آج سے 55 برس پہلے --- نومبر 1962 کو اخبار اور رسالے میں
چھپنے والے دو فقرے
ایک فقرے سے میں متفق اور ایک سے متفق نہیں --
پہلا فقرہ "چینی فوج بھارت کے نیفے میں داخل ہو گئی "
اس سے متفق
لیکن نیفے میں داخل ہونا کیا معنی ؟ نیفہ -- وہی نا جو شلوار میں ہوتا ہے ؟
جی ہاں یہ ایک مزاحیہ جملہ تھا جو کسی پاکستانی اخبار نے لکھا تھا --- چلیں
فی الحال چھوڑیں ---
دوسرا فقرہ " چینی بچے تو روتی صورت ہیں -ہمیشہ روتے رہتے ہیں“
اس سے نا متفق -
یہ لکھا تھا دہلی سے چھپنے والے بچوں کے رسالے 'کھلونا ' نے - لیکن ضرورت
کیوں پڑی ؟ چلیں فی الحال اسے بھی چھوڑ دیں -
تو پھر کیا کروں ؟ کیا اپنا کالم شروع کردوں ؟
نومبر 1962 کا زمانہ ------ بھارت چین جنگ جو پچھلے کئی ماہ سے جاری تھی
اور چین ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہوا آگے بڑھتا ہی جارہا تھا اور
بھارت کو ہر محاذ پر ہزیمت ہی اٹھانی پڑ رہی تھی - جنگ کے مقامات تھے لداخ
اور نیفا -
نیفا دراصل بھارت کے ایک علاقے کا نام ہے جیسے ہمارے پاکستان میں فاٹا ہے -
اسی طرح بھارت کے شمال مشرقی سرحدی علاقہ کو نارتھ ایسٹرن فرنٹیئر ایجنسی
کہتے ہیں - اس کا مخفف بنتا ہے --- نیفا - نیفا کا یہ علاقہ 360 میل لمبا
اور 90 میل چوڑا ہے - یہ اونچے اونچے پہاڑوں پر مشتمل ہے خصوصاً تبت کی
سرحد کے قریب تو کافی اونچے پہاڑ ہیں -
شمال مشرقی سرحدی ایجنسی کا یہ علاقہ بھوٹان -تبت - اور برما سے گھرا ہوا
ہے - اس زمانے میں اس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھی - یہ پانچ ضلعوں پر
مشتمل تھا اور ان ضلعوں کے نام ان دریاؤں کے نام پر رکھے گئے تھے جو ان
علاقوں سے گزرتے تھے - ایک قسم کا سرداری نظام تھا -یہ بزرگ سردار حکومت سے
کوئی مشاہرہ نہیں لیتے تھے البتہ حکومت ان کی سرداری قبول کرتی تھی اور اس
قبولیت کے طور پر انہیں ایک سرٹیفکٹ اور لال کوٹ دیا جاتا تھا-
چین بھارت جنگ 1962 کا پس منظرمعلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا کچھ تعلق
دلائی لامہ سے بنتا ہے- دلائ لامہ اسی نیفا کے راستے 1959 میں چین سے فرار
ہوئے تھے - دلائی لامہ کے فرار بعد ان کےپیرو نیفا کے مختلف مقامات کے
ذریعے ہندوستان ہجرت کر کے پناہ لیتے رہے -- چین نے اس بارے میں اپنے
تحفظات کا اظہار کیا لیکن اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس
مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی - چین نے ان میں سے کچھ افراد کی واپسی کا
مطالبہ بھی کیا لیکن بھارت نے پس و پیش کا اظہار کیا - اس کے تھوڑے عرصے
بعد چین نے نیفا کے کچھ علاقوں میں مداخلت کی اور اہستہ آہستہ تعلقات خراب
ہوتے چلے گئے - اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا آغاز ہوا -
ان جھڑپوں میں کچھ چوکیاں چین کے قبضے میں آگئیں - بھارت کے سابق فوجی
سربراہ جنرل بی ایم کول اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ بھارت کے اس وقت کے
وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو انہیں اس معاملے پر بات چیت کر نے کے لئے
گاہے بگاہے بلاتے رہتے تھے - جنرل بی ایم کول لکھتے ہیں کہ میں نے انہیں
کہا کہ بھارت نے مسلح افواج کو مضبوط اور طاقت ور بنا نے کی جانب کوئی توجہ
نہیں دی اس لئے اب ہماری فوج اس قابل نہیں کہ چین سے موثر طور پر نمٹ سکے -
جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ نہرو کو ان کی صاف گوئی پسند نہیں آئی -
پارلیمنٹ کی حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی -
نہرو کے ساتھ ایک میٹنگ میں حزب اختلاف کے لیڈروں نے کہا کہ انسان دو چیزیں
پسند کرتا ہے ایک زمین اور دوسرا عورت - آپ نے چینیوں کو زمین تو دے ہی دی
ہے - کیا اب ہماری عورتیں بھی دینے کا ارادہ ہے " نہرو یہ سن کر بہت ہی
زیادہ طیش میں آئے لیکن خاموش رہے -
جنرل بی ایم کول ایک جگہ اور لکھتے بیں کہ ایک مشکل یہ تھی کہ اگر ہم اس
صورتحال کا سد باب کرنے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھاتے تو اس سے چینیوں کی مزید
حوصلہ افزائی ہوتی جس سے نمٹنے کی ہمارے پاس کوئی صورت نہیں تھی -
چنانچہ ایک اور میٹنگ جو 11 اکتوبر کو وزیر اعظم نہرو کے گھر پر ہوئی اس
میں نہرو کو بتایا گیا کہ ابھی تک تو سرحدی جھڑپیں ہی ہورہی ہیں - لیکن اگر
چینیوں نے کوئی باقائدہ حملہ کیا تو اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات
یقینی تھی کہ بھارت کو پسپا ہو نا پڑے گا چینیوں کو اپنے اگلے مورچے مضبوط
بنانے کے لئے عمدہ ذرائع حاصل ہیں کیوں کہ ان کی مواصلات اور حمل و نقل کا
نظام بھارت سے بہتر ہے - چنانچہ نہرو نے فیصلہ کیا کہ ان حالات میں چینیوں
پر حملہ کرنے کی بجائے اپنی موجودہ پوزیشن کا دفاع ہی کر لیا جائے
یہ تو اندرونی حقائق تھے لیکن عوام کو دکھانے اور دنیا کے سامنے اپنا سر
بلند رکھنے کی خاطر سری لنکا جانے سے قبل نہرو نے 13 اکتوبر 1962 کو یہ
بیان دیا کہ فوج سے کہا گیا ہے کہ چینیوں کو نیفا میں بھارت کے علاقے سے
نکال دیا جائے -
اس دوران میں بھارتی جنرل بی ایم کول جنہیں اس محاذ کی کمان سونپی گئی تھی
سخت بیمار ہوگئے - جنرل بی ایم کول کی جنگ کے اس مرحلے پر بیماری قسم قسم
کی افواہوں کی موجب بنی - یہ بیماری 18 اکتوبر سے 29 اکتوبر تک جاری رہی
اور اس دوران میں 20 تاریخ کو چین نے اس محاذ پر باقائدہ حملہ کردیا اور
بھارت کے پاس اسے روکنے کا وقت نہیں رہا تھا - چین کی تیاریاں بہت پہلے سے
ہی مکمل تھیں - انہوں نے مختلف محاذوں تک پہنچنے کے لئے سڑکیں بنا رکھی
تھیں جب کہ بھارت کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا - بھارت کی قریب ترین سڑک ساٹھ
میل کے فاصلے پر تھی جب کہ چین کی سڑکیں محاذ سے 10 میل تک پہنچتی تھی -
چین نے یہ سڑکیں پانچ سال پہلے بنائیں تھیں جب کہ بھارت نے ابھی کچھ عرصہ
پہلے ہی یہ کام شروع کیا تھا - چنانچہ یہ کہنا کہ بھارت کے پاس اسے روکنے
کا وقت نہیں رہا تھا بالکل صحیح ہے - جس تیزی سے ایک دن میں ہی چین نے
مختلف علاقوں پر اپنا سرخ پرچم لہرا دیا وہ بہت ہی حیرت انگیز تھا - ایک
علاقے سنگ دھار کے بارے میں بھارت کو یقین تھا کہ چین یہاں نہیں پہنچ سکتا
چنانچہ بھارت نے اپنا ہیلی کاپٹر بھیجا - جب ہیلی کاپٹر اترا تو وہاں ہر
طرف چینی ہی چینی پھیلے ہوئے تھے - چینیوں نے فوراً سے پیشتر ہیلی کاپٹر
قابو میں کیا اور اس کے بعد پائلٹ لیفٹیننٹ سہگل کو گولی ماردی -
چین اس تیزی سے قبضے کرتے جا رہا تھا کہ بھارت کو سوچنے کا موقع ہی نہیں مل
رہا تھا کہ کس سرے کو پکڑیں اور کس سرے کو چھوڑیں - ایک محاذ جس کا نام ٹو
وانگ تھا - اس کا جائزہ لینے بھارت کا ایک بہت ہی سینئر فوجی افسر جنرل سین
