وقت کا پہیہ مسلسل رقص میں رہتا ہے حالات کبھی یکساں نہیں
رہتے وہ کبھی موافق ہوتے ہیںتو کبھی ناموافق، لیکن الوالعزم اور بہادر
انسانوں کیلئے حالات کی اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،نہ وہ گھبراتے
ہیں نہ ہی احتجاج و شکایت کرتے ہیں بلکہ ہمت و شجاعت اور حکمت عملی کے
ذریعے وہ سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں جو ان کا اصل نشانہ اور مقصد ہوتا ہےان کے
لئے حالات کو اپنے موافق بنانا کچھ مشکل نہیں ہوتا وہ بہر صورت حالات کو
اپنے زیرنگیں کرلیتے ہیں ۔فی الوقت ہندوستانی مسلمان کچھ ایسے ہی مخدوش
حالات سے دوچار ہیں ، فرقہ پرستی کا زور اپنی بھیانک شکل کے ساتھ بڑھتا
جارہا ہے ،مرکز کی بی جے پی سرکار کیا کم تھی اب اترپردیش کی کمان ادتیہ
ناتھ یوگی کو سونپ دی گئی ہے جن کی فرقہ پرستی او ر دریدہ دہنی سے کون واقف
نہیں ۔ موجودہ صورتحال اور ماضی کے تجربات اشارے کررہے ہیں کہ حالات مزید
خراب ہوسکتے ہیں۔ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اعلیٰ ترین حکمت عملی اور
دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور مشتعل ہوئے بغیر صبرو تحمل کےساتھ مستقبل کا
لائحہ ٔ عمل ترتیب دیں ۔ماضی کا یہ واقعہ ہمارے لئے ایک مفید مثال بن سکتا
ہے ۔
خلیفہ ٔ دوم عمر فاروق ؓکے دور میں ایرانیوں اور مسلمانوں کےدرمیان جنگ
ہوئی ، ابتدامیں ایرانی پسپا ہوئے تو وہ گھبرااٹھے اس وقت ایران کا
وزیراعظم رستم تھا اس نے فوجیوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جس میں یہ طے
کیا گیا کہ مسلم فوجوں کی شکست کیلئے کسی انتہائی بہادر اور ماہر جنگ کو
منتخب کیا جائے ، سبھی نے بہمن جادویہ کا نام پیش کیا ، رستم نے اسے پورے
جنگی سازوسامان کے ساتھ روانہ کیا جن میں ۱۲؍ہزار فوجی اور تین سو کے قریب
جنگی ہاتھی تھے۔جادویہ کی فوج دریائے فرات کے کنارے ناطف کے مقام پر ٹھہری
۔دوسری طرف اسلامی لشکر ابوعبیدہ ؓبن مسعود ثقفی کی قیادت میں فرات کے
دوسرے کنارے پر خیمہ زن تھا ۔جادویہ نے ابوعبیدہ کو پیغام بھیجا کہ تم دریا
پار کرکے ادھر آتے ہو یا ہم اسے عبور کرکے تم تک پہنچیں ، جوش شجاعت میں
ابوعبیدہ نے جواب دیا کہ ہم دریا پار کرکے آتے ہیں، اسلامی لشکر ایک چھوٹے
سے پل کے ذریعے اس پار پہنچا تو اس کے سامنے یہ صورت تھی کہ سامنے ایرانی
سپاہ اور پیچھے دریائے فرات جو ان کی نقل و حرکت میں شدید روکاوٹ بن گیا
ہاتھیوں پر بیٹھے ایرانی تیر انداز وںنے تیروں کی بارش کردی ، ہاتھیوں کو
پہلی بار دیکھ کر اسلامی لشکر کے گھوڑے بدک گئے، تھوڑی ہی دیر میں اسلامی
لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد فرات میں غرق ہوگئی ،
تاریخ کے مطابق ۹ہزار میں سے صرف ۳ہزار فوج دریا عبور کرکے اس پار پہنچی
۔حملہ اس قدر شدید تھا کہ امیر لشکر سمیت متعددسردار ہاتھیوں سے کچل کر
شہید ہوگئے مگر بچی ہوئی سپاہ نے ہمت نہیں ہاری اور مزید تازہ دم کمک
منگواکر پھر سے صف آراہوگئی ، آپس میں نئی حکمت عملی کیلئے مشورے کئے گئے
اور شکست کی وجوہات پر غور کیا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دریائے
فرات کو عبور کرنا ہماری غلطی تھی اب ایک بار پھر دونوں فوجیںصف آراہوئیں
،ایرانی سپہ سالار نے دوبارہ اسلامی لشکر کو پیغام بھیجا کہ تم دریا پار
