آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے مکان پر پہنچا تو دیکھا
کہ ایک صاحب میرے منتظر ہیں اور میرے اس سوال پر کہ بلا اجازت مکان میں تم
کیوں داخل ہوئے۔ فرمایا کہ میں خضر ہوں۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ پھر میرے
لئے دعا فرما دیں تو آپ نے کہا کہ اللہ تیرے لئے عبادت کو آسان کر دے اور
تیری عبادت کو تجھ سے بھی پوشیدہ رکھے۔
کسی نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ہزار درہم ہیں اور میں حج کا خواہش مند ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ یہ رقم کسی مقروض کے قرض میں دے دو یا یتیموں اور مفلس
عیال داروں میں تقسیم کر دو تو تمہیں حج سے بھی زیادہ ثواب ملے گا لیکن اس
نے کہا کہ مجھے حج کی بہت خواہش ہے فرمایا کہ تم نے ناجائز طریقے سے یہ رقم
حاصل کی ہے اس لئے تو ثواب کا خواہش مند بننا چاہتا ہے۔
ایک دن آپ نے قبرستان میں مردوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر اللہ تعالی سے عرض
کیا کہ یہ راز مجھے بھی معلوم ہو جائے اور جب میں نے ان مردوں سے پوچھا تو
انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل کسی شخص نے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب
ہمیں بخش دیا تھا اور آج پورے ایک ہفتہ سے ہم اس کی تقسیم میں مصروف ہیں
لیکن ابھی تک وہ ختم نہیں ہوا۔
آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں ایک مرتبہ خواب میں خضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی زیارت سے مشرف ہوا تو حضور نے پوچھا کہ اے بشر ! کیا تجھے علم ہے کہ
تیرے دور کے بزرگوں سے تیرا درجہ بلند کیوں کیا گیا؟ میں نے عرض کیا کہ
مجھے تو معلوم نہیں فرمایا کہ تو نے سنت کا اتباع کرتے ہوئےبزرگوں کی تعظیم
کی اور مسلمانوں کو راہ حق دکھاتا رہا اور میرے اصحاب اور اہل بیت کو تو نے
ہمیشہ محبوب رکھا ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے تجھے یہ مرتبہ فرمایا پھر دوبارہ
جب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو کی زیارت سے مشرف ہوا
تو عرض کیا مجھے کوئی نصیحت فرما دیں اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
امراء حصول ثواب کے لئے فقراء کی جو خدمت کرتے ہیں وہ تو پسندیدہ ہیں لیکن
اس سے زیادہ افضل یہ ہے کہ فقراء کبھی امراء کے آگے دست طلب دراز نہ کریں
بلکہ خدائےتعالی پر مکمل بھروسہ رکھیں۔
آپ اکثر فرمایا کرتے کہ جب تک پانی رواں رہتا ہے صاف رہتا ہے اور جب رک
جاتا ہے گدلا اور کیچڑ جیسا ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ جو دنیاوی عزت چاہتا ہے
اسے تین چیزوں سے کنارہ کش رہنا چاہیے ۔ اول مخلوق سے اظہار حاجت کرنا دوم
دوسروں کے عیب نکالنا سوم کسی مہمان کے ہمراہ جانا۔ فرمایا کہ دنیاوی نمود
کا خواہش مند لذت آخرت سے محروم رہتا ہے۔ فرمایا کہ قانع رہنے سے صرف دنیا
ہی میں عزت مل جاتی جب بھی قناعت بہتر تھی پھر فرمایاکہ یہ تصور کرنا کہ
لوگ ہمیں بہتر سمجھیں محض حب دنیاکا مظہر ہے اور جب تک بندہ نفس کے سامنے
فولادی دیوار قائم نہیں کر لیتا اس وقت تک عبادت میں لذت و حلاوت حاصل نہیں
کر سکتا فرمایا کہ یہ تین کام بہت مشکل ہیں۔ اول مفلسی میں سخاوت دوم خوف
میں صداقت سوم خلوت میں تقوی۔ فرمایا کہ تقوی نام ہے شکوک و شبہات سے پاک
ہونے اور قلب کی ہمہ وقت گرفت کرنے کا۔ فرمایا کہ اللہ نے بندے کو صبر و
معرفت سے زیادہ عظیم شے اور کوئی نہیں عطا کی اور اہل معرفت ہی خدا کے
مخصوص بندے ہیں اور جو بندہ اللہ کے ساتھ قلب کو صاف رکھتا ہے اس کو صوفی
کہتے ہیں۔ اور اہل معرفت وہ ہیں کہ جن کو سوائے خداکے نہ کوئی جانتا نہ
کوئی عزت کرتا ہے۔ اور جو شخص حلاوت آزادی کے ساتھ ہمکنار ہونا چاہے ان کو
اپنے خیالات پاکیزہ بنانے چاہئیں اور جو صدق دلی کے ساتھ عبادت کرتا ہے وہ
لوگوں سے وحشت زدہ رہتا ہے۔ فرمایا کہ نہ تو مجھے کبھی اہل دنیا میں بیٹھنا
گوارا ہوا اور نہ کبھی انہیں میری صحبت اچھی لگی ۔ کسی نے عرض کیا کہ میں
متوکل علی اللہ ہوں فرمایا اگر تو متوکل ہے تو خدا کے احکام پر بھی یقینا
راضی ہو گا انتقال کے وقت جب آپ شدید مضطرب ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ کیا
ترک دنیا کا غم ہے فرمایا نہیں بلکہ بارگاہ خداوندی میں جانے کا خوف ہے۔
کسی شخص نے آپ کی موت کے وقت جب آپ سے مفلسی کا رونارویا تو آپ نے اپنا
پیراہن اتار کر اس کو دے دیا اور خود دوسرے کا مانگ کر پہن لیا۔
انتقال کے بعد کسی نے خواب میں آپ سے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ فرمایا کہ اللہ
تعالی مجھ سے اس لئے ناراض ہوا کہ تو دنیا میں اس سے اتنا زیادہ کیوں خائف
رہتا تھا اور کیا تجھے میری کریمی پر یقین نہیں تھا؟ پھر اسی شخص نے اگلے
دن خواب میں دیکھ کر جب حال پوچھا تو فرمایا کہ اللہ نے میری بخشش کر دی
اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ خوب اچھی طرح کھا اور پی۔ اس لئے کہ دنیا میں
تو نے ہماری یاد وجہ سے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔
کسی عورت نے امام حنبل رح سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ میں اپنی چھت پر سوت
کات رہی تھی کہ راستہ میں شاہی روشنی کا گزر ہوااور اسی روشنی میں تھوڑا سا
سوت کات لیا اب فرمائیے کہ وہ سوت جائز ہے یا ناجائز یہ سن کر امام صاحب نے
فرمایا کہ تم کون ہو؟ اور اس قسم کامسئلہ کیوں دریافت کرتی ہو؟ اس عورت نے
جواب دیا کہ میں بشر حافی رح کی ہمشیرہ ہوں۔ امام صاحب نے فرمایا تمہارے
لئے وہ سوت جائز نہیں کیوں کہ تم اہل تقوی کے خاندان سے ہو اور تمہیں اپنے
بھائی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ بڑھاتے تو ہاتھ
بھی ان کی پیروی نہیں کرتا تھا۔ |