22 اکتوبر کو پہنچا - چینی شاید اسی موقعے کی تلاش میں تھے - اس جنرل کے
پہنچنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس محاذ پر چین کی ایک ڈویژن فوج نے تین طرف سے
حملہ کر دیا اور کوشش کی کہ اس محاذ کے پیچھے سے بھی حملہ کریں - یہ صورت
حال دیکھ کر جنرل سین نے اندازہ لگایا کہ یہاں موجود بھارتی فوج پوری طرح
چینی افواج کے نرغے میں آجائے گی اور بچنے کی راہ بھی نہیں ملے گی - جنرل
سین فوراً وہاں سے روانہ ہو گئے اور جاتے جاتے حکم دیا کہ یہاں چین کا
مقابلہ کر نے کی ضرورت نہیں اس لئے فوری طور پر یہ علاقہ چھوڑ کر جنوب کی
طرف چلے جاؤ - چین نے تین دن بعد یہ علاقہ بغیر کسی مزاحمت کے بہت ہی آرام
کے ساتھ اپنے قبضے میں لے لیا -
چینیوں کی جنگی چالیں بڑی ہی اعلیٰ ' مورچہ بندی بہت ہی مستحکم اور سامان
بھارت سے کئی درجے بہتر تھے
ان حالات میں لاچار ہو کر بھارت نے بیرونی ممالک سے فوجی امداد حاصل کر نے
کے بارے میں سوچا اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تمام دنیا کے ممالک سے
مدد کی اپیل کر دی - جن ممالک سے چین کے خلاف مدد مانگی گئی تھی اس میں
پاکستان بھی شامل تھا - بھارتی فوج ہر محاذ پر پیچھے ہٹ رہی تھی - ایک محاذ
پر اتنی خراب صورتحال ہو گئی کہ محاذ سے اس قسم کا پیغام دہلی بھیجا گیا ““
نیفا میں چینیوں کی طاقت بہت زیادہ ہے -چین کے مقابلے میں بھارت بہت کم زور
ہے - اس لئے ہمیں بغیر کسی تاخیر کے بیرونی فوجی امداد حاصل کر نے کی کوشش
کرنی چاہیئے - پیغام میں مزید کہا گیا کہ یہ ایک خوفزدہ فرد کا مشورہ نہیں
بلکہ ایک حقیقت ہے جسے جھٹلا نہیں سکتے اور نہ ہی نظریں چرا سکتے ہیں - ““
نیفا کے علاقے میں حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے تھے - کوئی نہیں جانتا تھا
کہ چینی فوج کب تک اپنی پیش قدمی جاری رکھے گی - اس محاذ پر ہندوستانی فوج
کو مزید کن مصیبتوں اور تباہیوں کا سامنا کرنا پڑے گا - حکومت بھی بہت زیر
تنقید آئی ہوئی تھی - بھارتی فوج کے سربراہ نہرو سے ملے اور کہا کہ اگر
وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے سربراہ کےمستعفی ہو جانے سے حکومت کی
پوزیشن بچانے میں مدد مل سکتی ہے تو استعفیٰ دینےکو تیار ہیں - نہرو نے ان
کی تجویز قبل کر لی - جنرل چودھری نئے فوجی سربراہ بنے -
نیفا کا ہر علاقہ چین کا مفتوح ہوا جارہا تھا اور ہر علاقہ مقبوضہ ہونے کے
بعد حکمرانوں کے سامنے سوالی بن کے کھڑا ہو جاتا " اب کہاں جائے گا یہ
طوفان بلا مرے بعد ؟"
اور حکم ران ہونقوں کی کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ جاتے تھے - تھے بھی
کچھ ایسے ہی حالات - چین کا حملہ -- حملہ نہیں تھا بلکہ ایک اژدہا تھا جو
ایک غیظ و غضب کی تصویر بنا منہ سے کئی انچ کی زبان نکالتاہوا شعلہ بار
آنکھوں کے ساتھ بھارت کے نیفا ( یا نیفے بقول پاکستانی اخبارات ) میں داخل
ہو گیا تھا اور ہر علاقہ روندتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا - نکلنے کا نام
ہی نہیں لےرہا تھا -جدھر جاتا کچھ ہی گھنٹوں بعد بھارت وہاں گھٹنے ٹیک دیتا
تھا - جدھر رخ کرتا بھارتی فوج اس سے پہلے ہی وہ علاقہ خالی کردیتی تھی -
پھر وہ وقت بھی آگیا جب چینی فوج کی دھمک دریائے برہم پتر کے کنارے واقع
