موذی بیماریاں ٗ زہریلی خوراک اور فوڈاتھارٹی کی نااہلی

میرے گھر کے سامنے ایک دوست رہتا ہے جس کی بیوی کو کینسر ہے ۔میں نے اسے اکثر لوگوں کے درمیان میں کھڑے ہوئے بھی گہری سوچوں میں ڈوبے دیکھا ۔ میرے ساتھ نماز پڑھنے والے کرامت اﷲ ایک دن بہت پریشان تھے ٗ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی توان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور بولے میرے بھتیجے کے گردے فیل ہوگئے وہ چلڈرن ہسپتال میں داخل ہے ۔ڈیلسز کے دوران بچے کے بازو کی نس پھٹ گئی جس سے خون کا فوارہ اٹھا اور وہ بے ہوش ہوگیا ڈاکٹروں نے بازوکا آپریشن کردیا۔چند دن بعد جب وہ بچہ ہوش میں آیا تو اس کی چیخیں سنی نہیں جاتی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا مجھے زہرکا ٹیکہ لگاکر مار دو۔ میں یہ اذیت ناک زندگی نہیں جینا چاہتا ۔ چار ماہ زیر علاج رہنے کے بعد بالاخر وہ بچہ موت کی نیند سو گیا ۔اس کی موت پر پورا خاندان سوگوار ہے ۔ عارف والا پاک پتن کا نواحی شہر ہے وہاں میرا ایک خالہ زاد بھائی سہیل اختر رہتا ہے ۔ قابل رشک صحت کا مالک شخص اچانک بیمار ہوگیا۔ عارف والا کے ڈاکٹروں کو مرض کا پتہ نہ چلا تو اسے لاہور لایا گیا ۔ ٹیسٹوں سے پتہ چلاکہ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوچکا ہے ۔ وہ بیچارا کاروبار بھول گیا اور اب جگہ جگہ کینسر کے علاج اور شفا کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے ۔یادر ہے کہ موبائل ٹاور اس کے گھر کے بالکل قریب نصب ہے جس کی کینسر شدہ ریز نے ان پر اثر کیا اور یہ موذی بیماری لاحق ہوئی ۔ شالیمار ٹاؤن کاایک 35 سالہ نوجوان محمد سلیمان چار سال سے گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے ۔ سو سے زیادہ بار ڈیلسز کرواچکا ہے ۔جسم کے جس حصے پر ڈیلسز کی نالی لگتی ہے وہ جگہ پھوڑے کی شکل بن جاتی ہے اس کے بازو اور گردن کے نیچے تازہ زخم کے نشان دیکھے نہیں جاتے ۔ ہفتہ میں دو بار ڈیلسز اس کی مجبور ی ہے ۔ ڈاکٹروں نے اس کی صحت مند زندگی کا ایک ہی حل بتایا کہ وہ گردہ تبدیل کروائے ۔ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کی اجازت شیخ زید ہسپتال میں گردہ تبدیلی کا آپریشن ہوچکاہے۔وہ ایک ماہ ہسپتال میں رہے گااور کسی سے بھی ملاقات نہیں کرسکتا۔جبکہ معالجین کی جانب سے تین مہینے گھر کے ایک کمرے تک محدود رہنے کی ہدایت ہے۔ توبہ توبہ بیماری تو اذیت ناک تھی لیکن علاج اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔ موذی بیماریوں میں مبتلا ان چند افرادکا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ فوڈ اتھارٹی سمیت تمام انتظامی ادارے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور موذی بیماریوں نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ دن دورنہیں جب موذی بیماریاں ہر گھروں کے دروازے پر بھی دستک دے رہی ہوں گی ۔وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ہماری حکومت دس لاکھ موذی امراض کے مریضوں کو مفت ادویات فراہم کررہی ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر شہباز شریف ایسے عوامل اور عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے جو موذی بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں اور زہریلی خوراک فراہم کرنے والے اداروں ٗ عناصر اور ملاوٹ کرنے والوں کا چالان کرنے یا جرمانہ کرنے کی بجائے قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں سزائے موت یا عمر قید دی جاتی ۔ یہ بات بھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں ڈسکس ہوچکی ہے کہ برائلر مرغی کی خوراک میں زہر یعنی سنکھیا کا عنصر بھی پایاجاتا ہے اگر یہ حقیقت ہے تو پھر برائلر گوشت کی فروخت بند کیوں نہیں کردی جاتی ۔ بڑا گوشت ہو یا چھوٹا ٗ ڈاکٹروں کی مہریں قصائی نے خود بنارکھی ہیں جو مردہ اور بیمار جانوروں پر لگا کر ان کاگوشت سرے عام فروخت کررہے ہیں ۔ تمام کولڈ ڈرنکس اور جوسز اور ڈبہ بند دودھ میں کیمیکل کھاد اور دیگر خطرناک اجزاء کی ملاوٹ کی کئی رپورٹیں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ایسے زہریلے کولڈڈرنکس کو مارکیٹ میں فروخت کیوں کیے جا رہے ہیں ۔ آجکل لاہورمیں دودھ کی فروخت بہت منافع بخش کا روباربن چکا ہے ۔ ایک نجی ٹی وی پر میں نے خود دیکھا کہ کیمیکل کو ملاکر دودھ تیار کیا جارہا ہے اور اسی جعلی اور مضر صحت کیمیکل کو دود ھ کانام دے کر لاہور میں سپلائی کیاجارہاہے ۔ ایسے مکروہ لوگ جرمانہ بھر کر آزاد ہوجاتے پھر وہی دھندہ شروع کردیتے ہیں ۔ جگہ جگہ نصب موبائل ٹاور ٗ کینسر کی شعائیں چھوڑ رہے ہیں اور حکومت جاننے کے باوجود خاموش کیوں ہے ۔ پانی جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اگر وہ بھی حکومت صاف فراہم نہیں کرسکتی تو پھر حکومت اورانتظامی اداروں کا جواز کیا رہ جاتاہے ۔ سرخ مرچوں میں اینٹوں کی سرخ کیری اور جانوروں کی چربی سے گھی اور کوکنگ آئل بنانے کے کتنے ہی کارخانے پکڑے جا رہے ہیں۔پھر ایسے مکروہ لوگوں کو یہی کام کی کھلی چھوٹی کیوں دی جاتی ہے ۔ عرب ممالک میں اگر کسی کمپنی کی کوئی چیز غیر معیاری ہو تو اس کمپنی کو ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ اور مالکان کی گردن تن سے جدا کردی جاتی ہے ۔ مگر پاکستان میں صرف جرمانے اور فیکٹریوں کو سیل کرکے ہی دوبارہ جرم کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔ یہ بات حکمرانوں اور انتظامی افسروں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیئے کہ اگر عوام ملاوٹ شدہ اور زہر ملی اشیاء کھانے سے موذی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں تو یہی موذی بیماریاں حکمرانوں اور نااہل رشوت خور افسروں سے بھی دور نہیں ہیں ۔ کبھی نہ کبھی ان کی بھی باری آنے والی ہے ۔بہتر ہوگا کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ملاوٹ کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیاجائے تاکہ آئندہ کوئی ملاوٹ کرنے کی جرات نہ کرے ۔ جرمانے اور دکانیں سیل کرنے کی روایت اب ختم ہونی چاہییے۔یہ کام فوڈ اتھارٹی کا ہے کہ وہ مرغی کا گوشت اور کولڈ ڈرنکس و جوسزٗ جگہ جگہ بکنے والا کھلا اور پیکٹ والے دودھ ٗ کو اپنی لیبارٹری میں ازخود چیک کرے اوراس وقت تک کوئی بھی کھانے پینے والی اشیاء مارکیٹ میں فروخت نہیں ہونی چاہیئے جس پر فوڈ اتھارٹی کی مہر نہ ہو۔بد قسمتی سے تمام سرکاری اداروں کی طرح فوذ اتھارٹی بھی وہ اقدامات نہیں کررہی جو اسے صحت مندمعاشرہ قائم کرنے کے لیے کرنے چاہیئیے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.