سُپریم کورٹ آف پاکستان کے28جولا ئی 2018ء کو پا نچ
رُکنی بنچ کے فیصلے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے نا اہل قرار دیئے جا نے والے
سربراہ اِن دنوں احتسابی عمل سے گزررہے ہیں اِس دوران سابق وزیراعظم
نوازشریف کی زبان جس طرح انصاف فرا ہم کرنے والے اداروں کے خلاف سخت سے سخت
تر ہوتی جا رہی ہے اِنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اَب جیسے یہ کھلم کھلا
اداروں کی تو ہین کرنے کی ٹھان چکے ہیں اور مُلک میں عدلیہ کے وقار کو بے
وقا رکرنا چا ہتے ہیں اور مُلک میں انارگی اور خا نہ جنگی کو ہوا دے کر
اپنی سُبکی مٹا نے اور خو د کو بے گناہ ثا بت کرنے کی کو ششوں میں لگے ہو
ئے ہیں ۔
اَب اِسی کو ہی دیکھ لیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ ہفتے ایک موقع
پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی دانش سے ما یوس کن اندازمیں بغیرکسی کا
نام لیئے کہا کہ ’’احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہورہاہے ، یہ احتساب نہیں
انتقام ہے ، نظرثانی فیصلہ احتساب عدالت کو مجھے سزا دینے کا پیغام ہے
سزادی نہیں دلوا ئی جا رہی ہے نظرثا نی فیصلے میں ایسے ریمارکس تھے جیسے
ہمارے سیاسی مخالفین دیتے ہیں‘‘ گویا کہ تما م شوا ہد کی روشنی میں مسلسل
اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے بعد بھی ’’ میں نہ ما نو‘‘ کی ضد اور ہٹ
دھرمی پر نوازشریف ایسے پکے اور گھٹے ہو ئے ثا بت ہو رہے ہیں کہ اَب عدلیہ
کی خلاف اِن کے بیا نوں کو سُن اور پڑھ کر اِن کی دیوانگی کا احساس یقین
میں بدلتا ہوامحسوس ہورہاہے جس کے بعد یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اِن کی’’ میں نہ
ما نو ‘‘ اور ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ کی ضد اِنہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی ۔
جبکہ یہا ں یہ امر یقینا مُلک اور قوم کے لئے انتہا ئی خو ش آئند اور حوصلہ
افزا ء ہے کہ مُلک میں بہت جلد آئین اور قا نون کی بالا دستی قا ئم ہونے جا
رہی ہے اور ہما رے سُپر یم کورٹ جیسے قومی ادارے مُلک سے کرپٹ عناصر کا
خاتمہ کرکے حق و سچ اور انصاف کی ایک عظیم تار یخ رقم کرنے کو ہیں کیوں کہ
پچھلے کچھ عرصے سے آئین اور قا نون اور قومی اداروں کو ایوا نوں میں بیٹھ
کر لٹو کی طرح اپنی انگلیوں پر نچا نے اور اپنے ذاتی اور سیا سی مفادات کے
حصول کے خاطر اِنہیں استعمال کرنے والوں اور قومی خزا نہ لو ٹ کراپنی اور
خا ندان کے افراد کے نا موں سے آف شور کمپنیاں بنا نے اور اقا مہ رکھنے
والوں کے خلاف مُلک میں چھلنی سے چھنتا رینگتا کھیسکتا احتسابی عمل آہستہ
آہستہ دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی کرتا مسلسل آگے کی جانب بڑھتا جا
رہاہے اَب اِس تناظر میں قوم خا طر جمع رکھے کہ عنقریب تمام کر پٹ عناصر قا
نون کے شکنجے میں ہوں گے اور اپنے کئے گئے سیاہ کرتوتوں کے عوض اپنے عبرت
نا ک انجام کو جا پہنچیں گے یوں مُلک کے عوام اور با لخصوص ووٹر ز کا
اِنصاف فرا ہم کرنے اور احتسا ب کرنے والے اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور
قوم میں جہاں اسٹیپلشمنٹ اور انصاف اور احتساب کرنے والے اداروں کا وقار
بلند ہوگا تو وہیں قوم میں خود بھی اپنی غلطیوں اور خا میوں کو ٹھیک کرنے
اور سُدھانے کا جذبہ بھی بیدارہوگا۔
بہرحال ، یہ تمام با تیں اور دیگر نکا ت اپنی جگہہ ہیں مگر پہلے تو بہت سے
صحا فت اور سیا ست کے طالبعلموں کے سمجھنے کے لئے یہ کا فی ہو گا کہ اگلا
سال 2018ء ممکنہ الیکشن یا انتخابات کا سا ل ہرگز نہیں ہے، ممکن ہے کہ مُلک
میں انتخا بات کی بات کئی سا لوں بعد حقیقی رنگ میں سا منے آئے ، اِس جملے
میں بہت ساری کیفیات شا مل ہیں اُمید ہے کہ صحافت اور سیاست کے طا لبعلموں
کی سمجھ میں سب کچھ آگیاہوگا کہ آج ایک بڑا طبقہ اِس نقطے پر مطمئن ہو ئے
بیٹھا ہے کہ اگلے سا ل 2018ء میں مُلک میں انتخا بات کے انعقاد کو با لا ئے
