خاندانی سیاست

دنیا کے چند سیاسی خاندانوں کی سیاسی تاریخ پہ نظر

خاندانی سیاست دنیا کی سیاسی تاریخ کا حصہ رہی ہے اس سے پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش تو کیا مغربی ممالک بھی نہیں بچ سکے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جو سیاست میں ہے وہ اپنے بعد اپنے کسی بیٹے بیٹی یا قریبی عزیز کو ہی آگے لاتے ہیں نا کہ وہ اپنے کسی سیاسی ورکر یا کسی اور شخص کو کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنی سیاست کو ختم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ ایک حقیقت بھی ہے بانی پاکستان محمد علی جنا ح کے بعد انکی بہن فاطمہ جناح نے صدر ایوب کے مقابلہ میں الیکشن لڑا لیکن ہار گئیں ، دکھ کی بات تو یہ ہے کے انہیں غدار تک کہ دیا گیا ایک وہ شخص جس نے اس ملک کو بنا یا اور اسکی بہن جو پاکستان بنانے میں انکے شانہ بشانہ کھٹر ی تھی انہیں ہی غداری کا لقب دے دیا گیا ، بہت ہی کم ایسے ممالک ہونگے جہاں خاندانی سیاست نہ ہو آپ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستا ن کی بات کر لیں نہرو خاندان آج تک سیاست میں چھایا ہوا ہے جواہر لعل نہرو بھار ت کے پہلے وزیر اعظم تھے انکے بعد انکی بیٹی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنی جبکہ انکے بیٹے راجیو گاندھی بھی بھارت کے وزیر اعظم رہے جبکہ انکی بیوہ سونیا گاندھی آج بھی بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگرس کی صدر ہیں جبکہ انکے بیٹے راہول گاندھی اور بیٹی پریانکا گاندھی بھی اس وقت سیاست میں اپنا نام بنا چکے ہیں راہول اس وقت بھی راجیا سبھہ کے رکن ہیں اور انڈین نیشنل کانگریس کے نائب صدر ہیں -

