بعض اوقات انتہا ئی احتیاط سے اٹھائے جانے والے اقدامات
میں بھی کوئی غلطی سرزدہوجاتی ہے۔جب سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز
بعض اوقات انتہا ئی احتیاط سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بھی کوئی غلطی
سرزدہوجاتی ہے۔جب سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز روس کے تاریخی دور ے
پر ماسکو پہنچے تو ایئر پورٹ پر پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعہ بھی ایک
خبربن گیاکہ جہاز سے اترتے ہوئے محترم کا عربی لبادہ برقی زینے میں اٹک
گیا-یہ ایک عام واقعہ ہے اور کسی بھی مسافر کے ساتھ پیش آسکتا ہے لیکن جب
سعودی عرب کے فرماں روا ماسکو میں قدم رکھنے والے ہوں تو پھر ناقدین کو اس
کی علامتی اہمیت تلاش کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
روس اور سعودی عرب کے روابط کا خوشگوار رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ شاہ
سلمان ابھی روس سے روانہ ہوئے ہی تھے کہ پینٹاگون کی طرف سے ایک بیان جاری
ہوا کہ محکمہ خارجہ نے ۱۵ارب ڈالر کے"تھاڈ" میزائل سسٹم کی سعودی عرب کو
فروخت کے بل پر دستخط کر دیے ہیں ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب
نے۴۴"تھاڈ"لانچرز،۳۶۰/ میزائل ،۱۶/کنٹرول اسٹیشن اور۷/راڈار خریدنے کی
درخواست کی تھی۔امریکی افسران نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ فروخت ۱۱۰/ ارب
ڈالر کے پیکیج کا حصہ ہے، جس پر صدر ٹرمپ نے مئی میں سعودی عرب کے دورے میں
دستخط کیے تھے۔ پینٹاگون کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ تھاڈ میزائل سسٹم
کے ذریعے سعودی عرب خطے میں کسی بھی ریاست کی طرف سے ہونے والے میزائل
حملوں سے خود کو محفوظ رکھ سکے گا۔
امریکی اعلان کا وقت بہت اہم ہے۔ یہ اعلان روسی افسران کے اس دعوے کے جواب
میں کیا گیا ہے کہ سعودی عرب روس سے۴۰۰/ ایس میزائل خریدنے میں دلچسپی
رکھتا ہے۔ سعودی عرب ٹرمپ انتظامیہ پر ''تھاڈ'' میزائل سسٹم فروخت کرنے کی
منظوری کے لیے دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہااور واشنگٹن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ
امریکا روس کو سعودی ہتھیاروں کی مارکیٹ میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ سعودی
عرب اور روس کے تعلقات کا ڈرامائی آغاز اس وقت ہوا جب سعودی انٹیلی جنس چیف
شہزادہ بندر بن سلطان نے روس کا دورہ کیا اورصدر پیوٹن کے ساتھ چار گھنٹے
طویل ملاقات کی۔ شہزادہ بندر بن سلطان نے کریملن کو شام میں بشار انتظامیہ
کی حمایت سے دست کش ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ایک
پرکشش پیشکش بھی کی۔ بندر بن سلطان کے دورے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روس
اور سعودی عرب مل کر عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے
لیے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک اور روس کے ذریعے کوئی
میکینزم لائیں۔ بندر بن سلطان نے وعدہ کیا کہ شام میں تشکیل پانے والی کسی
بھی نئی حکومت کے دور میں روس وہاں اپنا بحری اڈا برقرار رکھ سکے گا اور
جہادی ردعمل سے بھی محفوظ رہے گا۔
۲۰۱۴ءکے آغازمیں روس اور مغرب کے درمیان نئی سرد جنگ کے آثار نمودار ہونا
شروع ہوئے جس کے بعد یوکرین میں حکومت کی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ ۲۰۱۵ء میں
اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد سعودی عرب میں
بھی'' تبدیلی'' نظر آئی اور سال کا اختتام روس کی شام میں فوجی مداخلت کے
ساتھ ہوا۔ بندر کے چھوڑے ہوئے بیج اب پھوٹ رہے ہیں۔ روس کی معیشت مغربی
پابندیوں کی جکڑ کو محسوس کر رہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا
گرنا کریملن کے لیے ڈھکے چھپے پیغام کا درجہ رکھتا ہے۔ امریکا میں شیل گیس
انڈسٹری بھی ایک بڑا چیلنج ہے، جس کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے سعودی عرب
