ستر برس گزر گئے۔وہ جذبے ماند نہیں پڑے ،قربانی کا
سلیقہ نہیں بدلا۔ نہ کشمیر کی وادیوں میں آزادی کا سویرا پھوٹا نہ ان کے
آنگن میں سکھ کی گھڑی اتری۔تکمیل پاکستان کی تحریک جاری رہی۔
برصغیر میں آزادی کی تحریک جوں جوں زور پکڑتی گئی --- ریاست جموں و کشمیر
میں حصول آزادی کا نعرہ توں توں بلند ہوتا گیا--۱۳- جولائی ۱۹۳۱ء کے بائیس
فرزند ان توحید کے لہو نے قریہ قریہ شمعیں روشن کر دیں ---اس خون کا اعجاز
تھا کہ ہر لمحہـ ،ہر پل کشمیر کی آزادی کا مطالبہ بڑھتا چلا گیا--۱۹۴۵-ء کے
انتحابات میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے اسی فیصد نشستیں
حاصل کر کے مسلمانوں کے موقف کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی---ڈوگرہ
حکمرانوں کی سیاست ہمالیہ کی چوٹی سے گری ۔کشمیری مسلمانوں کی اس سیاسی
بیداری پر پابندی، ڈوگروں کی ناگواری کا بین ثبوت تھا- پابندی کے خلاف
احتجاج کے بعد ریاستی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے جیلیں اور عقوبت خانے
کھول دئیے گئے ۔ ایک طویل اور صبر آْزما جدو جہد کے بعد ۳ جون ۱۹۴۷ء کو
برصغیر تقسیم ہوا ۵۶- ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ۔تقسیم کے فارمولے کی
رو سے یہ ریاستیں ،آبادی،معاشی اور جغرافیا ئی حقائق کے پیش نظرپاکستان یا
بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی تھیں۔تقسیم ہند کے اس فارمولے کے تحت ،اسی
فیصدی مسلم آبادی کی ریاست جموں و کشمیر کے خلاف تمام حقائق کے باوجود
مہاراجہ ہری سنگھ ،کانگریسی لیڈروں لارڈمونٹ بیٹن نے سازشوں کا جال بنا۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے منافقانہ چال چلی۔پاکستان کے ساتھ ایک Stand Still
Agreement کیا۔لیکن یہ محض ایک فریب تھا۔دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے
کی ایک مکارانہ کوشش ---اور کانگریسی لیڈروں کی منافقانہ چال تھی--۱۶- اگست
۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے بارے میں ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان ہوا---اس ایوارڈ
نے مسلم آبادی کی اکژیت کا ضلع گورداس پور---بغیر کسی وجہ ،جواز اور قانون
---بھا رت کے حوالے کر دیا ---یہی وہ دروازہ تھا جہاں سے بھارت کشمیر پر
قابض ہو سکتا تھا ۔ آنے والے وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا اور ۲۷اکتوبر
۱۹۴۷ء کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں ۔ پاکستان کے ساتھ Stand
Still Agreement طے کربے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے جمو ں میں مسلم اکثریت
کو موت کے گھاٹ اتار نے کا فیصلہ کر لیا ۔ راشڑ سیوک سنگھ کے خونخوار
بھیڑیوں کو مسلم آبادی پر چھوڑ دیا گیا---قتل و غارت گری ،مسلم خواتین کی
بے حرمتی ---جموں میں قیامت سے پہلے قیامت بیت گئی---ہزاروں مسلمانوں کو
پاکستان لے جانے کا دھوکہ دے کر بسوں اور ٹرکوں میں ڈالا گیا---خون تو پہلے
ہی کیا جا چکا تھا ، چنانچہ ریاست جموں کشمیر کے مسلمان سراپہ احتجاج بن
گئے -۲۵- اگست ۱۹۴۷ء کو یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان سے الحاق کی خاطر سر
دھڑ کی بازی لگانے کا عزم کر لیا--- کشمیر کی کوہستانی آبادی کے شیر دل اٹھ
کھڑے ہوئے ---پونچھ، باغ،گلگت ، کوٹلی میر پور اور مظفرآبادکے علاوہ چھو ٹے
بڑے قصبے سراپا جدوجہد بن گئے۔ ڈوگرہ فوج اور راشڑیہ سیوک سنگھ کے غنڈے
