ترک نژاد علاء الدین خلجی سنہ 1296 میں دہلی کے سلطان بنے
تھے اور ان کے 721 سال بعد ایک فلم 'پدماوتی' بنی ہے جس میں بالی وڈ اداکار
رنویر سنگھ ان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
کسی بھی فلم میں تین کردار ہیرو، ہیروئن اور ولن اہم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے
ولن خلجی ہیں۔ لیکن کیا 20 سال تک دہلی کے سلطان رہنے والے علاءالدین خلجی
واقعی ولن تھے یا تاریخ ان کے بارے میں کچھ اور کہتی ہے؟
|
|
انڈیا کی معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے سربراہ اور
ہندوستان کی عہدِ وسطیٰ کی تاریخ کے ماہر پروفیسر سید علی ندیم رضوی کہتے
ہیں: 'فلم پدماوتی میں افسانوی کردار مہارانی پدمنی کو کس طرح سے دکھایا
گیا ہے اس پر تو سب مخالفت کر رہے ہیں، لیکن بھنسالی (فلمساز) نے اصل
ناانصافی علاء الدین خلجی کے ساتھ کی ہے۔'
تاریخی کردار
پروفیسر سید علی ندیم رضوی کے مطابق: 'اس فلم میں علاء الدین خلجی کو اس
طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ کوئی وحشی، سفاک، جنگلی اور ظالم حکمراں ہو،
نوچ نوچ کر کھاتا ہو، عجیب و غریب کپڑے پہنتا ہو۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے دور
کے بہت مہذب شخص تھے جنھوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات آج تک نظر
آتے ہیں۔'
پروفیسر رضوی کہتے ہیں: علاء الدین خلجي ایک تاریخی کردار ہے، ان کی زندگی
کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، ان کا شمار ہندوستان کے سب سے روشن خیال حکمرانوں
میں ہوتا ہے۔'
دہلی پر ترک سلطنت کے آغاز کے بعد خلجی نے ہندوستانیوں کو بھی حکومت بھی
شامل کیا تھا۔
پروفیسر رضوی کہتے ہیں: 'خلجی سلطنت سے پہلے دہلی پر حکومت کرنے والے
سلاطین التمش، غیاث الدین بلبن اور رضیہ سلطان نے حکومت میں مقامی لوگوں کو
شامل نہیں کیا تھا۔ صرف ترکوں کو ہی اہم عہدے دیے جاتے تھے اس لیے اسے ترک
حکومت بھی کہا جاتا تھا۔'
قیمت پر کنٹرول کی پالیسی
پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ 'جلال الدين خلجی کے دہلی کا سلطان بننے کے
ساتھ ہی ہندوستانی لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسے
خلجی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ علاء الدین خلجی نے اس کام کو آگے بڑھایا اور
مقامی لوگوں کے حکومت میں شمولیت کے پیش نظر یہ صرف ترکوں کی حکومت ہی نہیں
رہ گئی تھی بلکہ ہندستانیوں کی حکومت بھی تھی۔'
|
|
پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ 'جس گنگا جمنی تہذیب کے لیے ہندوستان مشہور ہے
اور جسے بعد میں اکبر نے آگے بڑھایا اس کی ابتدا علاء الدین خلجی نے ہی کی
تھی۔'
علاء الدین خلجی کی اشیا اور چیزوں کی قیمت پر کنٹرول کرنے کی پالیسی اس
دور کا انقلابی قدم تھا اور کسی کرشمے سے کم نہیں۔ علاء الدین خلجی نے
بازار میں فروخت ہونے والی ہر شے کی قیمت طے کر دی تھی۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر نجف حیدر کہتے ہیں کہ 'بازار
سے متعلق علاء الدین خلجی کی پالیسیاں بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے نہ صرف
بازار کو کنٹرول کیا تھا بلکہ چیزوں کے دام بھی مقرر کر دیے تھے۔‘
ہر چیز کے لیے قیمت مقرر
بین الاقوامی جرنل آف اپلائیڈ سائنسز میں شائع تاریخ داں روچی سولنکی اور
بزنس ایڈمنسٹریشن کے لیکچرر ڈاکٹر منوج کمار شرما کے ایک مضمون کے مطابق
علاء الدین خلجی نے اپنے دور میں ہر چیز کے دام طے کر دیے تھے۔
|
|
ایک اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی قیمت 120 ٹکا تھی، جب کہ دودھ دینے والی بھینس
کی چھ ٹکے اور دودھ دینے والی گائے کی قیمت چار ٹکے طے تھی۔ اس کے علاوہ
سارے اناج گندم، چاول، جو، باجرہ وغیرہ کی قیمتیں بھی مقرر کی گئیں۔ مقررہ
قیمت سے زیادہ فروخت کرنے پر سخت کارروائی کی جاتی تھی۔
اس زمانے کے مورخ ضیاء الدین برنی (1285-1357) کے مطابق خلجی نے دہلی میں
