیندہ بھی دیکھیں گے ۔عوام کے
ٹھکرائے ہوئے سیاستدان پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن
انھیں منہ کی کھانی پڑیگی کیونکہ عوام باشعو ہیں اور جمہوریت کے تسلسل میں
پاکستان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں ۔ ، ۔ |