سیاست میں ضلع قصور بڑی سیاسی اہمیت کا حامل ہے یہاں سے
خورشید قصوری مسلم لیگ اور سردار آصف احمد علی پیپلز پارٹی کے دور میں
وزیر خارجہ منتخب ہوتے رہے ہیں جبکہ تحصیل پتوکی سے تعلق رکھنے والے رانا
پھول خان اور سابقہ وزیر اعلی پنجاب سردار عارف نکئی کی فیملی بھی پاکستان
کی سیاست میں نمایاں مقام رکھتی ہے ، یہ سیاسی خاندان ہمیشہ سے ایک دوسرے
کے خلاف الیکشن لڑتے رہے ہیں ، نکئی اور رانا گ فیملی میں 1988 سے لیکر آج
تک سیاست کے میدان میں مقابلہ ہوتا رہا ہے کبھی نکئی فیملی اسلامی جمہورئ
اتحاد ( نواز شریف ) کا حصہ رہئ تو کبھی نواز شریف کے مخالف اتحاد کا حصہ
بنی اسی طرح کبھی رانا فیملی آزاد حثیت سے اسلامی جمہوری اتحاد کے خلاف
الیکشن لڑتے رہے تو کبھی مسلم لیگ ن میں شامل ہو کے نکئی فیملی کا مقابلہ
کرتے رہے ، 1988 میں سردار عارف نکئی کے بھتیجے سردار طالب نکئی نے جمہورئ
اتحاد کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا اور 54.569 ووٹ حاصل کر کے پیپلز پارٹی
کے ملک عاشق حسین کو ہرا دیا ، انہوں نے 38.601 ووٹ حاصل کیئے ، 1990 میں
رانا حیات جو کے رانا پھول کے بھتیجے ہیں انہوں نے آزاد حثیت سے الیکشن
میں حصہ لیا اور جمہورئ اتحاد کے سردار طالب نکئی کو مات دے رانا حیات نے
51189 جبکہ عارف نکئی نے 41554 ووٹ لیئے ، 1993 کے الیکشن سے پہلے نکئی
فیملی نے نواز شریف سے بے وفائی کرتے ہوئے مسلم لیگ چھٹہ میں شمولیت اختیار
کر لی تو رانا فیملی نے موقع غنیمت جانتے ہوے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار
کر لی
1993 میں ایک بار پھر رانا حیات اور طالب نکئی کا آمنا سامنا ہوا اس بار
رانا حیات مسلم لیگ ن اور طالب نکئی مسلم لیگ چھٹہ کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ رہے
تھے طالب نکئی نے رانا حیات کو اس الیکشن میں کافی سخت مقابلہ کے بعد ہرا
دیا طالب نکئی نے 62598 جبکہ رانا حیات نے 54380 ووٹ لیئے ، سردار طالب نکئ
کے چچا سردار عارف نکئی کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ چھٹہ کے بنے اتحاد کی
وجہ سے 1995میں وزیر اعلی پنجاب بھی بنا دیا گیا تھا جو صرف ایک سال تک رہے
1997 کو یہاں ایک بار رانا حیات اور طالب نکئی میں جوڑ پڑا لیکن اس بار
رانا حیات نے طالب نکئی کو بری طرح سے مات دی رانا حیات کی فتح کا مارجن
تقریبا 35000 ووٹ کا تھا ، رانا حیات نے 67000 جبکہ طالب نکئی نے 32000 ووٹ
لیئے ، 2002 میں نئے حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ 142 ہو گیا جس میں اس بار
رانا حیات کا مقابلہ سردار عارف نکئی کے بیٹے سردار آصف نکئی سے ہوا جو
مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ رہے تھے جبکہ رانا حیات مسلم لیگ ن کے ٹکٹ
پہ مسلم لیگ ق کے آصف نکئی نے یہ مقابلہ جیت لیا انہوں نے 58420 جبکہ رانا
حیات نے 43921 ووٹ لیئے ، سال 2008 کے الیکشن میں ایک بار پھر رانا حیات
اور انکے درینہ حریف سردار طالب نکئی میں مقابلہ ہوا جس میں رانا حیات کو
ایک بار پھر سخت مقابلہ کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر انکے دوسرے
بھائی رانا اسحاق دوسرے حلقہ سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ رکن قومی اسمبلی بننے
میں کامیاب ہو گے ، 2013 میں ایک بار پھر رانا حیات اور طالب نکئی آمنے
سامنے ہوئے لیکن اس بار انہوں نے طالب نکئی کو مات دے دی رانا حیات نے مسلم
لیگ ن کے ٹکٹ پہ 85243 جبکہ طالب نکئ نے 65758 ووٹ حاصل کیئے ، جبکہ انکے
دوسرے بھائی رانا اسحاق نے دوسری مرتبہ الیکشن جیت لیا انہوں نے 2008 میں
