کشمیر کے بارے میں نامزد بھارتی حکومت کے نمائندے دنیش
شرما کے اس دورے سے پہلے امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیا بیورو کے سیاسی شعبے
کے سربراہ جوزوا گولڈ برگ نے نئی دہلی میں متعین امریکی سفارت کار ڈیوڈ
ارولاناتھم کے ساتھ سرینگر کا دورہ کیا۔امریکی حکام کے اس دورے سے یہ بات
سامنے آئی کہ بھارت کی طرف سے مزاکراتی نمائندے کے تقرر کے معاملے میں
امریکی حکام گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔امریکی عہدیدار اور سفارت کار نے
سرینگر میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال کیا
ہے اور بھارتی مزاکراتی نمائندے کی طرف سے مزاکرات کے امکانات کیا
ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ جوزوا گولڈ برگ اور ڈیوڈ ارولاناتھم نے سرینگر میں
ایک رات قیام کیا ۔گولڈ برگ اوررولاناتھم کے سرینگر کے اس دورے سے ایک دن
پہلے ہی امریکہ کے سیکرٹری دفاع جم میٹس نئی دہلی پہنچے اور یہ ٹرمپ
انتظامیہ کی طرف سے وزارتی سطح پر بھارت کا پہلا رابطہ ہے۔ امریکی عہدیدار
اور سفارت کار نے سرینگر کا دورہ کرتے ہوئے وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے تین
وزرائ،دو صحافیوں اورانسانی حقوق کی ایک تنظیم کے نمائندے خرم پرویز سے
ملاقات کی۔میڈیا کے مطابق ملاقات کرنے والوں میں سے ایک نے بھارتی میڈیا کو
بتایا کہ امریکی عہدیدار اور سفارت کار یہ جاننا چاہتے تھے کہ بھارت کی طرف
سے شروع کئے گئے مزاکراتی عمل کا کشمیر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے یا نہیں
اور کیا کشمیر کی زمینی صورتحال بات چیت کیلئے موزوں ہے یا نہیں۔بھارتی
میڈیا کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کی پشت پناہی پر ہی
بھارتی حکومت نے مزاکراتی نمائندے کا تقرر کیا ہے۔نئی دہلی میں امریکی
سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہامریکہ پالیسی معاملے کے تحت مطابق بھارت
کی تمام ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کی صورتحال جاننا چاہتا ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کے ایک سابق افسر کو
مقبوضہ کشمیر کے لئے مزاکراتی نمائندے کے تقرر سے ہی یہ بات واضح ہو چکی
تھی کہ یہ اقدام مسئلہ کشمیر حل کرنے یا کشمیریوں کی تشویش کے امور کے
حوالے سے نہیںبلکہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تقویت دینے کی ایک
کوشش ہے۔بھارتی مزاکراتی نمائندے دنیش شرما نے سرینگر کا دورہ کرتے ہوئے
بھارت نواز افراد سے ملاقات کی جبکہ حریت کانفرنس سمیت مختلف عوامی شعبوں
کے نمائندوں نے بھی بھارتی نمائندے سے ملاقات کرنے سے انکار کیا۔دنیش شرما
نے سرینگر کے دورے کے بعد کہا ہے کہ وہ عنقریب ریاست کا دوبارہ دورہ کریں
گے اور انہیں توقع ہے کہ اگلی بار آزادی پسندوں سے بھی ملاقات ہو گی۔شرما
کا یہ بھی کہنا ہے کہ '' ہم دیکھیں گے کہ حالات کو کیسے مثبت موڑ دیا
جائے''۔ دلچسپ بات ہے کہ جموں میں دنیش شرما سے ملاقات کرنے والے کشمیری
پنڈتوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر(آزاد کشمیر) پر بھارت
قبضہ کرے اور وادی کشمیر کے اندر اقلیتی ہندوئوں کے لئے ایک الگ ''وطن''
قائم کیا جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی امریکہ کی طرف سے یہی بیان
