راجاظفرالحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ کے
مندرجات توکچھ اورہی کہانی سنارہے ہیں۔اس جرم میں کوئی ایک فردیاجماعت نہیں،
تمام جماعتیں شریک نکلیں ،وہ بھی جن پرسیکولرکاٹھپاہے اوروہ بھی جودینی
ومذہبی کہلاتی ہیں۔تحریک انصاف بھی،جس کے نائب سربراہ شاہ محمودقریشی نے اس
وقت سینہ پھلاکرکہاتھا:ہم اس جرم میں شریک نہیں ،جب مولانافضل الرحمن نے
کہاتھا:اس جرم میں پوری اسمبلی شریک ہے،یہ ہم سب کااجتماعی گناہ ہے۔تب تک
گناہ کی تعبیر صرف یہ تھی کہ:اصلاحات بل میں’’ حلف‘‘ کواقرارسے
بدلاگیاتھا۔پھرملک بھرمیں احتجاج ہوااوربالآخرحکومت نے بل میں’’ حلف‘‘ کے
الفاظ بحال کردیے۔اس پرملک بھرمیں یوم تشکرمنایاگیا،نوازشریف اورحکومت
کوخراج تحسین پیش کیاگیا۔سب کچھ ریکارڈ پرہے۔عیاں راچہ بیاں!
کچھ دن بعدانکشاف ہواکہ اصل خرابی اب بھی باقی ہے۔وہ ہے آرٹیکل بی سیون
اورسی سیون کی منسوخی،جن کی وجہ سے کوئی بھی قادیانی خودکومسلمان ظاہرکرکے
مسلم ووٹرزکودھوکادے سکتاہے اوراس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی نہیں کی
جاسکتی،کہ جوشقیں اس کاجوازفراہم کرتی تھیں،وہ نکالی جاچکی ہیں۔محدود سطح
پریہ بات سننے میں آتی رہی،تاہم پارلیمنٹ میں موجوددینی قیادت کاکہناتھا:بل
اپنی اصل شکل میں بحال ہوچکاہے،گویاایسی کوئی بات نہیں۔راقم کی ان دنوں کئی
دینی راہ نماؤں اوران کے قانونی مشیروں سے اس حوالے سے بات ہوئی،مگروہ
ماننے کے لیے ہی آمادہ نہ تھے،جدوجہدتودورکی بات!ان کی طرف سے مسلسل"سب
اچھاہے"کی راگنی سننے کومل رہی تھی۔پھریہ محدودآوازپھیلتی اوربڑھتی رہی،اس
میں سوشل میڈیاکاکرداراہم تھا،اب سب کااعتراف تھا:اتنابڑاہاتھ ہوااورہمیں
پتابھی نہ چلا۔پارلیمنٹ میں مسلمانوں نے جن کودینی شعائرکے تحفظ کاٹاسک دے
کربھیجاہے،ان کی یہ لاعلمی بجائے خودایک بڑاالمیہ تھی،کہ راجاظفرالحق کمیٹی
کی رپورٹ نے تومعاملے کواورگھمبیربنادیا۔اب پتاچلا:چوکیدارسونہیں رہے
تھے،بلکہ دانستہ یانادانستہ چوروں کے ساتھ مل گئے تھے۔اس پرسوائے اس کے
اورکیاکہاجاسکتاہے:
چوں کفرازکعبہ برخیزدکجاماندمسلمانی!