رانا حیات کو ہرانے والے عارف نکئی کے بیٹے آصف نکئی کو بہت بری طرح ہرا
یا انکی فتح کا مارجن تقریبا تیس ہزار تھا رانا حیات کو جب 2002 میں جنرال
الیکشن میں شکست ہوئی تو انہوں نے مشرف کے کروائے بلدیاتی الیکشن میں مسلم
لیگ ن کے پلیٹ فارم پہ حصہ لیا اور مسلم لیگ ن کے پنجاب میں واحد ضلع ناظم
بنے ( رانا زاہد توصیف بھی ضلع ناظم فیصل آباد بنے تھے بعد میں وہ مسلم
لیگ ق میں شامل ہو گے تھے ) ، اسطرح رانا حیات مسلم لیگ ن کے پنجاب میں
واحد ضلع ناظم تھے جنہوں نے سرکاری مشینری کا مقابلہ کیا اور کامیاب ہو ئے
، صوبائی اسمبلی کی سیٹ جو پہلے پی پی 149 تھی یہاں سے 1988 سے 1997 تک
رانا فیملی کے رانا پھول اور رانا اقبال جیتتے رہے ، رانا پھول نے 1988
اور1990 میں یہاں سے کامیای حاصل کی 1993 میں انکے بیٹے رانا اقبال نے مسلم
لیگ چھٹہ کے ملک مہر دین کو ہرا یا ، جبکہ 1997 میں انہوں نے سردار عارف
ڈوگر کو شکست دی 2002 میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس سیٹ کوپی پی 184 کر
دیا گیا تو یہاں مقابلہ رانا پھول کے بیٹے رانا اقبال اور انکے بھتیجے رانا
سرفراز میں ہوا جو مسلم لیگ ق میں شامل ہو چکے تھے رانا سرفراز نے 27894
ووٹ جبکہ رانا اقبال نے 20488 ووٹ حاصل کیئے ۔ 2008 میں ایک بار پھر دونوں
کزنز کا آپس میں مقابلہ ہوا اور اس بار رانا اقبال نے اپنے کزن رانا
سرفراز کو ہرا دیا انہوں نے 27689 ووٹ حاصل کیئے جبکہ رانا سرفراز نے 23084
ووٹ لیئے رانا اقبال کو مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا 2013.
میں رانا اقبال چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی بنے اور پنجاب اسمبلی کے
دوسری مدت کے سپیکر پنجاب اسمبلی بنے ، انہوں نے 41772 ووٹ جبکہ انے حریف
پاکستان تحریک انصاف کے رانا اسلم نے 25198 ووٹ لیئے ، جبکہ دوسرا حلقہ pp
150 سے 1988 سے 1993 تک سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عارف نکئی جمہوری اتحاد
اور مسلم لیگ چٹھہ گروپ کی طرف سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں ،
1997 میں انکا مقابلہ پہلی مرتبہ اس حلقہ سے انکے درینہ حریف اور مسلم لیگ
ن کے رانا حیات سے پڑا جس میں رانا حیات نے سردار عارف نکئی کو مات دے دی
رانا حیات نے 29436 جبکہ عارف نکئی نے 17280 ووٹ لیئے 2002 میں یہاں پھر
مقابلہ نکئی اور رانا فیملی میں ہوا سردار عارف نکئی سال 2000 میں وفات پا
گئے انکے بعد انکے بیٹے پرویز حسن نکئی نے الیکشن لڑا جو انہوں نے مسلم لیگ
ن کے رانا حیات کو ہرا کر جیت لیا سال 2008 میں پرویز حسن نکئی بھی وفات پا
گئے تھے ، پرویز حسن نکئی نے 29410 جبکہ رانا حیات نے 19644 ووٹ لیئے ،
2008 میں بھی یہ سیٹ نکئی فیملی کے سردار آصف نکئی نے جیت لی انہو ں نے
27144 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے رانا حیات نے 19512 ووٹ لیئے ، 2013
میں یہاں سے رانا فیملی نے الیکشن نہیں لڑا یہاں مسلم لیگ ن نے ٹکٹ چوہدری
ابرا ہیم خان کو دیا انتہا ئی سخت مقابلہ کے بعد سردار آصف نکئی نے مسلم
لیگ ن کے امیدوار کو صرف 800 ووٹوں سے شکست دی یہ سیٹ نکئی فیملی کے پاس
واحد سیٹ تھی جو اسنے 2013 کے الیکشن میں حاصل کی باقی قومی اسمبلی کی
دونوں اور صوبائی پہ بھی وہ الیکشن ہار چکے تھے ، نکئی فیملی کے سربرہ
سردار عارف نکئی چار بار رکن پنجاب اسمبلی بنے 1985 سے 1988 پھر 1988 سے
1990 پھر 1990 سے 1993 اور 1993 سے 1996 تک وہ اس دوران پنجاب کے وزیر
خزانہ ، وزیر جنگلات ، وزیر ہاوسنگ اور وزیر اعلی پنجاب بھی رہے انکے تین
