بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ایران کے صدر حسن روحانی نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر اپنے خطاب میں عراق اور
شام میں داعش کے خلاف کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں
سے فعال اس گروہ کا خاتمہ ہو گیا جس نے گناہ ، تباہی اور خونریزی کے سوا
کچھ نہیں دیا۔اس موقع پر انہوں نے تمام جنگجوؤں، آیت اﷲ خامنہ ای اور شام و
عراق کی مسلح افواج کا بھی شکریہ اداکیا۔حسن روحانی نے ایران کی پاسداران
انقلاب اور اس کی غیر ملکی ونگ القدس فورس کو بھی شاندار فتح کی مبارکباد
دی اور کہا کہ اصل کام تو شام، عراق اور لبنان کی عوام اور وہاں کی مسلح
فورسز نے مکمل کیا۔ہم نے تو صرف اپنی اسلامی اور مذہبی ذمہ داریاں پوری
کرتے ان کی مدد کی۔دوسری طرف ایرانی میڈیا کی طرف سے القدس فورس کے کمانڈر
قاسم سلیمانی کی شام کی سرحد پر تصاویر دکھائی گئیں کہا گیا کہ انہوں نے
بذات خود اس آپریشن کی ہدایت دیں جس کے ذریعے سے شدت پسند تنظیم کے زیر اثر
آخری گڑھ کو بھی دوبارہ حاصل کیا گیا۔خیال رہے کہ ایران کا شمار شام کے صدر
بشار الاسد کی مکمل حمایت کرنے والے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے۔ ایران وہ
واحد ملک ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں رضاکار داعش کے خلاف جنگ کے لیے شام
اور عراق میں بھیج رکھے ہیں۔ایرانی صدر اور ایرانی فورس القدس فورس کی جانب
سے یہ بیان اس وقت منظر عام پر سامنے آیا جب وہ روس کے دورہ کے موقع پر
روسی شہر سوچی میں موجود ہیں جہاں شام کی موجودہ صورتحال پر ایران ترکی اور
شام مل کر امن کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔روس کی افواج اس وقت شام میں جاری
خانہ جنگی میں شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کے تحفظ کے لیے موجود ہیں
۔روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اپنے ایرانی اور ترک ہم منصب سے ملاقات کے بعد
کہا کہ شام کی برسر اقتدار قیادت ملک میں قیام امن کا عمل آگے بڑھانے،
دستوری اصلاحات اور انتخابات کرانے کی پابند ہے، شام میں سیاسی تصفیے کو
حتمی شکل دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ جنیوا میں ہونے والے شامی مذاکرات کی
روشنی میں شام کے بحران کو حل کیا جائے گا۔ صدر پوٹن نے اتفاق کیا کہ شام
میں امن وامان کے قیام کے لیے تمام فریقوں کو پیچھے ہٹنا ہوگا۔ شامی
اپوزیشن اور اسد رجیم دونوں کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔صدر پوٹن
کا کہنا تھا کہ ہم شام میں جاری بحران کے پرامن سیاسی حل کے ایک نئے مرحلے
میں داخل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ترکی، روس اور ایران کو شام کے نجات دہندہ
قرار دیا۔روسی شہر سوچی میں طویل ملاقات میں داعش کے خلاف جاری جنگ کو آگے
بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی۔
شام کے بحران کے حوالہ سے دوسری اہم پیش رفت سعودی عرب کے شہرریاض میں شامی
اپوزیشن کی کانفرنس ہے اس کانفرنس میں ایک سو چالیس سے زائدشخصیات شرکت کر
رہی ہیں جن کا تعلق شام کے تمام سیاسی اور ان عسکری گروہوں سے ہے جو
بشارالاسد کو ہٹانے کے لیے شامی افواج سے لڑ رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک
اہم گروپوں میں شامی قومی اتحاد اور قاہرہ گروپ ہے جن کے بالترتیب 23اور
21نمائندے موجود ہیں جبکہ عسکری گروپوں کے بھی 21اراکین کانفرنس میں موجود
ہیں ۔ شامی قومی اتحاد کو برطانیہ فرانس اور کئی خلیجی ممالک شامی عوام کا
واحد جائز نمائندہ گروپ تسلیم کر چکے ہیں۔ ریاض میں دوروزہ اس کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے اسٹیفن ڈی میستورہ نے کہا کہ ’’شام کے مستقبل کو سامنے
رکھنا نا گزیر ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق شام کے بحران کا
سیاسی حل تلاش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں‘‘۔جبکہ سعودی وزیر خارجہ
عادل الجبیرنے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شامی اپوزیشن کو یقین دلایا کہ