اور روس کامل بیٹھناناگزیرہے۔ شاہ سلمان کادورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو
نئی جہتوں سے آشنا کرنے میں اہم کردارادا کرسکتاہے۔ پیوٹن نے انکشاف کیا ہے
کہ قیمتیں بڑھانے کے لیے تیل کی پیداوارکم کرنے کے معاہدے میں۲۰۱۸ء کے آخر
تک توسیع کردی گئی ہے۔
روسی صدر کے مطابق سعودی فرماں روا سے بات چیت انتہائی اہم، معلوماتی اور
قابل اعتماد تھی۔ روسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام کے بحران کو ختم کرنے
کیلئےسعودی عرب کا جھکاؤ ماسکو کی طرف ہے۔ ماسکو اور ریاض جوہری توانائی،
خلائی مہمات، بنیادی ڈھانچے اور ہتھیاروں کے معاہدوں میں بھی دلچسپی رکھتے
ہیں تاہم تیل کی پیداوار سے متعلق بندر بن سلطان کی پیشکش سعودی روس تعلقات
کا ایک اہم موضوع ہے اور تیل کے نرخ میں حالیہ اضافہ اس کی تصدیق بھی کر
رہا ہے۔ دونوں ممالک آئندہ سال کے آخر تک تیل کی پیداوار کم رکھنا چاہتے
ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی قیادت روس سے اپنے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔
کیا وہ مشرق وسطی میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ شاہ
سلمان کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماوں نے اپنی توجہ
مشترکہ مفادات پر مرکوز رکھنے کا ارادہ کرلیا ہے۔یہ کہنا درست ہے کہ سعودی
عرب مغرب سے تھوڑا سا فاصلہ رکھتے ہوئے اب روس کے ساتھ معاملات کو وسعت دے
کر خارجہ پالیسی میں توازن لارہا ہے۔ سعودی عرب مشترکہ مفادات پر اپنی
شراکت داری میں تنوع لانا چاہتا ہے۔ شام کے معاملے میں روس سے سعودیہ کے
اختلافات ایک بڑی حقیقت ہیں مگر اس کے باوجود اشتراک عمل کی گنجائش نکالی
جارہی ہے۔ سعودی قیادت حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اپنا رہی ہے۔
ادھر۵نومبرکوسعودی عرب میں نئی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شہزادہ الولید بن طلال
سمیت گیارہ شہزادوں،۳۸موجودہ اور سابق وزرا نائبین اور سرمایہ کاروں کو
حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں اس اینٹی کرپشن کمیٹی کی تشکیل کے چند
گھنٹوں بعد کی گئیں جس کے سربراہ ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔اس سارے عمل
کوسرکاری طور پر بدعنوانی کے خلاف کریک ڈان سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن
سعودی عرب کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے
بیشتر لوگ اپنے سیاسی نظریات اور خاندانی وابستگیوں کی وجہ سے گرفتار کیے
گئے ہیں۔
ویسے تو سعودی شہزادے جتنی بڑی تعداد میں جتنے اہم کاروباری وسرکاری عہدوں
پرپائے جاتے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ ملک میں کوئی بھی غلط یا صحیح
کاروباری سرگرمی ہواوراس میں کوئی نہ کوئی شہزادشامل نہ ہو،اس کے باوجود
گرفتار شدگان کی فہرست بتاتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد صرف کرپشن کا
خاتمہ نہیں ہے۔مثال کے طورپرگرفتارہونے والوں میں سابق فرمانرواشاہ عبداللہ
کے بیٹے اوربعض قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان
گرفتاریوں کاایک ہدف شاہ عبداللہ کی باقیات اوران کی سوچ کوشاہی محل سے
نکالنا بھی تھا۔شہزادہ متعب بن عبد اللہ سے نیشنل گارڈز کی وزارت لے کر
خالد بن ایاف کو دی گئی ہے جبکہ عادل فقیہہ سے معیشت کے امورکا قلمدان لے
کرولی عہد کے نائب محمد تویجری کو دے دیاگیا ہے۔ اس پیش رفت کے ذریعے ولی
عہد محمد بن سلمان نے ملک کے تین اہم اداروں دفاع، سکیورٹی اور معیشت پر
کنٹرول حاصل کرلیاہے جواس سے قبل سعودی خاندان کی الگ الگ شاخوں کے کنٹرول
میں تھے۔اب دیکھنایہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انتہائی مضبوط طاقت کاتنہا
مالک۳۱سالہ نوجوان ولی عہد کے فیصلوں سے خطے اوربین الاقوامی سیاست کااونٹ
کس کروٹ بیٹھتاہے؟ |