میدانی آبادی پر ٹوٹ پڑے--- کشمیر میں اس کھلے ظلم کو دیکھتے ہوئے قبائلی
علاقے میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار بھائی کشمیر کی جانب چل پڑے
---جس کے ہاتھ میں جو آیا ---لے کر نکل کھڑا ہوا۔ جنوبی ایشیا میں کشمیر کی
جغرافیائی پوزیشن اور وقوع کے بارے میں معمولی سی معلومات رکھنے والا انسان
بھی اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ریاست جموں و کشمیر ،
پاکستان کا جزو لانیفک ہے کیونکہ ، ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی پچاسی
فیصد سے زائد اکثریت مسلمان ہے ۔ تقسیم ہند کے اصولوں اور دو قومی نظریے کی
رو سے مسلم اکثریت کی اس ریاست کو ہرحال میں پاکستان کا حصہ ہی ہونا چاہیے
۔ کشمیر اور پاکستان تہذیب و تمدن،روایات و تاریخی ورثے ، رسم و رواج اور
سوچ و فکر کے لازوال اور اٹوٹ رشتوں سے منسلک ہیں۔ اس لیے دونوں کو ایک
دوسرے سے جدا کرنا تاریخ، تہذیب اور دین و مذہب کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی سات سو میل لمبی سر حد پاکستان سے ملتی ہے جبکہ
بھارت کی ریاست سے ملنے والی سرحد کی لمبائی صرف دو سو میل ہے، جس میں چند
میل کے میدانی علاقے کو چھوڑ کر باقی تمام سرحد نا قابل عبور پہاڑوں پر
مشتمل ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی تینوں جغرافیائی اکائیاں ، صوبہ کشمیر اور
شمالی علاقہ جات(گلگت، بلتستان ، لداخ) براہ راست پاکستان سے منسلک ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کے تمام قدرتی راستے پاکستان کی طرف نکلتے ہیں، جن میں
سے راولپنڈی سری نگر روڈ، جموں سیالکوٹ روڈ اور شاہراہ ریشم بطور خاص قابل
ذکر ہیں، جبکہ کشمیر کا کوئی قدرتی زمینی راستہ بھارت کی طرف نہیں
نکلتا---وادی کشمیر تک رسائی کے لیے بھارت کو پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں
میں بانہال کے مقام پر ۹ کلو میٹر لمبی سرنگ بنانا پڑی ہے۔اس کے باوجود
سردیوں کے یخ بستہ موسم میں سری نگر سے بھارت کی جانب جانے والی سڑک نا
قابل استعما ل ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موسم سرما میں ریاستی صدر مقام سری
نگر سے جموں منتقل کرنا پڑتا ہے، جبکہ سری نگر سے پاکستان کے دارلحکومت
اسلام آباد کو جانے والی سڑک سارا سال کھلی رہتی ہے اور ۱۹۴۷ء سے قبل وادی
کشمیر کا باہر کی دنیاسے رابطہ صرف اسی سڑک کے ذریعہ تھا۔ ریاست کے تمام
دریا، دریائے سندھ، دریائے جہلم ،دریائے چناب،دریائے راوی،دریائے توی وغیرہ
پاکستان کی جانب بہتے ہیں۔ریاست کے تمام ندی نالوں کا بہاوٓ اور پہاڑی
سلسلوں کا رخ بھی پاکستان کی جانب ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر
میں برسنے والے یا اس سر زمیں سے ابلنے وآلے پانی کے ہر قطرے کا رخ پاکستان
کی جانب ہے۔
کشمیر اور پاکستان کی اقتصادیات باہم مگر لازم و ملزوم ہیں۔کشمیر کی
پیداوار کا بڑا حصہ جنگلات ہیں، جن کی لکڑی دریاوں کے ذریعے انتہائی کم وقت
میں راولپنڈی، سیالکوٹ، جہلم اور گجرات کی منڈیوں تک انتہائی کم لاگت میں
پہنچائی جا سکتی ہے ۔جہلم ویلی روڈ کے ذریعے سری نگر سے راولپنڈی تک بس کا
سفر صرف سات گھنٹے تک کا ہے ‘جبکہ سری نگر سے دہلی تک کا سفر کئی دنوں تک
کا ہے۔سری نگر سے دہلی جانے والی سڑک برفباری‘لینڈ سلائڈنگ اور دوسرے موسمی
