پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نوازکے درمیان اس وقت
نامعلوم ایشوزپرجنگ جاری ہے اس جنگ کی ابتداکچھ ہی عرصہ قبل ہوئی جب خبرآئی
کہ نوازشریف آصف زرداری کے ساتھ رابطہ کرناچاہتے ہیں مگرزرداری انہیں کوئی
جواب نہیں دے رہے جواب نہ دینے یاکال ریسیونہ کرنے کی بات گزشتہ مہینے
بلاول زرداری بھی کرچکے ہیں اوران دونوں باپ بیٹے کی دیکھادیکھی پیپلزپارٹی
کے دیگرراہنماؤں کی جانب سے کال ریسیو نہ کرنے ،کوئی جواب نہ دینے ، کسی
مفاہمت میں شامل نہ ہونے ،نوازلیگ کے ساتھ کوئی ’’رشتہ ناطہ ‘‘نہ رکھنے
اورکسی رابطے کوخاطرمیں نہ لانے کے بیانات اخبارات کی زینت بنے اسکے ساتھ
ساتھ نوازشریف پرتنقیدکاسلسلہ بھی درازہواجس کے جواب میں نون لیگ کے شیربھی
دھاڑے اورکرپشن وغیرہ یاددلانے کی مقدوربھرکوشش کی گئی نوازشریف
کوپیپلزپارٹی کی ایسی کیاشدیدضرورت آن پڑی کہ انہیں فوری اورلازمی طورپر
آصف زرداری یاپیپلزپارٹی کاتعاون درکارہے یاآصف زرداری کے پاس ایسی کیاگیدڑ
سنگھی آچکی ہے کہ جسے وہ نوازشریف کی دسترس سے دوررکھناچاہتے ہیں
پیپلزپارٹی کے بعض لیڈروں نے تویہاں تک بیانات داغ دئے کہ نوازشریف کوپہلے
بچایااب نہیں بچائینگے جہاں تک نوازشریف کونہ بچانے کی بات ہے تونوازشریف
اب بچنے بچانے سے آزادہوچکے ہیں اسے جب وزارت عظمیٰ کی گلی سے بے آبروکرکے
نکالاگیاتوکوئی نہ بچاسکااب اسے پیپلزپارٹی کس مصیبت سے بچاسکتی ہے ؟
اگراسٹیبلشمنٹ سے بچانے کی بات ہے تویہ نوازشریف کی ذاتی طاقت پرمنحصرہے کہ
وہ اسٹیبلشمنٹ سے خودکوکیسے بچاتے ہیں اس سلسلے میں ٓٓآصف زرداری سے مددکی
توقع کوئی باؤلاہی رکھ سکتاہے نوازشریف نے اگرجیل جانے سے خودکوروکناہے
توآصف زرداری کے ہاتھ میں ایسی کوئی کنجی نظرنہیں آرہی جو کسی جیل کے
دروازے کی ہواگرعدالت نے نوازشریف کوجیل بھیجنے کافیصلہ کرلیاتوآصف زرداری
یاپیپلزپارٹی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اسے جیل جانے سے روک سکے اسکی پارٹی
کواگرراندۂ درگاہ کرنے کاسوچ لیاگیاہے توپیپلزپارٹی یاآصف زرداری اسے
دوبارہ سے قابل قبول بنانے کیلئے کونساکرداراداکرسکتے ہیں؟اسٹیبلشمنٹ کے
ساتھ ڈیل کی بات ہوتونوازشریف کے پاس پیپلزپارٹی یاآصف زرداری سے زیادہ
موزوں آدمی موجودہیں ہاں آئینی ترمیم کیلئے نوازشریف پیپلزپارٹی سے تعاون
کے طلبگارہوسکتے ہیں مگرپیپلزپارٹی کے ہاتھ بھی اس حوالے سے کھلے نہیں یعنی
وہ اگرچاہے بھی تونوازشریف کی مرضی کے کسی ترمیم کی حمایت نہیں کرسکتے ہاں
گزشتہ ہفتے جو’’ایڈونچر‘‘ کی خبرآئی تھی اگروہ درست تھی تو اس ’’ایڈونچر‘‘
کی صورت میں پیپلزپارٹی کی ضرورت پڑسکتی ہے جس قسم کے
ایڈونچرکاذکرہورہاتھااگروہ ایڈونچر’’سرزد‘‘ہوجائے اوراس کا’’ردعمل‘‘ بھی
گزشتہ کی طرح آجائے توپیپلزپارٹی یااسکے شریک چئیرمین اس پوزیشن میں ہی
نہیں ہونگے کہ وہ کسی قسم کی مددکرسکے میری نظرمیں نوازشریف اورآصف زرداری
کی اس وقت جوپوزیشن ہے اس میں نوازشریف کوزرداری کی ایسی کوئی خاص ضرورت
نہیں ہاں اگرنوازشریف آصف زرداری کے ساتھ رابطے رکھناچاہتے ہیں یاان سے کسی
قسم کی مددکے طلبگارہیں تواس مددکی زرداری’’ اچھی خاصی‘‘ قیمت وصول کرسکتے
ہیں اورآصف زرداری کی اب تک کی سیاست ’’کچھ لو،کچھ دو ‘‘اور’’جیوجیواورجینے
دو‘‘کے اصول پرومبنی رہی ہے نوازشریف اقتدارکی گلیوں سے بذات خودراندۂ
درگاہ ہونے کے باوجودایسی گئی گزری پوزیشن پرنہیں انکے پارٹی کواب بھی
340کے ایوان میں200کے قریب ارکان کی حمایت حاصل ہے سینیٹ کے الیکشنز(جس
کیلئے یہ ساراہوـاّ کھڑاکیاجارہاہے) اگربروقت منعقدنہیں ہوتے تونقصان اکیلے
نوازشریف کانہیں تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی کابھی ہوگاسندھ کی سیٹیں
