غصہ نہ کریں یہ صحت کے لیئے مضر ہے

غصہ آنا ایک فطری عمل ہے۔ دیکھنے میں آیا اگر کوئی بات کسی کے مزاج کے خلاف ہو تو وہ غصے میں آجاتا ہے۔اور پھر اس کو اپنے اردگرد کا ہوش نہیں رہتا۔اور بات قتل وغارت تک جا پہنچتی ہے۔غصے کی بھی کئی حالتیں ہوتی ہیں کچھ لوگ محض گالم گلوچ کرتے،بعض توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔آخر غصہ آتا کیوں ہے۔اسکی بہت سی وجوہات ہیں۔غصہ موسم کی تبدیلی زیادہ گرمی سے بھی آتا ہے۔ مزاج کی تبدیلی اور اس کے علاوہ موروثی طور پر بھی یہ بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وجوہات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے غصہ صحت کے لیئے نقصان دہ ہے۔ ذرا سوچیئے سخت گرمیوں میں ٹریفک جام ہو جائے اور آپ دھوپ اور گرمی میں موٹر سائیکل یا گاڑی میں سوار ہوں تو اس وقت آپ کو رہ رہ کر غصہ آئے گا جب کوئی پیچھے سے آپ کو ہارن مارے اور کوئی گاڑی راستہ لینے کی کوشش کرے گی تو یوں آپ کا پارہ بھی گاڑی سے نکلتے ہوئے دھویں کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دباؤ اور پریشانی بھی بڑھے گی۔ماہرین کا خیال ہے کہ پریشانی اور دباؤ کے بعد انسان کے دماغ میں لاوا پکنے لگتا ہے اور آخر وہ پھٹ پڑتا ہے۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ انسان غصے کی آخری حد پار کر جائے گا۔ اور غصے کے لاوے میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ غصہ آنے میں بہت حد تک ہماری زندگیوں میں آنے والی تیزی کا بھی ہاتھ ہے۔ترقی نے جہاں انسان کے لیئے سہولتیں فراہم کی ہیں وہیں اس ترقی کی بدولت انسان کی زندگی مشینی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ہر انسان افراتفری میں نظر آتا ہے، کسی کو دفتر جانے کی جلدی ہوتے ہے تو کوئی جلدی سکول کالج جانا چاہتا ہے۔ اگر اس کو مقررہ جگہ جانے میں دیر ہونے لگے تو وہ غصے میں آجاتا ہے۔ مصروفیات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اگر اس کی روٹین میں خلل پڑے تو وہ غصے میں آجاتا ہے۔اگر کوئی آدمی صبح بیڈ ٹی لینے کا عادی ہو اور اسے کسی روز مقررہ وقت پر اس کی مطلوبہ چیز نہ ملے تو وہ غصے میں آجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق غصہ آنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں تشدد پر مبنی فلمیں بھی ہیں۔ لوگ تفریح کے لیئے فلمیں دیکھتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ پریشانی میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے اور پھر معمولی بات پر بھی غصہ آ جاتا ہے۔ یہ رحجان پوری دنیا میں ہے، صرف ہمارے ہاں ہی لوگ ایک دوسرے سے دست و گربیان نہیں ہوتے بلکہ امریکہ جیسے ملک میں ہر سال سڑکوں پر آنے جانے والوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کی تعداد چار سو ملین ہے۔ ان تمام چیزوں کے پچھے اصل چیز غصہ ہے۔جونہی غصہ آتا ہے انسا ن آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں میں موروثی طور پر بھی غصہ عود آتا ہے، اگر کسی کے ماں یا باپ کو غصہ آتا ہے تو یہ عادت بچے میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کے سامنے غصہ کرتے ہیں ان کے بچے بھی وہی روش اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اچانک غصہ آتا ہے ،لیکن جیسے ہی وہ نارمل ہوتے ہیں اُنکا مزاج ٹھیک ہونے لگتا ہے اور وُہ معافی بھی مانگ لیتے ہیں اور اپنے سے ناراض لوگوں کو منا بھی لیتے ہیں۔ لوگ ان کی اس عادت سے واقف ہوتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر جن شوہروں کو اپنی بیویوں پر غصہ آتا ہے وہ نہ جانے کیا کچھ بک جاتے ہیں۔ لیکن اگر بیوی عقلمندی کا ثبوت دیکھاتے ہوئے خاموش ہو جائے تو اس کے شوہر کا غصہ جھاگ کی طرح اُتر جاتا ہے۔ تو وہ ان کو غلطی کا احساس دلاتی ہے کہ آپ نے زیادتی کی ہے لیکن ہر گھر کی کہانی مختلف ہوتی ہے اور میاں بیوی کے جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ موسم بھی لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بہت گرم موسم اور سرد موسم غصے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت تقریباً چار فیصد امریکی غصے کی عادت کا شکار ہیں۔ غصہ بیماری ہرگز نہیں نہ ہی اس کے علاج کے لیئے کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے کوشش کریں کہ ان حالات اور اشیا سے بچیں جو کہ غصے کا باعث بنتے ہوں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 12 Articles with 19704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.