اثرات کے نتیجے میں سال کا بیشتر حصہ بند رہتی ہے اور وادی کشمیر کا رابطہ
بھارت سے کٹ جاتا ہے ۔جنگلات کے علاوہ ریاست کی معیشت کا بڑا انحصار پھلوں
‘ہینڈی کرافٹس‘قالین بافی اور شال بافی پر ہے ۔ان تمام مصنوعات کی قدرتی
منڈی راولپنڈی اور لاہور میں ‘جہاں مختصر وقت میں کم لاگت میں کشمیری
مصنوعات پہنچائی جا سکتی ہیں‘جبکہ بھارت کے شہروں دہلی ‘چندی گڑھ ‘بمبئی
اور کلکتہ تک یہ اشیاء پہنچانے پر اصل قیمت سے دس گناہ زیادہ لاگت آتی ہے ۔ریاست
جموں و کشمیر کی مصنوعات کو برصغیر پاک و ہند سے باہر کی دنیا تک پہنچانے
کا واحد ذریعہ بھی پاکستان ہی ہے ۔کراچی کشمیر کی قریب ترین بندرگاہ
ہے۔کشمیر سڑکوں کے ذریعے اس بین الاقوامی بندرگاہ سے منسلک ہے جبکہ کلکتہ
اور بمبئی کشمیر کی پہنچ سے باہر اور زمینی اعتبار سے بہت دور ہیں۔
یہ ہی وہ وجوہ ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ۱۹۴۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے
عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ پر زور دیا تھا کہ وہ ریاست کا الحاق پاکستان سے
کرے ۔لیکن اس وقت کے معزول و مفرور مہاراجہ نے بغیر کسی اخلاقی و آئینی
جواز اور قانونی اختیارکے ان تمام تاریخی ‘تہذیبی س‘نظریاتی ‘جغرافیائی
‘سیاسی اور اقتصادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاست کا بھارت کے ساتھ
مصنوعی الحاق کر لیا۔
ریاستی عوام نے بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں
کیا۔بھارت کی حکومتوں اور افواج کے مظالم اور ریاستی جبر نے ان کے سروں کو
تو جھکا لیا ‘لیکن وہ ان کے دلوں سے پاکستان سے محبت اور وابستگی کو کبھی
نکال نہ سکے ۔گزشتہ نصف صدی کی غلامی کی طویل تاریک رات میں کشمیر کی ایک
پوری نسل نے پاکستان کا خواب اپنے سینوں میں بساکر بچپن سے جوانی اور جوانی
سے بڑھاپے تک کا سفر طے کیا۔ہر کشمیری بزرگ مرتے وقت اپنی اولاد کو اپنے
قریب بلاتا اور اکھڑتی سانسوں اور ڈوبتی نبضوں کے ساتھ اپنی اولاد کو آخری
وصیت کرتا ہوازندگی کی سرحد عبور کر جاتا۔۔۔!!
’’میرے بیٹو!میں نے ساری زندگی پاکستان کے حسین خواب دیکھ کر بسر کی ہے
‘لیکن میری زندگی میں کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن سکا۔اگر وہ مبارک گھڑی
تمہاری زندگی میں آئے کہ کشمیر بھارت کی غلامی کے شکنجے سے نکل کر اسلامی
جمہوریہ پاکستان کا حصہ بن جائے تو تم میری قبر پر آکر مجھے یہ خوش خبری
سنا دیناتاکہ میری روح کو سکون آسکے ۔۔۔۔ اور اگر وہ مبارک ساعت تمہاری
زندگی میں بھی نہ آئے ۔۔۔۔تو یہی وصیت تم بھی اپنی اولاد کو کرجانا۔۔۔۔‘‘ریاستی
عوام کی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے یہ جذباتی قلبی وابستگی بھارتی حکمرانوں
سے بھی کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ایک مدت تک بھارتی حکومتوں اور افواج نے
کشمیر کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھا ہے اور کشمیریوں سے وہی سلوک روا رکھا ہے
جو فاتح قومیں مفتوح قوموں سے روا رکھتی ہیں۔ہزار ہا دنوں کا جبر سہہ کر
کشمیر کے وفا شعاروں نے علم آزادی اس طرح بلند کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان
کا راستہ روک سکی ہے نہ روک پائے گی۔۔۔۔۵۰ہزار شہیدوں نے اپنے لہو کی سرخی
سیھ زادی کا عنوان لکھ دیا ہے۔یہ ایسا نوشہ دیوار ہے جو بھارت کو روس بننے
سے پہلے پڑھ لینا چاہیے ۔
٭٭٭
|