سعودی عرب ہمیشہ کی طرح شامی عوام کے ساتھ کھڑا ہے تا کہ ایک منصفانہ حل تک
پہنچنے کے حوالے سے اس کی امیدیں پوری ہو سکیں۔شام کے بحران کے لیے شامی
موافقت کے ساتھ ایک ایسا حل نا گزیر ہے جو شامی عوام کی امیدوں کو یقینی
بنائے اور جنیوا اعلامیے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی بنیاد پر
شامیوں کے دکھوں اور مسائل کا خاتمہ کرے۔
یہ دونوں اہم پیش رفت ثابت کرتی ہیں کہ شام کے تمام گروہ (خواہ اس کا تعلق
بشارالاسد سے ہو یا اس کے مخالف انقلابی گروپ سے ) یقین رکھتے ہیں کہ داعش
کا خاتمہ ہونا چاہیے ، موجود بحران کا سیاسی حل نکالا جائے اور عوام گزشتہ
کئی سالوں سے جس اذیت سے دوچار ہیں اس سے انہیں نجات دلائی جائے ۔ لیکن
افسوسناک بات یہ ہے کہ شامی شہروں میں یہ صورتحال عملی طور پر نظر نہیں
آرہی ۔ شامی افواج ابھی تک سنی اکثریت علاقوں میں قتل و غارت میں مصروف ہے
اور روسی افواج بھی اس حوالے سے ان کا ساتھ دے رہی ہیں ۔امریکہ کی جانب سے
بھی داعش کے خلاف ہونے والے کئی حملوں میں شامی شہری نقصان اٹھا رہے
ہیں۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے 2014 میں عراق اور شام کے بڑے حصے پر
قبضہ کر کے اپنی نام نہاد خلافت قائم کر رکھی تھی، جو اب شکست کھا چکی ہے
اور چند ایک مقامات پر باقی رہ گئی ہے۔جبکہ شام میں جاری بحران کا آغاز
2011سے ہوا تھا۔ گزشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک چار لاکھ سے
زائد شامی جاں بحق ہو چکے ہیں۔اس جنگ میں ملک چھوڑ کر جانے والے اور مختلف
ممالک میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعدا دپچاس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ان
میں 51فیصد مرد اور 49 فیصدخواتین شامل ہیں ۔ اس تعداد میں پچاس فیصد بچے
شامل ہیں جبکہ 15فیصد تعدا د ان بچوں کی ہے جو 4سال سے کم عمر کے ہیں ۔ملک
کے اندر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 60لاکھ سے زائد ہے ۔اس صورتحال
میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض داعش کو اس سارے بحران کی ذمہ دار قرار
نہیں دیا جا سکتا۔لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ شام میں موجودتمام
گروپوں کے لیے اپنی اپنی داعش موجود ہے جس کے خلاف وہ جنگ جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ سنی گروپوں کے لیے داعش بشارالاسد کی فورسز ہیں جو سنی علاقوں میں سنی
مجاہدین کے ساتھ ساتھ سنی عوام کا قتل عام بھی کررہی ہیں ان کے خلاف کیمیکل
ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے ان کو ایران ، حزب اﷲ ،روس کی
بھرپور امداد مل رہی ہے۔بشار الاسد کی افواج کے لیے ہر وہ سنی گروپ داعش سے
تعلق رکھتا ہے جو بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف کام کر رہا ہے ۔ امریکہ اور
روس اپنے اپنے عالمی مفاد کے لیے یہاں موجود ہیں جن کو دہشت گردی کے خاتمے
سے ذیادہ اپنا مفاد عزیز ہے ۔ایرانی فورس اور حزب اﷲ بھی بشار الاسد کے
اقتدار کے تحفظ کے لیے ہر سنی گروپ کو نشانہ بنانے کے لیے شامی فورسز کا
بھرپور ساتھ دے رہی ہیں ۔البتہ سعودی عرب کی تمام تر سفارتی حمایت شام کے
اپوزیشن گروپوں کے ساتھ ہے ۔ سعودی عرب بشار الاسد رجیم کو مشرق وسطیٰ میں
اپنے خلاف سمجھتا ہے اور خاص طور پر اس صورت میں جبکہ حزب اﷲ اور ایرانی
فورسز سعودی عرب پر حملہ کرنے والے حوثی باغیوں کی بھی بھرپور حمایت کر رہے
ہوں۔
شام میں موجود تمام فریقین کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اس بحران کا حل
تمام کسی بھی فریق کی عدم موجودگی میں نہیں نکالا جا سکتا۔ شامی حکومت اور
اپوزیشن کو اس بحران کے حل کے لیے ایک ساتھ بیٹھ کر حل کرنا ہے ۔ اس کے لیے
یہ بھی ضروری ہے کہ شام میں بیرونی قوتیں باہر نکل جائیں۔یہ بات خوش آئند
ہے کہ دنوں گروہ اور مسائل کے حل کے لیے دیگر قوتیں جنیوا اعلامیے کے عمل
پر اتفاق کرتی نظر آتی ہے ۔اس لیے فوری طور پر جنیوا اعلامیے پر عملدرآمد
کا آغاز کیا جانا چاہیے ورنہ ہر کوئی اپنی اپنی داعش کا وجود مٹانے کے لیے
لڑتا رہے گا اور بحران کسی صورت حل نہیں ہو سکے گا۔
|