پوری قوم کو لکڑی کے بیٹ سے جو دھرنے کی پْٹھ لگی ہے……اس
نے شدت ہی پکڑ لی ہے...اسلام آباد میں دھرنا شروع ہوتے ہی طلباء نے شور مچا
دیا کہ راستے بند ہیں پیپر کینسل کرو……جہاں راستے کھلے تھے وہاں سے کچھ
طالب علم اداروں میں پہنچ گئے ……ادارے موجود طلباء کا پرچہ لینے یا نہ لینے
کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ طلباء نے شور مچا دیا کہ پرچہ کینسل کرو
ورنہ ہم دھرنا دیں گے…… آدھے طلباء کا ایسے کیسے پیپر لیں گے...پوچھا گیاکہ
بھئی دو پیپر انتظامیہ کو بنانے پڑیں گے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟اس پر بھی جواب
بڑا ہی عجیب اور انوکھی منطق پر مبنی تھا...کہ دوستوں کے ساتھ پیپر دینا ہے...پیپر
روکتے ہو کہ دیں دھرنا؟؟؟انتظامیہ مجبور نظر آرہی تھی اس سے پہلے کہ کوئی
حل تجویز ہوپانچ سات لوگ دھر نے پر بیٹھ گئے اور پیپر کینسل کرنا ہی بنا……ابھی
کل کی بات ہے پولیس نے روڈ بند کر دیا کہ بڑی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے……صنف
نازک کا ایک قافلہ گاڑی سے نیچے اترا...نا صرف ایل ایل بی ڈگری کا رعب
جھاڑا بلکہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ راستہ کھولتے ہو یا ہم دیں دھرنا؟؟؟؟ہماری
دو خوبیاں ہیں ہم سب نہ صرف مسائل پیدا کرنے والے بلکہ ان کا اپنی عقل کے
مطابق’’ ماڑا موٹا‘‘ حل بھی خود ہی تجویز کرنے والے ہیں اور آج کل ہر مسئلے
کا موجودہ حل دھرنا تصور کیا جاتاہے……اس روش سے اب ہوگاصرف یہ کہ درست
دھرنے والوں کی کسی بھی بات پر کسی نے کان نہیں دھرنے.۔۔۔. اور فیض آباد نے
بند ہی رہنا ہے۔۔۔۔ویسے تو ہم عام دھرنے کی دھمکی دینے والوں کو دھرنے
پردھرلینا چاہیے……. مگر ہمیں سمجھانے یا دھرنے والے خود بھی دھرنے میں ہیں...خاموشی
عین عبادت کے مقولے پر عمل پیرا ہیں کہ اگر جو زبان ہلائی اور بتیس چونتیس
دانتوں نے دھرنا دے ڈالا تو کیا ہو گا……؟؟؟ . مجھے تو لگتا ہے کہ وہ وقت
دور نہیں کہ گھر میں ہونے والی لڑائیوں کی وجہ سے ہونے والے درد سر کا علاج
بھی یہی دو چمچ دھرنا ہوگا...
|