حلف اور اقرار نامہ میں فرق‘ حقیقت کیا ہے؟

تابش قیوم
ختم نبوت قانون میں تبدیلی کے حوالہ سے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پاس ہونا خوش آئند ہے تاہم اس مذموم عمل میں ملوث ذمہ داران کو سزائیں نہ ملنے سے قوم میں پائی جانے والی بے چینی ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔ اسلام آباد میں دھرنا بھی اسی مقصد کے تحت جاری ہے اور شرکاء کا مطالبہ ہے کہ سینئر سیاستدان راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور وزیر قانون زاہد حامد سمیت دیگر ذمہ داران کو ان کے عہدوں سے برطرف کر کے سخت سزا دی جائے۔ اس دوران پاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے اخبارات میں ’’ختم نبوت کے حلف نامہ کے عنوان میں تبدیلی کا الزام‘ حقیقت کیا ہے؟‘‘کے عنوان کے تحت اشتہارات بھی شائع کروائے گئے جن میں ایک مرتبہ پھر خصوصی نوٹ لکھتے ہوئے وہی پرانی بات دہرائی گئی ہے کہ Oath(حلف) اور affirmation(اقرار) ایک ہی چیز ہیں اس لئے اس لفظ کی تبدیلی سے حلف نامہ کے عنوان میں کوئی قانونی یا معنوی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ یعنی حکومت کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔ درج ذیل سطور میں ہم ان شاء اﷲ واضح کریں گے کہ حلف اور اقرار میں کیا فرق ہے؟تاہم میں حکومتی ذمہ داران کی توجہ ایک مرتبہ پھر اسی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ ختم نبوت کا معاملہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکے۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے نام پر بننے والے ملک میں اس قانون پر نقب لگایا جائے یہ کوئی اہل ایمان برداشت نہیں کرسکتا۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ناموس اور حرمت کو داؤ پر لگانے کا وار اتنی چالاکی سے کیا گیا تھا کہ بعض علماء کرام اور دیگر لوگ بھی منقسم ہوگئے کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور یہ اچانک شور کیسا ہے؟۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ قانونی دستاویزات میں ہر لفظ کے پیچھے ایک اہم پہلو ہوتا ہے۔ محض تجزیاتی و جذباتی آراء قانون نہیں بنتیں بلکہ یہ دستاویزات عملی حیثیت میں قوموں کے مستقبل اور ان کی شناخت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ شیخ رشید صاحب نے جب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جذباتی اندازمیں توجہ دلائی کہ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں سے ناموس رسالت کا قانون نکال دیا گیا ہے تو پر کچھ مذہبی جماعتوں نے تو فوری احتجاج کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی لیکن حکومت کی اتحادی مذہبی جماعتوں نے اسے پروپیگنڈا قرار دیا اور یہی شق پیش کر کے کہا کہ بتاؤ کہاں تبدیلی ہوئی ہے؟ بعض نے مناظرے کا چیلنج دیا اور انگریزی سیکھنے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح یہ بھی کہاکہ Affirmation اور حلف ایک ہی چیز ہیں۔ اس خوفناک ترجمے پر میں بعد میں آتا ہوں پہلے یہ بتاتا چلوں کہ فرق اس شق کے الفاظ میں نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے لکھی ایک سطر میں تھا جو اس طرح سے ہے۔

ترمیم سے پہلے امیدوار فارم پر ختم نبوت کا اقرار یہ کہ کر کرتا تھا کہ ‘‘میں دیانت داری سے قسم کھاتا ہوں’’ جبکہ ترمیم کے بعداس کے الفاظ یہ ہو گئے ہیں کہ’’میں دیانتداری سے اقرار کرتا ہوں’’ یعنی فرق ‘‘قسم’’ Oath اور ‘‘اقرار’’ Affirmation کا ہے۔ اگر یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں تو پھر تبدیلی کی ضرورت کیوں اور کس لئے پیش آئی؟فارم پر جہاں امیدوار دستخط کرتا ہے وہاں بھی اسی سے منسلک تبدیلی کر کے اب Statement of Oath کی جگہ Solemn Affirmation لکھ دیا گیا ہے۔ Oath اور Affirmation کا معمہ ہے کیا؟

آپ حیران ہونگے کہ جس مسئلہ کو ہمارے بعض علماء اور وزراء معمولی سمجھ کر کہ رہے ہیں کہ یہ ایک ہی چیز ہے اس کی جڑیں 305 سال پرانی ہیں جب ایک Quakers نامی عیسائی فرقہ نے حلف لینے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم صرف اقرار کریں گے کیونکہ کے ان کے نزدیک خدا ہر انسان میں ہے اور اسے علیحدہ سے قسم کھانے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح کے دیگر عقائد کی بنیاد پر انہوں نے Oath کی بجائے Affirmation کا سہارا لیا اور 1695 میں Quakers act 1695 منظور کروایا۔ اس قانون میں بھی وہی الفاظ درج ہیں جو موجودہ ترمیم میں شامل کئے گئے ہیں۔
An Act that the Solemne Affirmation & Declaration of the People called
Quakers shall be accepted instead of an Oath.