سامنے آتا رہا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل اور کشیدگی میں کمی کے لئے
پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اگر
دونوں ملک رضامند ہوں تو وہ ثالثی کے لئے بھی تیار ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے
لئے امریکہ ثالثی سے بھارت ہر مرتبہ انکار اور پاکستان حمایت کرتا چلا آرہا
ہے۔تاہم اب امریکہ کی طرف سے کشمیر کے بارے میں بھارت کے مزاکراتی نمائندے
کی پشت پناہی سے س بات کا عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر بھارت کے حق
میں حل کرانے کے لئے سرگرم ہو رہا ہے۔بھارت کے سرکاری ذرائع کا یہ کہنا کہ
بھارت کے مزاکراتی نمائندے کی تقرری کے عمل میں امریکہ کی بھی پشت پناہی
شامل ہے۔امریکہ اور بھارت کے درمیان سٹریٹیجک پارٹنر شپ قائم ہونے اور
امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف بھارت کو استعمال کرنے کے تناظر میں یہ بات
بعد از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ امریکہ کشمیریوںکے حق میں انسانی ہمدردی کے
اصولوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کر سکتا ہے۔پہلے بھی امریکہ کی کشمیر
پالیسی بھر پور طور پر بھارت کے حق میں چلی آ رہی تھی اور اب بھارت کے لئے
امریکی حمایت بہت ہی بڑھ چکی ہے۔سات عشروں سے بھارت کے بدترین مظالم کا
نشانہ بننے والے کشمیریوں کے لئے امریکہ کا یہ کہنا انسانیت سوز مذاق ہے کہ
کشمیری کیا چاہتے ہیں۔شاید ہر چند سال گزرنے کے بعد امریکی عہدیدار اور
سفارت کار سرینگر کا دورہ کرتے ہوئے ''زمینی حقائق اور کشمیریوں کی رائے''
معلوم کرنے کے نام پر یہ چیک کرتے ہیں کہ کشمیریوں نے بھارت کے خلاف ہتھیار
پھینک دیئے ہیں یا نہیں اور کیا وہ اپنے حقوق سے دستبردار اور تائب ہو چکے
ہیں یا نہیں۔
گزشتہ دنوں ہی پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے
امریکی ثالثی کے ایک بیان کا خیر مقدم کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ
امریکہ کی بھارت کے حق میں تبدیل ہوتی ہوئی پالیسی کے باوجود پاکستان نے
اپنا ''قبلہ'' تبدیل نہیں کیا ہے۔پاکستان نے روس اور ایران کے ساتھ رابطے
تو کئے ہیں لیکن روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں امریکہ کو ناراض نہ کرنے
کی'' حکمت عملی'' بھی واضح طور پر نظر آ تی ہے۔کچھ ہی عرصہ قبل پاکستان نے
امریکہ کی ایماء پر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائین منصوبے کو ختم کرنے کی
طرح کے تعطل میں ڈالا ۔روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں نمایاں اضافہ نہ
کرنے کے اقدامات سے امریکہ کو راضی رکھنے کی پالیسی اب پاکستان کے لئے''
وبال جان'' بنتی جا رہی ہے۔اگرپاکستان نے امریکہ پہ '' کلی انحصار''کی
پالیسی ترک نہ کی اور امریکہ سے اپنے بڑے مسائل کے حل کی توقعات وابستہ
رکھیں تو پاکستان کی یہ پالیسی اور حکمت عملی ملک اور عوام کے لئے تباہ کن
نتائج پر منتج ہونے کے خطرات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ہمارا ایک المیہ
یہ بھی ہے کہ ملک میں حاکمیت کے لئے سازشوں ،خلفشار اور انتشار کے '' تانے
بانے'' بنتے ہوئے ملک کی ترقی اور استحکام کے خواب بھی عوام کو دکھائے جاتے
ہیں۔ |