بھارت کے چھوٹے شہر تیز پور میں بھی پہنچنے لگی - اس کا مطلب یہ تھا کہ
اونچے اونچے پہاڑوں اور سنگلاخ کوہساروں کے بعد اب میدانی جنگ شروع ہونے
والی تھی - تیز پور شہر متنازع علاقے میں نہیں شامل تھا - اس سے نہ صرف
بھارتی حکام کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں بلکہ آنکھیں بھی خوف کے سبب پھیل
گئیں - چائے کے باغات کے برطانوی مالکان نے بگڑی ہوئی صورتحال کے پیش نظر
اپنے اہل خاندان کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا - تیز پور کا اسسٹنٹ کمشنر
اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ بغیر اجازت کے کولکوتا ( کلکتہ ) فرار ہو گیا -
تیز پور میں نظم و نسق نام کی کوئی چیز نہ رہی - ان حالات میں جیل خانے اور
پاگل خانے کے منتظمیں نے قیدیوں کو از خود رہا کر دیا کہ اس سے پہلے کہ
چینی فوج پہنچ جائے جہاں سینگ سمائے بھاگ جاؤ - نصف صدی بعد یعنی 2012 میں
ایک قدیم رہائشی نے اس زمانے کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں
کہا کہ انہوں نے دیکھا کہ قیدی اور پاگل بازو اٹھا اٹھا کر چینی فوجیوں کے
لئے زندہ باد کے فلگ شگاف نعرے لگا رہے تھے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ
انہیں رہائی چینیوں کے سبب ملی ہے - ان قیدیوں اور پاگلوں نے دھوبی کی
دکانوں پر دھاوا بول دیا اور سارے کپڑے لوٹ لئے اور اپنے قید خانے اور جیل
خانے کے کپڑے اتار کر یہ کپڑے پہن لئے - ایک خوف کی فضا ہر جگہ پھیلی ہوئی
تھی -بنک والوں نے بنک کے اندر موجود سارے کرنسی نوٹ جلا دئے اور سِکّے
مختلف جھیلوں ندیوں وغیرہ میں پھینکنے لگے - تیز پور کے لوگوں کو یہ پتہ
چلا تو اپنی جانوں سے کھیلتے ہوئے سکوں کی تلاش میں ان پانی کے ذخیروں میں
کود گئے - تو بنک والوں نے سکے پھینکنے کا سلسلہ بند کر دیا کیوں کہ لوگوں
کی جانوں کے زیاں کا خطرہ تھا - نہرو نے ایک خصوصی تقریر میں تسلی دینے کی
کوشش کی تھی لیکن اس وقت سب بیکار ثابت ہو رہا تھا -
ہزیمت خوردہ بھارت اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے - عوام کو حوصلہ دینے کے لئے
الٹے سیدھے پروپیگنڈے کر رہا تھا جیسا کہ بچوں کے رسالے کھلونا میں لکھ دیا
کہ چین کے بچے تو روتی صورت ہیں - ہر دم روتے ہی رہتے ہیں -
پھر ایک چمتکار ہوا -- پوری قوم اپنے اپنے گھروں میں بنے ہوئے عبادت کے
کمروں میں بھگوان کے چرنوں میں ' اللہ کے حضور میں ' صلیب اور مریم کے
مجسموں کے سامنے جھک گئی - تھا بھی معاملہ ایسا ہی - چین نے یک طرفہ طور پر
جنگ بندی کا اعلان کردیا اور وہ تمام علاقے بھی واپس کردئے جو جنگ میں چین
نے فتح کئے تھے --
شاید چین صرف بھارت کا غرور توڑنا چاہتا تھا
جنگ ختم ہو چکی تھی - فائر بندی کے بعد توپوں اور بندوقوں کی آوازیں بند ہو
گئی تھیں - لیکن تیز پور کی عوام میں اتنا خوف تھا کہ جنگ بندی کے باوجود
وہ اپنی ہجرت جاری رکھے ہوئے تھے - بھارتی حکام نے بہت مشکل سے انہیں یقین
دلایا کہ اب یدھ ختم ہو گئی ہے اور شانتی آچکی ہے -
( اس کالم کے لکھنے کے لئے بی ایم کول کی خود نوشت “ان کہی کہانی“ اور دیگر
کئی ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے - اس کے علاوہ جناب ایڈوکیٹ نوشاد شفقت کا
بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اخباروں کے حوالے بتائے )
|