ایسا نظام قائم کیا تھا جس میں مختلف چیزوں کے لیے مختلف بازار تھے۔
مثال کے طور پر، کھانے کی اشیا کے لیے ایک علیحدہ بازار تھا، مہنگی اشیا
جیسے کپڑے، تیل گھی اور مویشیوں کے لیے الگ الگ بازار تھا۔
پروفیسر حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے بازار میں قیمت پر
کنٹرول کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ایک بڑی فوج تھی جسے
اشیا مہیا کرانے کے لیے انھوں نے قیمت کا تعین کیا تھا۔
ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے خلجی نے شاہی گودام بنوائے تھے جن میں بڑی مقدار
میں اشیائے خوردنی رکھی جاتی تھی اور یہیں سے آڑھتیوں کو مہیا کرائی جاتی
تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بازار میں کسی چیز کی کمی نہ ہو اور
ذخیرہ اندوزی نہ کی جا سکے۔
کسی بھی کسان، کاروباری یا آڑھتی کو مقررہ حد سے زیادہ خوراک رکھنے کی
اجازت نہیں تھی اور نہ ہی مقررہ قیمت سے زیادہ پر فروخت کرنے کی اجازت تھی۔
خلجی نے زمینوں میں بھی اصلاح کی تھی۔
|
|
زرعی اصلاحات
پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ خلجی کے سب سے بڑے کاموں میں سے ایک زرعی
اصلاحات تھیں۔ ان کے مطابق 'یہ گورننس میں مقامی لوگوں کو جگہ دینے کا
نتیجہ تھا اور مقامی لوگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی کئی فیصلے کیے گئے۔
’خلجی نے دہلی سلطنت کے علاقے میں زمین کا سروے کروایا اور زمین کی اقسام
طے کی گئی۔ خالصہ میں پیداوار کا 50 فی صد ٹیکس میں لیا جاتا تھا اور اس کے
علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا۔‘
خلجی نے کسانوں اور حکومت کے درمیان سے ثالث کو ہٹا دیا تھا۔ زرعی نظام میں
بہتری کے ساتھ، خلجی نے ایماندار انتظامیہ کو یقینی بنایا۔
علاء الدین خلجی کا بڑا کارنامہ منگولوں سے ہندوستان کی حفاظت کرنا بھی تھا۔
انھوں نے دہلی سلطنت کی حدود کو محفوظ رکھا اور منگولوں کے حملوں کو پسپا
کیا۔
|
|
پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'ہندوستان پر باہر سے سب سے بڑے حملے منگولوں کے
تھے۔ منگولوں نے وسطی ایشیا اور ایران پر قبضہ کر لیا تھا اور ہندوستان پر
وہ بار بار حملے کر رہے تھے۔ علاء الدین خلجی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ
انھوں نے کامیابی کے ساتھ ان کے ساتھ جنگ کی۔'
پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'خلجی طاقتور سلطان تھے۔ ہر بڑے حکمران کے سامنے دو
چیلنج ہوتے ہیں۔ پہلا اپنی سلطنت کو بیرونی حملے سے تحفظ فراہم کرنا اور
دوسرا اندرونی استحکام فراہم کرنا اور اسے بڑھانا یعنی نئی نئی ریاستوں کو
اپنے زیر نگيں لانا اور اقتدار کو قائم رکھنا اور اس کے فوائد نچلی سطح تک
پہنچانا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ علاء الدین خلجی ان دونوں محاذوں پر کامیاب رہے۔ انھوں نے
نہ صرف اپنی سلطنت کی حفاظت کی بلکہ اس کی بڑے پیمانے پر توسیع بھی کی۔
|
|
پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ 'جنگ میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں، خلجی کی جنگ میں بھی
بڑی تعداد میں لوگ مرے۔'
پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'خلجی نے کئی منگول حملے ناکام کیے تاہم انھوں نے
بہت سے منگول فوجیوں کو دہلی میں رہنے کی اجازت بھی دی اور بہت سے منگول
فوجی یہیں کے باشندے ہو گئے تھے۔'
پروفیسر حیدر کہتے ہیں، 'جب یہیں رہنے والے منگول فوجیوں نے بغاوت کر دی تو
خلجی نے شکست خوردہ منگول فوج کے فوجیوں کے کٹے ہوئے سر کی وار ٹرافی کے
طور پر نمائش کی اور منگولوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے انھوں نے کٹے سر
دیواروں چنوا دیے۔'
تاہم علاءالدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے چچا اور
دہلی کے سلطان جلال الدین خلجی کو قتل کروا کر دہلی کا تاج حاصل کیا تھا۔
|