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ 200 سال قبل اسکاٹ لینڈکے ملحدین نے بھی حلف کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کردی کے ہم تو خدا کو مانتے ہی نہیں تو پھر قسم کیوں کھائیں اور اس طرح انہوں نے بھی قانون سازی کرواکے یہ شرط ختم کروادی۔ یہ سارا کھیل دراصل اس تاریخ کا حصہ ہے جب مغرب نے چرچ اور مذہب سے اپنا رشتہ توڑ کر لادینیت اور سیکولرازم کی بنیاد رکھی۔ چارلز براڈلاف نامی ایک شخص جس نے قومی سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی اسی نے Affirmation Law یا Solemn Affirmation کی بھی بنیاد رکھی۔وہ 1880 میں برطانیہ میں الیکشن جیت کر منتخب ہوا مگر اس کو حلف دینے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ ملحد یعنی لادین تھا اور عیسائیت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس نے حلف کے بجائے اقرار کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی اور اس سے سیٹ چھین لی گئی تاہم بعد میں ضمنی انتخابات کروائے گئے جس پر وہ ایک مرتبہ پھر جیت گیا اور پھر سے حلف سے انکار کیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا‘ بالآخر یہ سلسلہ جاری رہا اور ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ پانچویں دفعہ جاکر وہ 1886ء میں حلف لینے پر راضی ہوا جس کے الفاظ میں اپنی مرضی کی ترمیم کی اور پھراس نے 1888 میں Oath Act پیش کیا جس کے ذریعہ لادین لوگوں اور ملحدین کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ حلف کی بجائے فقط اختیار پر گزارا کریں۔ یہ قانون ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا جس میں کلیدی کردار چارلس براڈلاف ہی کا تھا جو مغرب میں سیکولر قانون سازی کی بنیاد بنا۔ چارلز کی بیٹی بھی ملحد اور فری تھنکر تھی جسے عیسائیوں نے قتل کردیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ سیکولرازم کے علمبردار ملحد چارلز کی موت 1891 میں واقع ہوئی اور اس جنازے میں 21 سالہ ایک نوجوان موجود تھا جس کانام موہن داس گاندھی تھا جس نے آگے چل کر بھارتی سیکولر آئین کی بنیاد رکھی۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ مغرب میں آج بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اپنا عقیدہ چھپا کر محض اقرار کا سہارا لے کر کئی ملحد عیسائی بن کر پارلیمنٹ کے ممبر بنے جن کی اصلیت بعد میں سامنے آئی۔ان دونوں الفاظ کے قانونی اثرات کیا ہیں یہ ثانوی بات ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ ن لیگ کو آخر 99% مسلمان آبادی والے ملک میں حلف کو اقرار میں بدلنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ مسئلہ تو مغرب کی ان ریاستوں میں پیش آیا یا آتا رہا ہے جو مکمل سیکولر اور لادین ہیں کیونکہ وہاں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور کسی ایسی ہستی پر یقین نہیں رکھتے جسے وہ خدا یا اس کے برابر سمجھتے ہوں اور اس کی قسم کھانے کے لیئے تیار ہوں جبکہ ایک اسلامی ملک میں جس کے آئین میں بالادستی قرآن و سنت کی ہو اور حلف اور قسم کی بے انتہا اہمیت ہو وہاں اس قسم کی خوفناک تبدیلی محض دفتری غلطی نہیں بلکہ ایک گہرا وار تھا جو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران جماعت واضح طور پر ملک کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہو کر اس کو لبرل ازم کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تاکہ عالمی طاقتوں کی مکمل سپورٹ حاصل کر کے اپنا اقتدار مستحکم کیا جاسکے اور سیکولرازم کی بنیادوں کو پاکستان کے آئین میں مضبوط کیا جاسکے۔

اب یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ باقاعدہ سیکولرازم کا شب خون پاکستان کے آئین پر مارا گیا ہے مگر اس کا ختم نبوت سے کیا تعلق ہے؟ اس کیلئے ہمیں چند ایک باتوں کی طرف غور کرنا ہو گا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کوعدالت میں جھوٹ بولنے کی بنیادپر نااہل قرار دیا گیا جبکہ اب انتخابی اصلاحات بل کے نام پر جو ترمیم شدہ قانون قومی اسمبلی میں منظور کیاگیا ہے اس کے مطابق آئندہ جھوٹ بولنے والے کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکے گا۔ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں ختم نبوت کی شق سے متعلق دعویٰ کیاگیا کہ اس کی عبارت جوں کی توں ہے لیکن اس میں ڈیکلریشن پلس اوتھ کی جگہ صرف ڈیکلریشن/ایفرمیشن لکھ کر اوتھ کا لفظ ختم کر دیا گیا یعنی قسم اور حلفا اقرار کے الفاظ کلی طور پر حذف کر دیے گئے ۔ ہم اگر ان باتوں کی جانب تھوڑا غور کریں تو اس کے خوفناک نتائج واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں اور صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ گہری سازش کے تحت کیا گیا تھا۔ ختم نبوت کے حوالہ سے اس تبدیلی کے بعد اگر کوئی مرزائی ختم نبوت کا جھوٹا اقرار کر کے اسمبلی پہنچ جائے اور بعد میں اس امر کا پتہ چلے کہ یہ تو مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے تواس ترمیم کی وجہ سے صرف جھوٹ بولنے کی بنیاد پر اسے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا تھاکیونکہ حلف کے الفاظ تو پہلے ہی حذف کر دیے گئے تھے۔ یعنی اس انداز میں قانونی تبدیلی کی گئی کہ تھوڑا جھول رہ جائے اور آئندہ ملحد قسم کے لوگوں اور ختم نبوت کو تسلیم نہ کرنے والے قادیانیوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ اسی طرح مسلمانوں کی ووٹرلسٹوں میں قادیانیوں کو شامل کرنے کا معاملہ بھی انتہائی حساس تھااس لئے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ تبدیلیاں کس کے کہنے پر اور کس کو خوش کرنے کیلئے کی گئی تھیں!سوال یہ ہے کہ تمام حقائق واضح ہونے کے بعد کیا اب بھی اس سازش کے پیچھے کارفرما عناصر کے اصل عزائم کو قوم کے سامنے لاکر قانونی کارروائی نہیں کرنی چاہئے تاکہ آئندہ چور راستوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ آئین اور نظریہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو روکا جاسکے۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.