بیٹے جن میں جن میں سردار پرویز حسن نکئی (مرحوم) پنجاب اسمبلی کے ممبر رہ
چکے ہیں دوسرے بیٹے سردار آصف نکئی وفاقی وزیر ہاوسنگ رہ چکے ہیں 2002 سے
2007 تک اور موجودہ پنجاب اسمبلی کے ممبر ہیں اور انکے ایک بیٹے سردار عاطف
نکئی پتوکی کے تحصیل ناظم رہ چکے ہیں ، جبکہ انکے بھتیجے سردار طالب نکئی
1996 ، 2002 اور 2008 میں قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں ، جبکہ دوسری طرف
الحاج رانا پھول خان کی فیملی کی بات کی جا ئے تو رانا پھول خان 1970 ،
1977، 1985 ، اور 1990 میں پنجاب اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں ، وہ اس دوران
وزیر زراعت ، وزیر صحت ، وزیر قانون رہ چکے ہیں انکے بیٹے رانا اقبال خان ،
1993 ، 1997 ، 2008 2013 میں رکن پنجاب اسمبلی بنے 1997 میں وو وزیر جنگلات
اور سیاحت بنے 2008 میں وہ سپیکر پنجاب اسمبلی بنے اگست 2008 میں رانا
اقبال کو نگران گورنر بنا یا گیا ، 2013 میں ایک بار پھر وہسپیکر پنجاب
اسمبلی بنے ، رانا پھول کے بھتیجے رانا حیات خان 1990 ، 1997 اور 2013 میں
رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ 1997 میں انہوں نے سا بق وزیر اعلی
پنجاب سردار عارف نکئی کو انکی آبائی سیٹ سے ہرا یا تھا اسکے بعد سے آج
تک رانا فیملی یہ سیٹ نہ جیت سکی اور نکئی فیملی ہر بار وہ سیٹ جیتتی رہی ،
2005 میں رانا حیات خان بلدیاتی الیکشن میں ضلع ناظم قصور بھی منتخب ہو چکے
ہیں جبکہ انکے بیٹے رانا سکندر اقبال خان موجودہ چیرمین ضلع کونسل قصور ہیں
، رانا پھول کے دوسرے بھتیجے اور رانا حیات کے بھائی رانا اسحاق دو بار رکن
قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ انکے ایک بھتیجے رانا سرفراز خان 2002
میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ رکن پنجاب اسمبلی بنے رانا اور نکئی فیملی کی
سیاست تو سالوں پرانی ہے جس میں یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو نیچا دیکھا
تے آئے ہیں اور حکومت کے اعلی عہدوں پی فائز رہے ہیں ہیں قصور کا رانا
خاندان شریف د فیملی کے انتہا ئی قریب سمجھا جا تا ہے یہی وجہ ہے کے رانا
فیملی نے مشکل وقت میں بھی مسلم لیگ ن اور شریف فیملی کا ساتھ دیا ہے اور
شریف فیملی نے بھی پورے ضلع کی سیاست انکے ہاتھ میں دے رکھی ہے اور پنجاب
اسمبلی کی دو بار اسپیکر شپ ، قومی اسمبلی کے دو حلقوں اور صوبائی اسمبلی
کے دو حلقوں کی سیٹ بھی رانا فیملی کے پاس ہی رہی ہیں رانا فیملی کے پرانے
حریف نکئی خاندان بھی انتہائی مظوط حریف ہے رانا اقبال اور رانا حیات نے
قصور میں بہت سے ترقیاتی کام شروع کروا رکھے ہیں امید ہے ا گلے الیکشن میں
ایک بار پھر رانا اور نکئی فیملی میں کانٹے کا جوڑ پڑے گا رانا فیملی تو
مسلم لیگ ن سے ہی الیکشن لڑے گی لیکن نکئی فیملی کے بارے کچھ بھی کہنا قبل
ازوقت ہے کیونکہ وہ حالات دیکھ کر پارٹیاں بھی بدلتے رہتے ہیں اگر وہ تحریک
انصاف میں شامل ہو جاتے ہیں تو عمران خان کا حمایتی ووٹ بھی نکئی فیملی کو
پڑے گا جس سے رانا فیملی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے خیر یہ تو
آنے والا وقت ہی بتائے گا کے کون کدھر سے الیکشن لڑتا ہے اور کون جیتتا ہے
کیونکہ دونوں خاندان سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ووٹر کو قائل کرنے
کا فن جانتے ہیں ، نکئی فیملی کا تعلق جٹ فیملی سے ہے جس وجہ سے دونوں
خاندان برادری ووٹ کا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ اس علاقہ میں بڑی برادری
رانا ، جٹ ، آرائیں اور ڈوگر ہے- |