از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
مغرب یہ چاہتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو دبا دیا جائے؛ اور یہ ہماری خواہش اور
ہماری مرضی کے مطابق چلیں۔ اور اب پانچ نئی چیزیں تھمادی گئیں ہیں ہمارے
ہاتھ کے اندر؛ کہ 295C بھی ختم کیا جائے۔ اسی طرح مرزائیوں کو جو کافر قرار
دیا گیا ہے اور اقلیت قرار دیا گیا ہے اس کو بھی واپس کیا جائے۔ پاک فوج کی
کڑی نگرانی کی جائے کہ وہ انسانی حقوق کو پامال تو نہیں کر رہی۔ اور اس طرح
پانچ چیزوں کو ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے کہ یہ تم نے کرنا ہے۔ اور’
ختم نبوت‘ کا مسئلہ پہلے ہی کس طرح اس کے ساتھ سلوک کیا گیا ہے وہ کسی سے
مخفی نہیں ہے۔
تو یہ نازک وقت ہے اس امت کے اوپر ۔ پوری دانش مندی کے ساتھ پوری حکمت کے
ساتھ امت مسلمہ کو آگے بڑھناہے۔ یک جہتی کے ساتھ منظم انداز سے، اتحاد سے،
باہمی موافقت اور مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنے سے ہم کچھ حاصل کر پائیں گے۔
ورنہ اس وقت ہمارا دشمن بہت چلاک ہے۔ بہت مکار ہے۔اور بد قسمتی سے ۵۶ ، ۵۷
؍اسلامی ملکوں کے حکمران ؛ الا ماشاء اﷲ کا لفظ مَیں بول رہا ہوں؛ اسلامی
ممالک کے حکمران’’ فرنگی روحوں کے بے حس دھانچے‘‘ ہیں۔اور یہاں ہمارے اوپر
براجمان ہیں۔ اور ان میں کوئی ہمت نہیں ہے، کوئی طاقت نہیں ہے، ان کے اندر
کوئی توانائی نہیں ہے۔ یہ اسلام کے قدریں بیچ کر کے ان (مغرب)سے اقتدار کی
ضمانت لیتے ہیں۔
یہ حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ دینی قوتوں کو باہم جُڑنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ایسے اسباب،ایسے وسائل اور ایسے حالات پیدا ہوں کہ ذمہ
دارانِ قوم سرجوڑ کر بیٹھیں، ان حالات کی حساسیت کو سمجھیں کہ یہ کیا ہورہا
ہے۔
بہاء اﷲ اور مرزا قادیانی کے مر جانے کے بعد بھی ایک سو سال ہوگیا ہے ان
لوگوں کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔اس وقت پاکستان میں بہائیت کا بھی اثر و نفوز
ہورہا ہے۔ مرزائیت پہلے سے ہی موجود تھی لیکن بہائیت کا اثر و نفوز بھی اس
ملک کے اندر ہونے جارہا ہے۔
تو یہ درد ناک صورتِ حال ہے۔ ہمیں آنکھیں کھول کے جینا ہوگا اور پوری قوت
کے ساتھ منظم ہوکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ قوم کو سب سے پہلے ہم نے باشعور
کرنا ہے اور منبر و محراب کی ذمہ داریاں اس حوالے سے فزوں تر ہیں؛کہ وہ
بامقصد گفتگو کے ذریعے سے قوم کو منظم بھی کرسکتے ہیں اور قوم کو باشعور
بھی کرسکتے ہیں۔ اس وقت ملک کے جو معروضی حالات ہیں اور اسلام آباد کی یخ
بستہ ہواؤں کے اندر ختم نبوت کے لیے لوگ جس طرح بیٹھے ہوئے ہیں؛ حکومت اگر
ان پر کوئی تشدد کرتی ہے تو یہ حکومت کی بہت بڑی حماقت ہوگی۔ یہ ملک حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پہ حاصل ہوا تھا۔ اور آقا کریم علیہ الصلوٰۃ و
السلام کی آبرو ،حضور کی عزت، حضور کی ختم نبوت ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ
عزیزہے۔ حکومت نے کل جو قانون اصلی حالت میں بحال کیا ہے اس پہ ہم انہیں
داد دیتے ہیں؛ لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ ان کو معافی مانگنی چاہیے اور
بالخصوص جو ذمہ دار ہیں جنہوں نے یہ گھنونی سازش کی ہے اور اس کا شکار ہوئے
ہیں اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا؛ ان کو قرار
واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اور مَیں نے آج سے تین ہفتے پہلے؛ سوشل میڈیا پر وہ
کلپ موجود ہے، اس وقت کہاتھا کہ کم از کم پانچ لوگ ہیں وہ جو اس سازش میں
شریک نظر آتے ہیں اور بے لاگ انکوائری ہونی چاہیے اور ان کو عدالت کے
کٹھہرے میں لا نا چاہیے ، قوم مطمئن ہوجائے گی کسی کو سڑکوں پر جانے کا شوق
نہیں ہے۔
اگر تم انصاف فراہم کروگے تو لوگ گھروں میں چین اور قرار سے بیٹھیں گے لیکن
اگر تم انصاف فراہم نہیں کرو گے تو بہت سارے امور میں ہم گوارا کر لیتے
ہیں، برداشت کر لیتے ہیں لیکن حضور کا نام ہماری آبرو ہے۔ حضور کا نام
ہماری عزت ہے۔ اقبال کے سار کلام کا رس نچوڑیں تو جوس یہ نکلتا ہے کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
٭٭٭ 18-11-2017(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب) ٭٭٭
|