طا ق رکھ کر ہی آئندہ کی حکمتِ عملی اختیار کی جا ئے تو کچھ بہتری لا ئی جا
سکتی ہے ور نہ سب کی موجودہ کا وشوں پرسوا لیہ(؟) نشان ہی لگا رہے گا۔
ہا ں تو اَب اپنی بات کو آگے بڑھاتے راقم الحرف یہ بارور کرنا چا ہتا ہے کہ
اِن دِنوں مُلک جس طرح کی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے اِس کا فوری خا
تمہ تو ہوتا دکھا ئی نہیں دے رہا ہے چو نکہ کو ئی بھی (سیاسی رہنما)حالات
کو سُدھارنے اور ٹھیک کرنے کو تیار ہی نہیں ہے اِس لئے یوں محسوس ہوتا ہے
کہ اِس غیر یقینی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سنگینی کا پیدا ہونا
لازمی ہوگا، وقت سے پہلے انتخابات کا ارادہ بہت مشکل ہے اور کسی کی جا نب
سے ایڑی چوٹی کا زورلگا کر قبل ازوقت انتخابات کی رٹ لگانا تو واقعی احمقوں
کے خوا ب مترادف ضرور ہے۔ اگرچہ ، اِس سے انکار نہیں ہے کہ مُلک کو
غیریقینی کی صورتِ حال سے دوچار کرنے کے زیادہ تر ذمہ دار بالخصوص ن لیگ
اور پی پی پی والوں سمیت با لعموم پی ٹی آئی اور کچھ دیگر جماعتوں کے رہنما
بھی ہیں ایک طرف جنہوں نے مل کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کا تو خیال کیا
مگرمُلک اور قوم کے بنیا دی مفادات اور حقوق کو زمین میں دفن کئے رکھا اور
اپنی سیاست کا مرکز و محورآپس میں لڑتے جھگڑنے اور ایک دوسرے کی ٹا نگیں
کھینچنے پر ہی مرکوز رکھا اوریہ اِس طرح اپنے لحاظ سے وقت گزاری کرتے رہے
مگر دوسری جا نب اِن کی سیاسی مکاریوں اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مُلک اور قوم
پستی میں جا تے چلے گئے ایسا توایک نہ ایک دن ہوناہی تھا جب مُلک پر آف شور
کمپنیوں اور اقا مہ رکھنے والے کرپٹ ترین اور غیر یقین حکمرانوں اور
سیاستدانوں کی خود غیر یقین حکمرانی ہوتو پھر بھلا مُلک کس طرح معاشی ،
سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑ ا ہو کر پنپ سکتا
ہے۔تا ہم اِس میں کو ئی دورا ئے اور کسی بھی قسم کی شک و شبہ کی گنجا ئش
باقی ہی نہیں ہے کہ سابق وزیراعظم نواشریف کے خلاف سُپریم کورٹ کے نا اہلی
کے عدالتی فیصلے اور مزید آ نے والے دِنوں میں جس ادارے سے چا ہئے جتنے بھی
اِن کے خلاف فیصلے سا منے آئیں گے اِن فیصلوں کی روشنی میں یہ بات حتمی ہے
کہ جہاں نوازشریف عوام الناس میں پہلے ہی اپنا وقار کھو چکے ہیں اَب ممکنہ
اگلے انتخابات میں بھی رہی سہی کسر ختم کر چکے ہوں گے اور آئندہ کے انتخا
بات (اگر ہو ئے تو) ن لیگ کا ووٹ بینک کا حشر نشر بھی پی پی پی کی طرح کم
ترین سطح تک گر جا ئے گا چو نکہ اَب عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اِسے
یقین ہوگیاہے کہ ما ضی میں جمہوریت کے نام پر جس نوازشریف کو یہ ووٹ دے کر
اپنا تین بار وزیراعظم منتخب کرچکے ہیں اصل میں تو یہی اِن کی آرزوؤں کا
قاتل نکلا ہے اِس نے ہی خود کو صادق و امین بنا کر مُلک اور قوم کو لوٹ کھا
یا ہے اور اِس نے ہی قوم کو پستی اور گمنامی میں دھکیلا ہے اور قوم کو بنیا
دی حقوق سے کھلم کھلا محروم رکھ کراِس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور حقوق
غضب کئے ہیں سِوا ئے اپنا ا ور اپنے خا ندان والوں اور اپنے کا روباری اور
زرداری جیسے کرپٹ ترین سیاسی بازی گروں اور چا لبازوں کا پیٹ بھر نے اور
اِن کے ہر غلط اور غیر آئینی اور غیرقا نون اقدام اور کا م پراِن کا ساتھ
دینے کے مُلک اور قوم کی بہتری کے لئے ایک رتی کا بھی فلا ح و بہبود کا کام
نہیں کیا ہے تو پھراَب کسی بھی صورت میں کیسے ؟ مفلواک الحال ، مہنگا ئی
اور بھوک و افلاس کی چکی میں پس کر سرمہ بن جا نے والی پاکستانی قوم اور
ووٹرز نواز یازرداری کو اقتدار میں دیکھنا قبول کریں گے ؟ اوراَب تو عدالتی
فیصلوں کے بعد ویسے بھی پاکستا نی قوم کو نوازشریف یا زرداری جیسے کرپٹ
ترین عناصر کو مُلک میں حکمرا نی کی تو دور کی بات ہے اِنہیں لوٹ گئیں قو
می دولت کی واپسی تک تو آزادی سے رہنے رہنے کو بھی برداشت نہیں کرنا چا ہئے
کیو نکہ اَب اِن کا دا ئمی ٹھکانہ تو جیل ہے۔(ختم شُد) |