کرکے ادھر آتے ہو یا ہم اسے عبورکرکے تمہاری طرف آئیں ۔مسلم سپہ سالار نے
دوبارہ وہ غلطی نہیں کی جو پہلے ان سے ہوگئی تھی ، انہوں نے جواب میں کہا
کہ تم ہی فرات کو عبور کرکے ہماری طرف آؤ ، پھر ایسا ہی ہوا ۔جنگ شروع
ہوئی تو ٹھیک معاملہ اس کے برعکس ہوگیا ، یعنی اب ایرانیوں کے پیچھے دریائے
فرات کا وسیع و عریض پاٹ اور سامنے اسلامی لشکر جرّار ،دوسری طرف اسلامی
لشکر کے سامنے ایرانی افواج اور پیچھے بے انتہا کشادہ میدان ۔اب صورتحال یہ
تھی کہ میدان کارزار پوری طرح اسلامی لشکر کے موافق ہوگیا ۔جنگ کے ابتدائی
مرحلے میں ہی ایرانیوں کے پاؤں اکھڑگئے اور انجام کار شکست ان کا مقدر بن
گئی۔ مسلم سردار نے حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرات پر بنے اس لکڑی کے
پل کو توڑدیا اب ایرانی فوج کیلئے راہ فرار پوری طرح مسدود ہوگئی اور ا ن
کی ایک بڑی تعداد ہاتھیوں اور جنگی سازوسامان کے ساتھ فرات میں غرق ہوگئی ۔
تاریخی روایات کے مطابق اس جنگ میں ایک لاکھ کے قریب ایرانی فوجی ہلاک
ہوگئے اور ان کی حالت یہ تھی کہ جب وہ فرار ہونے لگے تو سامنے دریا تھا اور
پیچھے مسلح اسلامی لشکر جس کی تلواروں کی چمک سے ان کی آنکھیں چندھیاگئیں
۔اب ان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ خود کو دریائے فرات کی
موجوں کے حوالے کردیں اور بالآخر وہی ہوا ۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ
مسلمانوںکے لشکر میں جو لوگ اس جنگ میں کام آئے ان کی تعداد صرف ۱۰۰؍کے
قریب تھی ۔
یہ واقعہ بہت بڑی مثال ہے کہ جوش سے زیادہ ہمیشہ ہوش کی ضرورت ہوتی ہے،جوش
میں عقل رخصت ہوجاتی ہے اور ہوش میں عقل بے حد قریب ہوتی ہے۔ سوچنے کا عمل
انسان کو فکر مند بناتاہےاور بے سوچے سمجھے کیا جانے والا کوئی کام کبھی
پایہ ٔ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا ۔ عقل و تدبر اور حکمت عملی کے بروقت اور
صحیح استعمال سے شکست کو فتح میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔یہ ایسا قاعدہ ٔ
کلیہ ہے جو ہر دور میں کام آنے والا ہے اور اس سے اتنا ہی فائدہ آج بھی
اٹھایا جاسکتا ہے جتنا ماضی میں اٹھایا گیا ۔ یوپی میں ادتیہ ناتھ یوگی کی
حکومت ہو یا مرکز میں نریند رمودی سرکار اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ،
وہ خواہ کتنا ہی ظلم کرلیں اور نا انصافی کی انتہا کردیںہر ظلم کی ایک
محدود مدت ہوتی ہے اور یہ مدت کار صرف اور صرف پانچ سال ہے ۔جمہوری طرز
حکومت کا یہ بہت بڑا فائدہ ہے کہ وہ عوام کو ہر پانچ سال میں یہ موقع فراہم
کرتی ہے کہ وہ جسے چاہے بر سراقتدار کردے اور جسے چاہے تخت سے اتار دے
۔تاریخ کا مسلسل مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ ظلم خواہ کوئی بھی کرےکتنی ہی خون
کی ندیاں بہادے اور لوگوں کی آنکھوں میں غم کے سیلاب اتاردے ، اس کے مقدر
میں محرومی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ہر ظلم کے پیچھے ایک بہت بڑا
انقلاب چھپا ہوتا ہے جسے ظالم کی آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں ۔وہ ظلم کی
آندھی چلاتا ہےلیکن انقلاب کا طوفان انجام کار اس آندھی کو نگل لیتا ہے
۔چنگیز و ہلاکو ، ہٹلر و مسولینی جیسے متعددظالموں کی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں ۔ |