پارلیمنٹ میں موجودان سیاست دانوں پر،جودین کے نام پرعوام سے ووٹ لیتے
ہیں،موجودہ حالات میں،جب کہ ملک کوسیکولربنانے کی زیرزمین سازشیں عروج
پرہیں،پہلے سے بھی بڑھ کرذمے داریاں عایدہوتی ہیں۔قادیانیوں کی سرگرمیوں
میں واضح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ان کی آئین میں طے شدہ حیثیت،جس کی روسے
وہ یہودیوں،عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح ایک اقلیت ہیں،کی تبدیلی اورانھیں
مسلمان قراردلوانے کے سلسلے میں کوششیں تیزہوتی جارہی ہیں،اب توامریکاتک ان
کاہم نوابنانظرآتاہے،جس کا بیّن ثبوت جنیوا کانفرنس میں امریکی مستقل مندوب
کا بیان ہے،جس میں اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ قادیانیوں کو بھی
دوسرے مسلمانوں کے برابر حقوق دیے جائیں،نواز دور اور موجودہ حکومت میں کچھ
وزراکی قادیانیوں سے ہم دردیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،حال ہی میں ایک
نجی چینل کے پروگرام میں گفت گو کرتے ہوئے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اﷲ
خان نے ان کی حمایت میں ایسابیان دیاہے،جوملکی قوانین سے سراسرانحراف
ہے،وفاقی وزیر قانون زاہد حامداگرچہ ان دنوں باقاعدہ حلفیہ بیان دے چکے ہیں
کہ وہ ختم نبوت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور جو لوگ اجرائے نبوت کے قائل
ہیں،انھیں دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں،تاہم ان کے حوالے سے ایسی باتیں
ماضی میں سامنے آچکی ہیں،کہ وہ بھی قادیانیوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے
ہیں،میاں نواز شریف کا وہ بیان تو قارئین کو یاد ہی ہوگا،جس میں انھوں نے
قادیانیوں کو ’’بھائی ‘‘قرار دیا تھا۔پنجاب پولیس کے کئی افسران کے قادیانی
ہونے کی خبریں زیرگردش ہیں،پنجاب کے کئی علاقوں میں تعلیمی ادارے قادیانی
این جی اوزکودیے جاچکے ہیں،جس پر شدید احتجاج اور اسمبلی میں قرارداد لائے
ج انے کے باوجود معاملات جوں کے توں ہیں۔ان حالات میں ملک کی مذہبی بالخصوص
پارلیمانی قیادت کوپہلے سے بڑھ کرمستعد اور ہروقت چوکنارہناچاہیے،کسی بھی
بل اورقانون کے پیش منظرہی کونہیں،اس کے اصل مقاصدکوبھی سامنے
رکھناچاہیے۔مباداسیکولرایجنڈے کے علم بردان کے اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے ان کے ذریعے اپنے مذموم مقاصدحاصل کرلیں،اور وہ اپنی سادہ لوحی یا"جوشِ
اتحاد"میں اس کاحصہ بن جائیں،جو قوم کے مینڈیٹ کے ساتھ بدترین مذاق ہوگا۔
نئے الیکشن کے دن جوں جوں قریب آتے جارہے ہیں،سیاسی افق پر گہماگہمی میں
بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔چھے جماعتی متحدہ مجلس عمل کو فعال کرنے کے لیے
بھی تگ ودو جاری ہے،جس میں پارلیمانی نمایندگی کے حوالے سے سب سے نمایاں
جماعت جمعیت علمائے اسلام(ف)ہے۔ان کے روایتی حریف مولانا سمیع الحق اپنی
جماعت کا عمران خان کی جماعت سے اتحاد کرچکے ہیں،جس کا براہ راست نقصان
خیبر پختونخوا او ر بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام(ف)کو پہنچے گا۔شاید
اسی کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور مولانا سمیع الحق قریب آگئے ہیں،کہ دونوں
مولانا فضل الرحمن کے حریف ہیں۔ایسے میں مولانا فضل الرحمن کو ہر اس اقدام
سے بچنا ہوگا،جو ان کی سیاسی مقبولیت اور ووٹ بینک پر منفی اثر ڈال سکتا
ہے۔ان کے مخالفین ختم نبوت ترمیمی بل میں ان کی جماعت کے کردار کو بھی ان
کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں،اس لیے مولانافضل الرحمن کواپنی جماعت کے ان
ممبران سے،جوان کمیٹیوں میں شامل تھے، اس حوالے سے جواب طلب کرتے ہوئے اپنی
پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔اس حوالے سے تمام دینی سیاسی اراکین پارلیمنٹ کوبھی
قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں،فیض آباد میں تحریک لبّیک کا دھرنا،عدالت
عالیہ اورعدالت عظمی کے ایکشن لینے کے باوجودجاری ہے۔جہاں ختم نبوت کے نام
پرعوام کواکٹھاکرکے فرقہ وارانہ نفرت ان کے ذہنوں میں انڈیلی جارہی
ہے۔کیااس جگ ہنسائی کاموقع حکومت نے خودنہیں فراہم کیا،اگراس سازش کے
محرکین ومرتکبین کوپہلے ہی بے نقاب کیاجاتاتوایسی نوبت آتی؟کیادھرنے کے طول
پکڑنے سے ایک غلط روایت جنم نہیں لے رہی کہ جس کواپنی بات منوانی ہو،وہ
چندہزارکامجمع اکٹھاکرکے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادے۔
|