پیپلزپارٹی کی ’’جیب‘‘میں ہیں جبکہ خیبرپختونخواسے تحریک انصاف کے موجودہ
ممبران دوگنے ہوسکتے ہیں اس لئے جولوگ موجودہ سیٹ اپ کوسینیٹ الیکشن سے قبل
رخصت کرکے نوازشریف کوزک پہنچانے کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ شیخ چلی کی طرح
اپنی ہی شاخ کاٹ رہے ہیں ناہی تودل سے تحریک انصاف حکومتی رخصتی کی حق میں
ہے اورناہی پیپلزپارٹی موجودہ حکومتوں کوختم کرکے قبل ازوقت انتخابات کرانے
کی حق میں ہے اگرکسی جانب سے اسمبلیاں توڑکرنئے انتخابات کرانے کی بات آتی
بھی ہے تواس کامقصدصرف میڈیاپرکچھ نہ کچھ کہتے رہنے اور’’اِن‘‘ رہنے کی ریت
کے سواکچھ نہیں ہاں توبات پیپلزپارٹی اورنون لیگ کی ہورہی تھی توان دونوں
کاسیاسی مفادایک دوسرے سے ہی وابستہ ہے اوریہ بات انکی قیادتوں کوبخوبی
معلوم ہے حالیہ کشیدگی پیپلزپارٹی کوزندہ کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے وہ بھی
کسی کے خلاف کچھ کہیں گے تومیڈیااورعوام کی نظروں میں آئینگے پیپلزپارٹی کی
پہلے اوردوسرے درجے کی قیادت کاخیال ہے کہ اگرنوازشریف کے خلاف کچھ نہ کچھ
کہتے رہو،اسکی کرپشن سے پردے اٹھاتے رہو،انکشافات کرتے
رہواورخودکوپارساثابت کرتے رہوتوسیاست زندہ رہیگی نون لیگ کچھ عرصہ
توپیپلزپارٹی کے بیانات برداشت کرلیتی ہے مگرجب صبرکاپیمانہ لبریزہوجائے
توسعدرفیق اورطلال چوہدری کی جواب دینے کی ذمے داری لگادی جاتی ہے اب آپ
اسے نوراکشتی کہیں ،خفیہ دوستی کہیں یا’’میچ فیکس‘‘ کہیں مگرلگتایہ سب
مصنوعی ہی ہے آجکل پیپلزپارٹی نے اس ایک ملتوی شدہ ملاقات کورابطہ توڑنے
کابہانہ بنایاہواہے جب آصف زرداری نے’’ اینٹ سے اینٹ‘‘ بجانے والی دبنگ
تقریرفرمائی تھی اس خطاب کے بعدآصف زرداری طویل عرصے دوبئی ،برطانیہ
اورامریکہ کے درمیان کٹی پتنگ کی صورت پھرتے رہے زرداری کویہ شکایت اب
پیداہوئی کہ نوازشریف اگراس وقت میراساتھ دیتے توآج میں بھی ساتھ دے
دیتابلکہ خورشیدشاہ جیسے منجھے ہوئے راہنماکی جانب سے ’’نوازشریف کوپہلے
بچایااب نہیں بچائینگے‘‘جیساطفلانہ بیان سامنے آیاپیپلزپارٹی اگراتنی ہی
طاقتورہے کہ نوازشریف کوبچاسکتی ہے یااسے بحال کرواسکتی ہے توواقعی
نوازشریف کواسکے پاؤں میں گرناچاہئے ورنہ تونظربظاہرنوازشریف اس وقت بھی
زرداری سے زیادہ طاقتورہیں زرداری کے پاس نوازشریف کوبچانے کیلئے کوئی آلہ
دین کاچراغ موجودنہیں ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں سنجیدہ طورپر2018کے
انتخابات کی تیاری میں جت چکی ہیں یہ قبل ازوقت انتخابات ، ضروری ترمیم میں
نخرے دکھانا،نواشریف کونہ بچانے کی باتیں کرنا،سینیٹ الیکشن سے قبل حکومت
کی رخصتی کی باتیں،نااہل شخص کوپارٹی سربراہ بننے سے روکنے کی لاحاصل ترمیم
اورنوازشریف کوکیفرکردارتک پہنچانے کے بیانات سب کچھ آئندہ انتخابات کی
تیاریاں ہیں کوئی پارٹی اپناحصہ چھوڑنے پرتیارنہیں اس کیلئے بے شک کسی کی
پگڑی اچھالی جائے، لغو، فضول اوربے سروپا الزامات لگائے جائیں ، ڈینگیں
ماری جائیں ،خودکوتیس مارخان ثابت کیاجائے مقصددوسروں کوپچھاڑکرآگے بڑھناہے
اگرنوازشریف پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں بھی ہوں توفی الحال اس
کاخیال دل سے نکال دیں چوہدری نثارکی مانیں اورالیکشن کی تیاری کریں
آنیوالے انتخابات اس ملک کیلئے انتہائی اہم ہیں ان انتخابات نے ملک کے
مستقبل کاتعین کرناہے جوبھی سیاسی قائد ذاتی مفادچھوڑکرقومی مفادکی بات کرے
گااسے عوام کی جانب سے سندقبولیت عطاہوگی ذاتی مفادکی سیاست بہت ہوچکی اسی
سیاست نے پیپلزپارٹی اورنون لیگ کواس حال تک پہنچایااب ذاتی مفادکی سیاست
کوخیربادکہناضروری ہے سیاست کامحورپاکستان ہوناچاہئے۔ |