مغربی بنگال میں شعراء کے علاوہ شاعرات بھی ہر زمانے میں
اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی ہیں۔ کچھ شاعرات محافلِ سخن میں شریک ہوتی
رہیں اور داد و تحسین سے بھی نوازی جاتی رہیں۔ لیکن کچھ شاعرات ایسی بھی ہر
عہد میں نظر آئیں جن کا تعلق چھپنے چھپانے تک محدود رہا اور مشاعروں کی
محفلوں میں انہیں نہیں دیکھا گیا۔ ایسی شاعرات عہدِ ماضی میں بھی تھیں اور
عہدِ حاضر میں بھی موجود ہیں۔ جن میں ایک خوش فکر شاعرہ نادرہ نازؔ کا نام
شامل ہے۔ نازؔ مشاعروں کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتیں لیکن شعر گوئی کے عمل
کو جاری رکھتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ
ایک مہذب خاتون ہیں اور آپ کے شوہر نامدار بھی بحیثیت وکیل اپنی شناخت
رکھتے ہیں۔
نادرہ نازؔ نے طالب علمی ہی کے زمانے سے شعر کہنا شروع کیا۔ وہ جو کچھ
محسوس کرتی ہیں اسے برزبانِ شعر ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ زمانے کے حالات
انہیں اس قدر متاثر کرتے ہیں کہ بغیر کہے وہ نہیں رہ سکتیں۔ ان کی شاعری
میں غمِ زمانہ بھی ہے اور غمِ محبت بھی۔ جس کا اندازہ ان کی غزلوں کے اشعار
سے کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اشعار جو حالاتِ زمانہ کی عکاسی کرتے
ہیں پیش کئے جاتے ہیں۔
ہم کو تو راہبر نے لوٹا ہے
کس سے لٹنے کا ہم گلہ کرتے
بے بسی ہی بے بسی ہے
زندگی میں کب خوشی ہے
اونچے مکان والوں کو شاید خبر نہیں
ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں رہنے کو گھر نہیں
غیرت کا احساس ہے جب تک
ہاتھ کبھی وہ کیوں پھیلائے
کیسا ہے وہ شہرِ خموشاں
جاکر واپس کوئی نہ آئے
مسکراتے ہوئے پھولوں سے مہکتا ہے چمن
ظالمو! تم انہیں اس طرح مٹایا نہ کرو
لیکن نادرہ نازؔ صرف غمِ زمانہ کا رونا نہیں روتیں بلکہ غمِ محبت بھی انہیں
جب ستاتا ہے تو وہ شعر گوئی پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ غمِ محبت کی بھی مختلف
قسمیں ہیں۔ کبھی اپنا غم، کبھی رفیق حیات کا غم اور کبھی چاہنے والوں کاغم۔
ان تمام غموں کو جب وہ اپنے اشعار میں جگہ دیتی ہیں تو ان کی غزلیں عشق کی
ترجمان بن جاتی ہیں جن میں درد کی لذت بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور
پر ان کے ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں دل کی دھڑکنیں سانس لیتی ہیں۔
تنہائی سے دل گھبرائے
محفل میں بھی چین نہ آئے
دل کے آنگن میں چھائی رہی تیرگی
اور میں چاندنی میں نہاتی رہی
مری نگاہ نے سب راز کر دیئے ظاہر
چھپایا دردِ جگر ، چشمِ تر چھپا نہ سکی
ہوگئے ختم سارے شکوے گلے
تم نے جو مسکرا کے دیکھ لیا
رہوں گی پاس میں ہردم تمہارے
تمہیں تنہا کبھی ہونے نہ دوں گی
تری تصویر آنکھوں میں بساکر
میں سب کچھ بھول جانا چاہتی ہوں
لیکن نادرہ ناز خانہ داری کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے سب کچھ بھولنا
چاہتے ہوئے بھی غزل کہنا نہیں بھولتیں۔ شب و روز کی مصروفیت سے کچھ وقت
نکال کر کچھ نہ کچھ اشعار وہ کہتی رہتی ہیں جس سے اُن کے ذوقِ شعر گوئی کو
تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ اُن کا ذوقِ شعر گوئی صرف اُن ہی کے حق میں باعثِ
تسکین نہیں ہوتا بلکہ قارئین کو بھی اُن کے اشعار متاثر کرتے ہیں۔ نمونے کے
طور پر مزید چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اشک بہتے تو یہ توہینِ محبت ہوتی
دامنِ ضبط جو تھاما تو نہ چھوڑا ہم نے
عشق کا دعویٰ تو کرتا ہے زمانہ اے نازؔ
عشق سچا تو کتابوں میں ہی پایا ہم نے
یاد آتا ہے ہمیشہ وہ
جو نظر سے دور رہتا ہے
رات دن کام میں ہم رہے منہمک
زندگی وقت کے ساتھ چلتی رہی
رات دن رِستا ہی رہتا ہے
زخم جب ناسور ہوتا ہے
نادرہ نازؔ کہ یہ خوش قسمتی ہے کہ جناب حلیم صابرؔ جیسے استاذ شاعر سے
انہیں شرفِ تلمذ حاصل ہے جن کی آغوش تربیت میں ان کی شاعری پروان چڑھی اور
انہیں اپنا مجموعۂ کلام پیش کرنے کا حوصلہ ملا۔ علاوہ ازیں ان کے شوہر شاہد
پرویز کی رفاقت و محبت نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی جس کے سبب ان کا یہ
مجموعہ کلام ’’نازِ سخن‘‘ منصہ شہور پر آکر قارئین ادب سے خراج تحسین حاصل
کررہا ہے۔ امید ہے کہ دنیائے ادب میں ان کا مجموعۂ کلام مقبولیت کا شرف
حاصل کرے گا۔اخیر میں میں ان کے چند اشعار پیش کرنا چاہوں گا جو مجھے پسند
ہیں۔
شمع نے کیا کیا نہ بدلا اپنا رنگ
تھے جو پروانے وہ پروانے رہے
عشق سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں
عشق میں دل کا نہ سودا کیجئے
دوستوں سے تو پیار کرتے ہو
دشمنوں سے بھی تھوڑا پیار کرو
جب ملا ایک لمحہ خوشی کا
سارے غم یاد آنے لگے ہیں
کیا بھروسہ کیجئے دل کا
دل تو غم سے چور ہوتا ہے |