بھارت کے ایسے درجنوں سیاستدانوں کی تفصیل میں یہاں بیان کر سکتا ہوں جو خاندانی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں ان میں بھارت کے معروف سیاستدان لالو پرساد یادیو جو بھاری ریاست کہ سا بقہ وزیر اعلی اور وزیر ریلوے رہ چکے ہیں جبکہ انکی بیوی رابڑی دیوی بھی بہار کی وزیر اعلی رہی ہیں جبکہ لالو پرساد کے ایک بیٹے تیجاشوی یادیو بہار کے ڈپٹی وزیر اعلی اور بہار کے سب سے کم عمر ترین اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں ، جبکہ دوسرے بیٹے تیج پرتاب یادیو بہار کے وزیر صحت رہے ہیں جبکہ انکی بیٹی میسا بھارتی لوک سبھہ کا الیکشن لڑ چکی ہیں مگر انہیں کامیابی نہیں ملی تھی ، بھارت سے آپ بنگلہ دیش میں چلے جا یں تو بنگلہ دیش کے لیڈر شیخ مجیب ارحمان کے بعد انکی بیٹی شیخ حسینہ واجد آج تک ملکی سیاست پہ چھائی ہو ئی ہیں ابھی بھی وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں جبکہ سابقہ بنگلہ دیشی صدر ضیاٗ الرحمان کی بیوہ خالدہ ضیاٗ بھی بنگلہ دیش کی دو بار وزیر اعظم رہ چکی ہیں جبکہ انکے بھائی سید سکندر بھی بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ممبر رہ چکے ہیں اگر آپ سری لنکا کی بات کرلیں تو سابق سری لنکن صدر مہندرہ راجہ پاسکا اور انکے بیٹے نمل راجہ پاسکا سری لنکن ریاست ھمبن ٹوٹہ سے پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں جبکہ سری لنکا بننے سے قبل ریاست کے چھو تے وزیر اعظم ایس آر ڈی بندریاناکہ کی بیوی سری ماوو بندریانایکہ بھی سری لنکا کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں 1994 تا 2000 جبکہ انکی بیٹی چندیکا کماراٹنگا سری لنکا کی پانچویں صدر رہ چکی ہیں جبکہ انکے بھائی انورا بندریانایکہ پارلیمنٹ کے سپیکر اور موجودہ اپوزیشن لیڈر ہیں ، جبکہ سری لنکا کے ہی سابقہ صدر اور وزیر اعظم رانا سنگھے پریما داسا کے بیٹے ساجیتھ پریما داسا وزیر ہاوسنگ رہ چکے ہیں ، ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی کے بھائی حسین فرئدون ایرانی ریاست کیرج کے گورنر رہ چکے اور ملایئشیا کے لیئے ایرانی امبیسڈر بھی رہے ہیں جبکہ صابقہ صدر محمود احمدی نجاد کے بڑے بھا ئی انکے صدر بننے کے بعد ایرانی الیکشن کمیشن کے سربراہ بنے جبکہ انکی بہن پروین احمدی نجاد تہران سٹی کونسل کی ممبر بنی لیکن وہ جنرل الیکشن میں ہار گئ تھی ، ایران کے ہی سابقہ صدر محمد خاتمی کے بھائی محمد رضا خاتمی ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر رہ چکے ہیں جبکہ انکے ایک اور بھائی چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں ایرانی صدر کے اور انکے بھتیجے محمد رضا تابش ایرانی پارلیمنٹ کے ممبر رہ چکے ہیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے بھائی ہادی خمینی رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں جبکہ سابقہ سپیکر آف ایرانی پارلیمنٹ غلام علی حدید عادل انکے بیٹے کے سسر ہیں ، ایران کے ہی بانی لیڈر اور سابقہ صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کے بیٹے محسن ہاشمی رفسنجانی سٹی کونسل آف ایران کے چیرمین رہ چکے ہیں انکی بیٹی فزیہہ ہاشمی رفسنجانی ممبر پارلیمنٹ رہ چکی ہیں ض جبکہ انکے ایک بیٹے مہدی ہاشمی رفسنجانی منی لانڈرنگ کیس میں دس سال کی سزا کاٹ رہے ہیں ، آپ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کہلوانے والی ریاست امریکہ کی طرف دیکھ لیں امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ہاربرٹ واکر بش کے بیٹے جارج واکر بش امریکہ کہ دو با ر صدر رہ چکے ہیں جبکہ وہ اس سے پہلے امریکی ریاست ٹیکساس کے گورنر بھی رہ چکے ہیں انکے دوسرے بھائی جیب بش فلوریڈا کے گورنر رہ چکے ہیں جبکہ سا بقہ امریکی صدر بل کلنٹن کے بعد انکی بیوی ہیلری نے امریکی انتخابات میں حصہ لیا اور بہت کم مارجن سے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہار گئیں ، عرب ممالک میں ایک کے بعد ایک بیٹا یا رشتہ دار تخت پا بٹھہ جاتا ہے ، پاکستان انڈیا میں خاندانی سیاست بہت عام ہے اور اسکا خاتمہ نا ممکن سا ہے ، عمران خان صاحب نے جب الیکشن سے پہلے اپنے جلسوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو خاندانی سیاست کا طعنہ دیا تو سمجھ سے باہر تھا خان صاحب کیا خود اس پہ عمل کر پائیں گے ، کوئی شک نہیں کے خاندانی سیاست کا خاتمہ ہو نا چاہئے مگر کیا یہ ممکن ہے کیونکہ اگر یہ مغرب جیسے ممالک میں نہیں ختم ہو پائی تو پاکستان جیسے ملک میں کیسے ممکن ہے ، جہاں زاتی مفاد کو ملکی مفاد یا عوامی مفاد سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے ، مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ ق یا کو ئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جس میں خاندانی سیاست کا رواج نہ ہو ، میاں نواز شریف کے بعد انکی بیٹی مریم تیار بیھٹی ہیں ، شہباز شریف کے بعد انکا بیٹا حمزہ تیار ہے ، یوسف رضا گیلانی کے بعد انکا بیٹا موسئ گیلانی ، تو زرداری صاحب کے بعد انکا بیٹا بلاوال ، یہ پاکستان نہیں ساری دنیا میں یہی کچھ ہے شاید ان لوگوں کی جگہ ہم ہوں تو ہم بھی اپنے پیاروں کو ہی فوقیت دیں اور یہی دنیا میں چلتا آرہا ہے پہلے کو ئی اپنا پھر باقی بعد میں ہم تو اپنے اس وطن پاک کے لیئے دعا ہی کر سکتے ہیں کے خدا ہمارے اس ملک
کو ئی طیب اردگان اور مہاتیر محمد جیسا لیڈر دے تاکہ اس قوم کی حالت بھی بدلے-

Muhammad wajid aziz
About the Author: Muhammad wajid aziz Read More Articles by Muhammad wajid aziz: 17 Articles with 17290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.